بچوں کیخلاف جرائم کی روک تھام کا بل ’زینب الرٹ‘ منظور، تفصیلات ایسی کہ جان کر ہر شخص داد دے گا
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)قومی اسمبلی میں بچوں کیخلاف جرائم کی روک تھام کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیاگیا۔اس نئے قانون کو زینب الرٹ بل کا نام دیاگیا۔بچوں کے خلاف جرائم کا قانون متفقہ طور پر منظور کیاگیاہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں نے جمعے کو ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری‘ بِل 2019 کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ہے۔اس مسودۂ قانون میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی بچے کے اغوا یا اس کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعہ کا مقدمہ درج ہونے کے تین ماہ کے اندر اندر اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنا ہو گی۔وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بچوں کے خلاف جرائم کے سدباب کیلئے زینب الرٹ جوابی ردعمل اور بازیابی ایکٹ 2019 بل پیش کیا جسے شق وار منظور کرلیا گیا۔
بل میں کہا گیا ہے کہ بچوں سے متعلق جرائم کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا ہوگا،بچوں کیخلاف جرائم پر کم سے کم 10 سال اور زیادہ سے زیادہ 14 سال قیدکی سزا دی جاسکے گی جبکہ جرمانہ دس لاکھ روپے ہوسکے گا۔ بل میں گمشدہ بچوں کی بھی بات کی گئی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ لاپتہ بچوں سے متعلق ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، 1099ہیلپ لائن قائم کی جائے گی جس پربچے کی گمشدگی، اغوا اور زیادتی کی اطلاع فوری طورپر ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، ہوائی و ریلوے اڈوں اور مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔
بل کے ذریعے پولیس کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ اگر کسی بچے کی گمشدگی یا اغوا کے واقعہ کی رپورٹ درج ہونے کے دو گھنٹوں کے اندر اس پر کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر پولیس افسر قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کا یہ اقدام قابلِ سزا جرم تصور ہو گا۔یہ بل بچوں کی گمشدگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور ان کی بازیابی کے لیے ایک نئے ادارے ’زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘ کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔اس بل کا اطلاق وفاقی دارالحکومت کی حدود میں ہوگا اور ملک کے چاروں صوبوں میں اس معاملے میں صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کی ذمہ دار ہیں۔ 18سال سے کم عمر بچوں کااغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے، گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی بھی قائم کی جائے گی۔
بل کی منظوری پر ردعمل دیتے ہوئے انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزار نے ٹویٹ کیا کہ قومی اسمبلی نے طویل انتظار کے بعد زینب الرٹ بل اور آئی سی ٹی پی بل کو منظور کرلیاہے۔ امید ہے کہ سینیٹ بھی جلد سے جلد اس کی منظوری دے دے گی تاکہ یہ باقاعدہ قانون بن سکے۔
یاد رہے کہ اس بل کی تیاری کا کام جنوری 2018 میں پنجاب کے شہر قصور میں چھ سالہ زینب کے اغوا، جنسی زیادتی اور قتل کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے۔
زینب سے جنسی زیادتی اور قتل کے الزام میں انھی کے محلے کے ایک رہائشی عمران علی کو ڈی این اے ٹیسٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا گیا اور انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں ان پر مقدمہ چلا۔عمران علی کی جانب سے اقرار جرم کے بعد 18 فروری کو انھیں چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی گئی۔اس کے بعد گذشتہ برس 17 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ، سپریم کورٹ اور صدرِ پاکستان سے سزا کے خلاف کی جانے والی اپیلیں مسترد ہونے کے بعد اسے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔