جام کمال کی طرح معافی مانگیں
سانحہ مچھ پر وزیر اعظم عمران خان کے غیر محتاط رویے نے اسے ایک قومی مسئلے میں بدل دیا۔ وہ نہ صرف اس بات پر مصررہے کہ شہداء کے لواحقین کو پرسہ دینے کے لئے دھرنے میں نہیں جائیں گے بلکہ یہ بھی سمجھاتے نظر آئے کہ ان پر ایسا دباؤ ڈالنے کا مطلب وزیر اعظم کو بلیک میل کرناہے۔ لیکن کیا ایسی غیر محتاط زبان اور ایساسنگدل رویہ وزیر اعظم کو زیب دیتا ہے؟
ایک وقت تھا جب پی ٹی آئی کے حلقے اس بات کا تمسخر اڑایا کرتے تھے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پرچیاں دیکھ کر پڑھتے ہوئے بات کرتے ہیں اور اس بات پر اتراتے نہیں تھکتے تھے کہ عمران خان بغیر پرچی پڑھے بات کرتے ہیں مگر آج انہیں خوب اندازہ ہورہا ہوگا کہ پرچی کا کتنا فائدہ ہوتا ہے۔مائیک کی دنیا سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ جونہی مائیک آن ہوتا ہے تو کیسے ایک کشادہ ذہن بھی ایک دم سے ماؤف ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو کچھ مچھ میں پڑے جنازوں کی تدفین کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا وہ تاریخ کی دیوار پر رقم ہوگیا ہے کہ وہ بلیک میل نہیں ہوں گے۔تاریخ اس بات کو نہیں بھولے گی کہ سانحہ مچھ پر وزیر اعظم عمران خان نے سنگدلی کا مظاہرہ کیا تھا، لوگ بھی یہ بات نہیں بھولیں گے اور اسی طرح سے اس کا حوالہ دیا کریں گے جس طرح امریکہ میں ایک کالے شخص کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر ہونے والے مظاہروں پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مظاہرے کررہے ہیں۔ انتخابات کے نتائج نے بتادیا ہے کہ اسے فرق پڑا ہو یانہ پڑا ہو، ری پبلکن پارٹی کو ضرور فرق پڑگیاہے۔
جب وزیرا عظم یہ سب کچھ کر رہے تھے تو پی ٹی آئی کے صدقے واری جانے والے بہت سے نوجوان آآ کر پوچھ رہے تھے کہ یہ عمران خان کو کیا ہوا ہے؟ کوئی کہتا پایا جا رہا تھا کہ ایسی توہم بازی کا کیا جواز ہوسکتا ہے کہ اگر عمران خان جنازے میں شریک ہوگئے تو ان کی حکومت چلی جائے گی۔ پھر یہی نوجوان بتا رہے تھے وزیر اعظم اپنے عزیز دوست نعیم الحق کے جنازے میں بھی نہیں گئے تھے۔ ادھر شہداء کے لواحقین بتارہے تھے کہ وزیر اعظم کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہ جنازوں کی تدفین جونہی ہوگی، وہ کوئٹہ چلے آئیں گے کیونکہ پہنچا تو جنازے پر جاتا ہے۔
جس دن لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ ہوا اسی روز وزیر اعظم کی ایک تصویر جاری ہوئی جس میں وہ اپنے کتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ جونہی یہ تصویر سامنے آئی اسی وقت یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ سیاسی طور پر پی ٹی آئی کے کرتے دھرتے ایک بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں کیونکہ اس تصویر کو کسی بھی بڑے ملکی سانحے کے ساتھ جوڑ کر وزیر اعظم پر تنقید کے ڈونگرے برسائے جایا کریں گے اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سانحہ مچھ پر دوبارہ سے مریم نواز کے منہ سے اس تصویر کی بازگشت سنائی دی گئی کہ مچھ میں شہداء کی میتیں عمران خان کی منتظر ہیں اور وہ اپنے کتوں سے کھیل رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ہوگا یہ کہ کل کا تاریخ دان لکھے گاکہ جب مودی کشمیر کو ہڑپ کر رہا تھا تو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بنی گالا میں اپنے کتوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
اصول کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کو اسی طرح ہزارہ شہداء کے لواحقین سے معافی مانگنی چاہئے جس طرح وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے مانگی ہے۔ اخباری رپورٹروں کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کو مچھ دھرنے میں نہ جانے کا مشورہ وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے دیا تھا۔ اگر یہ رپورٹیں درست ہیں تو ان میں سے کسی ایک کو ضروراس فاش غلطی کی قیمت ادا کرنی چاہئے۔
کہا جاتاہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے مگر یہ بات سمجھ میں پہلی مرتبہ آئی ہے کہ بدترین جمہوریت کیا ہوتی ہے، اس سے قبل ایک مرتبہ تب سمجھ میں آئی تھی جب 2008سے 2013کے دوران ملک میں بدترین لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی ملک میں جمہوریت کی بحالی کا تمغہ سینے پر سجائے پھر رہی تھی۔ اس 18ویں ترمیم کا فائدہ جو وفاق کو مضبوط کرنے کی بجائے متنازع بناتی جارہی ہے، اس سے تو کہیں بہتر وہ ترقی ہے جو2013سے 2018کے دوران ملک کے طول و عرض میں دیکھنے کو ملی اور جس کے ثمرات آج پی ٹی آئی کی نااہل حکومت سمیٹ رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے تمام سنیئر اور سیزنڈ صحافی نوے کی دہائی میں عمران خان کوایک کرکٹر سے سیاستدان بنانے کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن کہنے دیجئے کہ ان کے عمر بھر کے تجربے نے جو پراڈکٹ تیار کی اس نے پاکستان کمزور کیا ہے۔ اگر ان کی عقل سلیم اس بات کا اندازہ نہیں کرسکی تھی کہ عمران خان سیاست ایسے سنجیدہ کام کے لئے موزوں نہیں ہیں تو قوم نے ان کی لیاقت اور ذہانت و فطانت کو چاٹنا ہے۔ کیا بدقسمتی ہے کہ آج کوئی شخص اور کوئی ادارہ عمران خان کو بطور سیاستدان ’اون‘ کرنے کے لئے تیارنہیں ہے حالانکہ یہ کل کی بات ہے کہ 2018کی زبردستی کی جیت پر ٹوئٹر پر ٹوئیٹ جاری کیا جا رہا تھا کہ و تعزمن تشا وتزل من تشا، واقعی وتعز من تشاوتزل من تشا!