مہنگی تعلیم، شرح خواندگی کے اضافہ میں بڑی رکاوٹ

مہنگی تعلیم، شرح خواندگی کے اضافہ میں بڑی رکاوٹ
مہنگی تعلیم، شرح خواندگی کے اضافہ میں بڑی رکاوٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم لوگ اگرچہ، شرح خواندگی میں اضافہ کرنے کے لئے، ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق تو ہر وقت حتی المقدور بہت محنت و ہمت سے تگ و دو کرتے رہتے ہیں اور اس معاملے پر جب متعلقہ سرکاری افسران اور وزراء صاحبان اپنی کارکردگی ظاہر کرتے ہیں تو وقتی طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تو اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر وفاقی، صوبائی یا ڈویژنل سطحوں پر خوب کوششیں بروئے کار لا کر بہت اچھے نتائج فراہم کر رہے ہیں۔

یعنی ان کی کاوشوں سے نہ صرف جہالت میں جلد کمی اور تعلیمی معیار میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے، بلکہ ان کی شب و روز کی مثبت کارکردگی کو بیشتر حلقوں اور مقامات پر سراہا بھی جا رہا ہے، جبکہ کسی غیر جانبدار اور انصاف پسند تجزیہ نگاروں کی نظروں میں بلند بانگ دعوؤں پر مبنی کارکردگی، اکثر اوقات زمین بوس ہونے کی اطلاعات کا عندیہ ملتا ہے۔

اس طرح تعلیمی حکام اور وزراء صاحبان کی مبالغہ آرائی کا ڈھول بجانے کی کارکردگی، اصل حقائق کی عکاسی سے کافی پیچھے اور سست روی کا شکار نظر آتی ہے۔ ہمیں اس گفتار عملی کا کھلے دل و دماغ سے اعتراف کرکے اپنی کوتاہیوں ، غلط بیانیوں اور روایتی چالبازیوں سے گریز و اجتناب کا صاف اور سیدھا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

ابھی چند روز قبل، جب صوبہ پنجاب میں 31دسمبر کو تعلیمی اداروں میں موسم سرما کے دوران ایک ہفتہ کی تعطیلات ختم ہوئیں تو اسی روز مزید ایک ہفتہ کی تعطیلات کرنے کا اعلان کر دیا گیا، تاکہ سکولوں کے طلبہ اور طالبات کو مزید ایک ہفتہ کے لئے گھروں سے باہر نکلنے کے شدید دھند، سموگ اور جسمانی پریشانی کے اثرات سے محفوظ رکھا جا سکے، لیکن عملی طور پر پنجاب کے کئی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں حکومت کے اس اعلان پر عمل کرنے کی بجائے ان کو اس بہانے یا جواز پر کھلا رکھا گیا کہ ان دنوں، ان اداروں میں طلبہ اور طالبات کے امتحانات ہو رہے تھے۔

اس اطلاع پر گوجرانوالہ کے ایک سرکاری افسر کے حوالے سے یہ خبر بھی ایک قومی روزنامہ میں دیکھنے میں آئی کہ جو پرائیویٹ تعلیمی ادارے، جنوری 2019ء کے پہلے ہفتے کے دوران، سرکاری اعلان کے برعکس اپنے تعلیمی ادارے کھول کر طلبہ اور طالبات کو اپنے من پسند انتظامات کے تحت، کسی انداز کی تعلیم و تدریس وغیرہ بھی کررہے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کو مبلغ 20 ہزار، روزانہ کی بنیاد پر جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ خبر مورخہ 3جنوری 2019ء کو ایک قومی روزنامہ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ تازہ مثال پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض یا کئی تعلیمی ادارے حکومتی اعلانات یا پالیسیوں کے مطابق عمل نہیں کرتے۔ اس طرح سرکاری تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کی کارکردگی میں کچھ فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ ایک اور اہم بات تعلیمی فروغ کے سرکاری دعوؤں اور اصل حقائق کے مابین واضح تفاوت، غالباً اس لئے سالہا سال سے مسلسل چلا آ رہا ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد موجودہ طلبہ اور طالبات کی تعداد سے کہیں کم ہے۔

یوں وہ ہر شہر، قصبہ اور گاؤں کے نونہالوں کو سرکاری اداروں میں تعلیم دینے سے قاصر اور بے بس ہیں، جبکہ اسی بناء پر طلبہ اور طالبات کی بیشتر تعداد کو تعلیم دینے کی خاطر، اکثر مقامات پر پرائیویٹ سکول اور کالجز گلیوں اور محلوں میں چھوٹے مکانات اور محدود سائز کی جگہوں پر بھی کھل گئے ہیں۔
اگرچہ حکومت اپنے محدود مالی اور تعلیمی وسائل کی بناء پر کھلے مقامات اور کشادہ عمارات، مذکورہ بالا پرائیویٹ اداروں کو تو فراہم نہیں کر سکتی، لیکن ان کی حوصلہ افزائی کے لئے، ان کو کچھ مالی امداد دے کر تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے پر آمادہ اور راغب کرتی رہتی ہے۔

یہ اندازِ کار، کم و بیش ہر شہر اور علاقے میں تاحال رواں دواں ہے۔ پرائیویٹ سکول و کالجز کے بارے میں یہ قابلِ ذکر حقیقت ملک بھر کے بیشتر مقامات سے اکثر دیکھنے اور سننے میں آتی ہے کہ وہاں طلبہ و طالبات سے ان کو تعلیم دینے کی غرض سے جو فیسیں وصول کی جاتی ہیں، وہ بیشتر مقامات پر ابتدائی جماعتوں میں بھی ہزاروں روپے ماہانہ فی بچہ یا بچی وصول کی جاتی ہیں۔

اس طرح چند بچوں کو بھی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لئے والدین کو ہزاروں روپے ماہانہ کے لحاظ سے ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔

اگر موجودہ شرح پر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی فیسیں جاری رکھی جائیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ ایسے تعلیمی اداروں میں عام مالی وسائل کے حامل لوگوں کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت جاری رکھنے کا عمل بہت مشکل، بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔

ابھی حال ہی میں فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار نے اپنے از خود اختیارات کے تحت پانچ ہزار روپے ماہانہ یا زیادہ فیس لینے والے سکول مالکان کو 20فیصد فیس کم کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ملک یا کسی صوبے میں تعلیمی شرح خواندگی میں مطلوبہ حد تک اضافہ کرنا ممکن نہیں لگتا، لہٰذااس بارے میں مزید سنجیدہ روی سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -کالم -