سوشل میڈیا کی افواہوں پر کان نہ دھریں!
کل کی تازہ بہ تازہ خبر یہ تھی کہ ایران نے امریکہ پر جوابی حملہ کر دیا ہے۔ خود ایرانی رہنماؤں کے مطابق یہ حملہ امریکی منہ پر دو طمانچے تھے جو ایران نے امریکہ کے دو گالوں پر جڑ دیئے…… ایک دائیں گال پر اور دوسرا بائیں رخسار پر…… یہ دو رخسار ایران کے ہمسائے عراق میں تھے (اور ہیں) ایک نام ارابیل (Arabil) امریکی ائر بیس ہے جو کردستان کا ایک معروف شہر ہے اور کئی سو ایکڑوں پر پھیلی ہوئی یہ ائر بیس نہائت اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں تقریباً تین ہزار امریکی فوجی مقیم رہتے ہیں۔ آرمر، آرٹلری اور ائر کے مروجہ اور متعلقہ اسلحہ جات اور ان کا گولہ بارود بھی یہیں سٹیشن کیا گیا ہے…… اور دوسرا رخسار اس مستقر کے بائیں طرف ہے اور اس کا نام عین الاسد بیس (Base) ہے۔ اس میں بھی وہی کچھ رکھا ہوا ہے جو ارابیل مستقر میں ہے۔ ایران نے ان دونوں پر پرسوں شب حملہ کیا اور تقریباً پندرہ بیس میزائل داغے اور دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں 80امریکی فوجی جہنم رسید کر دیئے گئے ہیں۔
اس کے جواب میں کل شب امریکی صدر نے کہا کہ دونوں مستقروں پر ایران نے میزائل ضرور فائر کئے تھے لیکن ان حملوں میں کوئی ایک امریکی بھی نہ تو مارا گیا اور نہ زخمی ہوا۔ البتہ ایک جگہ ایک معمولی سا گڑھا دکھایا گیا جو ایرانی میزائلوں کی فائرنگ کے سبب بن گیا تھا۔ یہ گڑھا ویسا ہی تھا جیسا گزشتہ برس 26فروری کو انڈین ائر فورس کے پاکستانی بالاکوٹ پر حملے میں دیکھا گیا تھا…… بعض واقعات میں کتنی مماثلت ہوتی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ ان میزائل حملوں سے واضح ہو گیا ہے کہ ایران کسی نہ کسی طرح کی صلح جوئی کا طلب گار ہے۔ خود ایرانی رہنماؤں نے بھی بیان دیا کہ ایران امریکہ سے کھلی جنگ نہیں چاہتا لیکن وہ بدلہ ضرور لے گا۔ اب ایران نے بدلہ تو لے لیا اور ایک قتل کے جواب میں دو میزائل حملے بھی کر دیئے۔ لیکن اس تنازع کے امریکی عمل اور ایرانی ردعمل میں کئی نمایاں فرق تلاش کئے جا سکتے ہیں …… پہلا فرق یہ ہے کہ اس حملے میں ایران کا تو ٹاپ کا جنرل مارا گیا اور عراق کا ایک کمانڈر المہندس بھی مارا گیا اور ان دو کے علاوہ 8مزید ایرانی/ عراقی فوجی بھی ڈرون حملے میں مارے گئے
لیکن ایران کے میزائلوں کے حملوں میں کون سا امریکی جنرل کیفر کردار کوپہنچایا گیا؟…… دوسرا فرق یہ ہے کہ ایران نے یہ حملے امریکی سرزمین (Main Land) پر نہیں، اپنے حلیف عراق کی سرزمین پر کئے۔ امریکی سرزمین تو عراق سے ہزاروں میل دور اور محفوظ ہے…… تیسرا فرق یہ ہے کہ امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کے کار قافلے پر جو حملہ کیا اس کی باقاعدہ Footage جاری کی جبکہ ایران نے ارابیل اور عین الاسد پر حالوں کی جو Footage(بتوسط بی بی سی) جاری کی ہے وہ بہت مبہم اور غیر واضح ہے۔ کاش کسی امریکی کو بھی خاک و خون میں تڑپتا دکھایا جاتا!…… کاش کسی امریکی طیارے / ٹینک / توپ کو بھی آگ کے شعلوں میں لپٹا کسی سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کیا جاتا!!
بعض عسکری تجزیہ نگاروں کی رائے میں عراق کی امریکی Bases پر یہ حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایرانی میزائل، امریکی مفادات کو نشانہ بنا سکتے ہیں …… اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایران نے امریکی مفادات کو ٹارگٹ کیا، کئی میزائل امریکی مستقروں پر گرے اور ان کی وجہ سے امریکی چھاؤنیوں کو نقصان بھی پہنچا۔ بہر کیف کچھ بھی ہو ایران نے جیسا تیسا طمانچہ تو امریکی منہ پر ضرور مار دیا۔ ہم ایران کی اس جراتِ رندانہ کی داد دیتے ہیں۔ ایران اور امریکہ کا عسکری مقابلہ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن ایران کے ردعمل کی ٹائمنگ کی تاثیر سے بھی انکار ممکن نہیں۔ امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے پاکستان آرمی چیف کے ساتھ جو بات چیت کی اس پر گزشتہ دو دنوں سے ہمارے میڈیا کے علاوہ دنیا بھر کے میڈیا پر تبصرے نشر ہوتے رہے۔ انڈیا ان میں پیش پیش تھا۔ لیکن انڈیا کے کسی مبصر نے اب تک یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کسی امریکی وزیر دفاع، وزیر خارجہ یا اور کسی سیاسی / عسکری شخصیت نے انڈیا کے چیف آف ڈیفنس سٹاف (CDS) یا کسی آرمی چیف سے بھی کوئی بات کی ہے یا کسی نے مودی سے یہ پوچھا ہے کہ ان کا ردعمل کیا ہے۔
اب پاکستان میں وابستہ مفادات کا مافیا سوشل میڈیا پر سرگرمِ عمل ہے۔ طرح طرح کی افواہیں اڑائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے مستقبل کے بارے میں درجنوں اندیشے بیان فرمائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اصل ٹارگٹ ایران نہیں، پاکستان ہے۔ امریکہ نے جنرل سلیمانی کو نہیں مارا، خدانخواستہ کسی پاکستانی جنرل کو نشانہ بنایا ہے اسی طرح کی کئی بے سروپا حکائتیں گھڑ کر پاکستانی عوام کو ”مشتری ہشیار باش“ کی چتاؤنیاں دی جا رہی ہیں۔ پرانے بیانیے دہرائے جا رہے ہیں کہ اصل نشانہ پاکستانی Nukesہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایران کے گردا گرد جو ممالک ہیں ان میں 50ہزار امریکی صف بند ہیں۔ افغانستان، سعودی عرب، امارات، بحرین، قطر، کوئت، عراق اور شام وغیرہ میں ہزاروں کی تعداد میں امریکی موجود ہیں اور مزید جلد پہنچنے والے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ پاکستانی قوم کا اجتماعی وژن کتنا حقیقت پسندانہ اور کتنا تابناک ہے۔ ایک دن پوری قومی اسمبلی اپنے سروس چیفس کی مدتِ ملازمت میں متنازعہ توسیع کی منظوری دیتی ہے تو اگلے روز سینیٹ بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ کل سارا دن بعض پاکستانی میڈیا ہاؤسز یہ ”سیاپا“ کرتے رہے کہ نون لیگ نے اپنے سابقہ بیانئے سے یوٹرن لے کر آدھے پاکستانیوں کا ناس مار دیا ہے۔وابستہ مفادات والے اینکرز رات گئے تک سر پیٹتے رہے کہ نوازشریف نے یہ کیا کیا، مریم نواز کیوں چپ ہیں، خواجہ آصف نے ترمیم کے حق میں ووٹ کیوں دیا۔73اراکینِ قومی اسمبلی نے باجماعت اپنی پارٹی کے گزشتہ بیانیئے کے علی الرغم جوق در جوق آرمی کے حق میں ووٹ کیوں دیا، ووٹ کو عزت دو کے نعرے کیا ہوئے؟؟…… اور اس طرح کے سابقہ بیانات کو آن ائر کرکے ٹی وی سکرینوں کے توسط سے عوام کو بتایا جاتا رہا کہ نون لیگ میں پرویز رشید، خرم دستگیر اور نثار چیمہ کے سوا ساری کی ساری پارٹی ”اوصافِ مردانگی“ سے عاری ہے۔ لیکن پاکستانی قوم کی اجتماعی عظمت کو سلام کہ اس نے دشمنوں کے سٹرٹیجک عزائم کو ناکام بنانے میں بے نظیر ملی وحدت اور یک جہتی کا بے مثال مظاہرہ کیا……سچی بات یہ ہے کہ کثرت میں وحدت کا جو ثبوت پاکستانیوں نے 7اور 8جنوری 2020ء کو دیا اس نے گزشتہ 72برس کی تمام سیاسی کثافتوں کو دھو ڈالا ہے!
پاکستان کے سیاسی اور عسکری زعماؤں کی بصیرت کا اندازہ بھی لگائیں کہ وہ قوم کی امنگوں کی کس سکیل پر ترجمانی کر رہی ہے۔ عراق کے دو عسکری مستقروں پر حملوں کے فوراً بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ایران۔ امریکہ تنازعہ پر اپنا پہلا ردعمل دیا اور کہا: ”میں نے قریشی (شاہ محمود) کو کہا ہے کہ وہ ایران، سعودی عرب اور امریکی وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں کریں اور (چیف آف آرمی سٹاف) جنرل باجوہ سے بھی کہا ہے کہ وہ متعلقہ عسکری کمانڈروں سے رابطہ کریں اور پاکستان کا واضح پیغام ان کو پہنچائیں اور ان کو بتائیں کہ پاکستان امن کے لئے اپنا رول ادا کرنے کو تیار ہے لیکن دوبارہ کسی بھی جنگ میں شریک نہیں ہوگا“…… ’دوبارہ‘ کا لفظ وزیراعظم کو کیوں کہنا پڑا، اس سے قارئین بخوبی آگاہ ہیں ……
ایران نے جب عراقی مستقروں پر حملہ کیا تھا تو اس کے بعد امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر (Mark Esper) نے پاکستانی آرمی چیف جنرل باوجوہ کو فون کیا اور کہا: ”امریکہ، جنگ نہیں چاہتا لیکن اگر ضرورت پڑی تو ’زوردار‘ جواب دے گا۔“…… اس پر پاکستانی آرمی چیف نے مارک ایسپر کو جواب دیا: ”ہم چاہیں گے کہ صورتِ حال ٹھنڈی ہو کر معمول کی طرف آئے اور ایسے تمام اقدامات کو سپورٹ کریں گے جو اس خطے میں قیام امن کے لئے اٹھائے جائیں گے۔ ہم نے اس خطے میں امن کے لئے بڑی کوششیں کیں اور قربانیاں دی ہیں اور دہشت گردی کا قلع قمع کیا ہے…… ہم افغانستان میں بھی امن کی طرف قدم بڑھانے کو مساعی جاری رکھیں گے۔ ہم نئے تنازع کھڑے کرنے کے حامی نہیں۔ اور پرانے جھگڑوں کے حل کی کوششوں کو بھی پٹڑی سے اترنے نہیں دیں گے“۔
کل ایک اور اہم واقعہ یہ بھی رونما ہوا کہ پاکستان میں چینی سفیر یاؤ جنگ (Yao Jing) اور ایرانی سفیر سید محمد علی حسینی نے آرمی چیف جنرل باجوہ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں، خطے کی سلامتی کی صورتِ حال پر تبادلہ ء خیال کیا اور ایران۔ امریکہ سٹینڈ آف پر بات چیت ہوئی…… کل مجھ سے ایک دوست نے پوچھا کہ اس سٹینڈ آف میں چین کس طرف ہے تو میں نے ان کو جواب دیا کہ یہی بات چینی سفیر نے پاکستانی آرمی چیف سے ڈسکس کی ہو گی۔ اس کا مطلب یہ لینا چاہیے کہ چین، مشرقِ وسطیٰ کی اس بارودی (Explosive) صورتِ حال سے غافل نہیں اور اسے معلوم ہے کہ کب کیا کرنا ہے…… ایک اور قاری نے روس کے ردعمل کا پوچھا تو میرا جواب یہ تھا کہ روس وہی کچھ کرے گا جو اس کے اپنے مفاد میں ہو گا کہ یہ سب اپنے اپنے مفادات کا کھیل ہے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی لوکیشن اور ایران کے ساتھ مسلکی اور مذہبی روابط سے بے خبر نہیں۔ اور یہ جو ہمارے سوشل میڈیا پر طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم کیا جا رہا ہے، اس سے گریز ہر پاکستانی کا فرض ہے۔