امریکہ کی ایران کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش، صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات محدود کرنے کیلئے ایوان نمائند گان میں قرار داد، ایرانی حملے میں امریکی اڈہ تباہ ہو گیا 224زخمی فوجی اسرائیل منتقل کئے گئے، صہیونی صحافی

    امریکہ کی ایران کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش، صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نیویارک، تہران (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)مشرقِ وسطی میں امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران سے سنجیدگی کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے،جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی وجہ امریکہ کی جانب سے دفاعی اقدام تھا،  مذاکرات  کا مقصد ہے کہ بین الاقوامی امن و امان کو مزید نقصان نہ ہو  اور ایران  مزید جارحیت اختیار نہ کرے،  مشرق وسطی میں اپنے اہلکاروں اور مفادات کے تحفظ کے لیے  ضرورت کے تحت مزید اقدام اٹھائیں گے۔اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا امریکی خط میں کہا گیا ہے کہ جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی وجہ امریکہ کی جانب سے دفاعی اقدام تھا۔ امریکی سفیر کیلی کرافٹ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ امریکہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہے  جس کا مقصد ہے کہ بین الاقوامی امن و امان کو مزید نقصان نہ ہو اور ایرانی حکومت مزید جارحیت اختیار نہ کرے۔امریکہ نے نکتہ پیش کیا کہ اقوام متحدہ کی شق 51 کے تحت جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کرنا درست فیصلہ تھا۔ امریکہ نے مزید کہا کہ وہ مشرق وسطی میں اپنے اہلکاروں اور مفادات کے تحفظ کے لیے  ضرورت کے تحت مزید اقدام اٹھائیں گے۔قبل ازیں اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے  بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل سیکرٹری کے نام خط لکھا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ   ایران عراق کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔ ایرانی مشن کی جانب سے جاری ایک خط میں کہا ہے کہ آپریشن مخصوص اور ٹارگٹڈ فوجی اہداف کے خلاف تھا اس لئے عام شہریوں اور علاقے میں شہری املاک کو مجموعی طور پر کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران نہ کشیدگی میں اضافہ چاہتا ہے نہ جنگ لیکن اپنے دفاع کی خاطر ایران نے عراق میں امریکی اڈے کو نشانہ بنا کر ایک مناسب اور خاطر خواہ جواب دیا ہے۔ایرانی سفیر نے لکھا آپریشن بہت احتیاط اور تیاری سے کیا گیا جس میں صرف امریکی دفاعی مفادات کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا نہ کوئی شہری متاثر ہوا۔ دوسری طرف ایران کے رہبر اعلی علی خامنہ ای نے عراق میں اتحادی افواج کے اڈوں پر میزائل حملوں کو کامیاب قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ امریکی افواج کو خطے سے چلا جانا چاہیے۔ ایران کا دشمن امریکا ہی ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق ایرانی رہبر اعلی کا یہ موقف سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک خطاب کے دوران سامنے آیا۔ عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد اپنے خطاب میں خامنہ ای نے اعتراف کیا کہ سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کا جواب ناکافی ہے۔جوہری معاہدے کے حوالے سے خامنہ ای کا کہنا تھا کہ جوہری بات چیت کا کسی بھی طور دوبارہ آغاز امریکا کے غلبے کی راہ ہموار کر دے گا۔خامنہ ای نے موجودہ حالات کو کٹھن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک وسیع محاذ ایران کے مقابلے پر آیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سلیمانی کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ ایرانی انقلاب زندہ ہے۔دریں اثنا برطانوی میڈیا نیعراق میں امریکی اڈوں پر ایرانی حملے کے بعد کی سیٹلائٹ تصاویر جاری کر دی گئیں، ایئرکرافٹ ہینگرز کو نقصان جبکہ کئی عمارتیں تباہ ہو گئیں جبکہ ایران نے دبئی اور اسرائیل کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی ہے۔برطانوی میڈیا کے مطابق عراق میں امریکی اڈوں پر ایرانی حملے کے بعد کی سیٹلائٹ تصاویرجاری کر دی گئیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایئر کرافٹ ہینگرز کو نقصان پہنچا اور کئی عمارتیں تباہ ہوئیں۔ روسی میڈیا کے مطابق ایک راکٹ امریکی سفارت خانے سے 100 میٹر دور گرا۔برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ایران نے دبئی اور اسرائیل کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ جنگ یا کشیدگی نہیں بڑھانا چاہتے لیکن جارحیت کا جواب ضرور دیں گے جواد ظریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہاکہ امریکی اڈوں پر حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 51 کے تحت اپنے دفاع میں کیا۔ انہوں نے کہا ایران نے اپنے دفاع میں مناسب قدم اٹھایا ہے اور اس چھاؤنی کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے ایرانی شہریوں اور اعلیٰ عہدیداروں پر حملہ کیا گیا تھا۔ایرانی وزیرخارجہ نے مزید کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے اور نہ ہی کشیدگی بڑھانا چاہتے ہیں تاہم کسی بھی جارحیت کی صورت میں دفاع کا حق ضرور رکھتے ہیں۔امریکا اورایران کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے امریکا میں مظاہرین ایران سے ہمدردی کیلئے سڑکوں پر نکل آئے۔ واشنگٹن سمیت دیگر شہروں میں جنگ کیخلاف مظاہرین سراپا احتجاج ہیں۔۔مشرقی وسطی میں سنگین صورتحال کی وجہ سے امریکا بھر میں تین دو سے زائد مقامات پر ایران سے جنگ کیخلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔ واشنگٹن میں مظاہرین ایران پر پابندیاں نہ لگانے، امریکی فورسز کو عراق سے نکالنے اور عراق میں بمباری روکنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔امریکی جنوب مشرقی ریاست ساتھ کیرولینا میں بھی مظاہرین بینرز تھامے احتجاج کررہے ہیں۔
امریکہ مذاکرات


 واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں)عراق کے ایک فوجی ذریعے نے کہا ہے کہ امریکی فوج کے اڈے عین الاسد پر ایران کے میزائلی حملے میں اس چھاؤنی کا ریڈار سسٹم پوری طرح تباہ ہوگیا ہے جبکہ ایک صہیونی صحافی نے کہا ہے کہ دوسو چوبیس زخمی امریکی فوجیوں کو طیارے کے ذریعے تل ابیب کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔عراق کے فوجی ذریعے نے کہا ہے کہ ایران کے میزائلی حملے کو روکنے میں امریکی فوج کا ایئر ڈیفنس سسٹم بری طرح ناکام رہا اورایران سے فائر کئے گئے میزائل عین الاسد فوجی چھاؤنی کے حساس نشانوں پر گرے۔ صیہونی صحافی نے بھی اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا ہے کہ دوسو چوبیس امریکی فوجی اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں جنھیں امریکی طیاروں کے ذریعے تل ابیب کے ایک ہسپتال میں منتقل کیا گیا ہے۔ دوسری جانب امریکی فوج نے بھی اعتراف کیا ہے کہ عین الاسد فوجی چھاؤنی پر گیارہ میزائل لگے ہیں۔ امریکی فوج کے سربراہ مارک میلی نے کہا ہے کہ ایران کی سپاہ پاسداران نے منگل اور بدھ کی درمیانی رات ایران کے تین الگ الگ مقامات سے امریکی فوجی اڈوں پر سولہ میزائل فائر کئے تھے جن میں سے کم سے کم گیارہ میزائل عین الاسد فوجی چھاؤنی پر گرے اور ایک میزائل عراق کے شہر اربیل میں امریکی فوجی اڈے پر لگاعرب ٹیلی ویڑن چینلوں نے خبردی ہے کہ ایران کے   پاسداران کے حملے میں خطے میں امریکا کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی عین الاسد جل کر راکھ ہوگئی ہے اور وہاں موجود سبھی فوجی آلات اور جدیدترین سسٹم تباہ ہوگئے ہیں۔ عراق کے فوجی ذریعے نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایران کے میزائلی حملے میں اس چھاؤنی کا ریڈار سسٹم پوری طرح تباہ ہوگیا ہے۔ دریں اثنا خبریں موصول ہوئی ہیں کہ عین الاسد فوجی چھاؤنی میں امریکی فوجیوں کے بھاری جانی ومالی نقصانات کا پردہ فاش ہونے کے خوف سے امریکی فوجیوں نے عراق کے اینٹلی جینس افسران کو اس چھاؤنی کا دورہ کرنے سے روک دیا ہے۔
اڈہ تباہی


 واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف عسکری کارروائی کا راستہ روکنے کیلئے قرارداد پر ووٹنگ ہو ئی۔ بتایا گیا ہے کہ ایک صفحے پر مشتمل قراردادکے ذریعے امریکی صدر کی جانب سے ایران کے خلاف خود سے فوجی کارروائی کے فیصلے کی صلاحیت محدود بنائی جائے گی۔ ڈیموکریٹس امریکی قانون سازوں نے صدر ٹرمپ کی طرف سے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کے اقدام کو ’اشتعال انگیز اور غیرضروری‘ قرار دیا گیا۔تاہم ریپبلکن قانون ساز  اس قرارداد کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔دوسری طرف سی آئی اے کی سربراہ جینا ہاسپل سمیت ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیداروں نے سینیٹ میں پیش ہوکر ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمان کو شہید کرنے کے امریکی اقدام پر اٹھنے والے اندرونی اعتراضات کو کم کرنے کی کوشش کی۔بند کمرے کے اس اجلاس کے بعد ری پبلکن سینٹر مائک لی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے نہایت غصے کے عالم میں کہا کہ یہ میری زندگی کا اب تک کا سب سے بدترین وضاحتی اجلاس تھا۔سینیٹر لی نے کہا کہ سینیٹ کے رکن کی حیثیت  سے پچھلے نو سال کے دوران فوجی شعبے کے حوالے سے شاید یہ میری زندگی کا  بدترین وضاحتی اجلاس ہوگا۔انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب  سے عنقریب ایک حملہ ہونے سے متعلق اپنے دعوے کے شواہد و دستاویز پیش نہ کرنے اور اس سے گریز کو توہین آمیز اور ملکی کی آئین کی تحقیر قرار دیا۔ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کے حوالے سے مشہور ایک اور ری پبلکن سینیٹر رینڈپال نے، اس موقع پر کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ارکان سینیٹروں کے سوالوں کے جوابات دینے سے گریزاں رہے۔ انہوں نے کہا کہ وائٹ ہاوس حکام اس قتل کو جنگ عراق سے متعلق دیئے جانے والے اجازت نامے سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سینیٹر پال نے مزید کہا کہ اگرچہ میں اس اجلاس میں شرکت سے قبل جنگ کرنے سے متعلق صدر کے خصوصی اختیارات پر نظرثانی سے متعلق تحریک کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں شک  و شبے کا شکار تھا لیکن موجودہ صورتحال میں پوری طرح مطمئن ہوں کہ مجھے صدر کے جنگی اختیارات میں کمی سے متعلق ڈیموکریٹ کے بل کی حمایت کرنا چاہیے۔جنگ پسندانہ پالیسیوں کی حمایت کے حوالے مشہور ڈیموکریٹ سینیٹر باب منذر نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ میں تھوڑی دیر پہلے ایران کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کے وضاحتی اجلاس کا بائیکاٹ کرکے باہر آگیا ہوں۔ ایک بات پوری طرح واضح ہے کہ ہمارے شکو ک و شبہات اس سے کہیں زیادہ ہیں جن کا ٹرمپ انتظامیہ جواب دے سکتی ہے۔سینیٹر باب منذر نے کہا کہ ہم ایک ایسی پالیسی کے بارے میں امریکی عوام کو کس طرح مطمئن کر سکتے ہیں جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
قرار داد

مزید :

صفحہ اول -