وہ پانچ اذیت ناک دن
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس بار بحران خود حکومت کی بے تدبیری اور معاملے کی حساسیت کو سمجھنے میں ناکامی نے پیدا کیا۔ پانچ دن پورا ملک صدمے اور ہیجان کی کیفیت میں ڈوبا رہا۔ وہ معاملہ جو پہلے دن ہی بآسانی حل ہو سکتا تھا، اسے بلا وجہ طول دیا گیا اور صورتِ حال اس حد تک خراب ہو گئی کہ پورے ملک میں بڑے شہر جام ہو گئے فلائٹس بند ہو گئیں اور یوں لگتا تھا جیسے مچھ سے اٹھنے والا طوفان سب کچھ بہا لے جائے گا جب وقت پر معاملہ حل نہیں ہوتا تو بہت سے دیدہ و نادیدہ ہاتھ اسے بگاڑنے میں شامل ہو جاتے ہیں پھر ایک نہیں کئی اسٹیک ہولڈرز پیدا ہو جاتے ہیں اور ان سب سے بیک وقت نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے یہ سب کچھ پوری قوم نے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ کس طرح بات اقتدار والوں کے ہاتھ سے نکلتی چلی گئی۔ میں سمجھتا ہوں اگر وزیر اعظم عمران خان پہلے دن ہی میڈیا پر آ کر یہ پیغام دیتے کہ میں کوئٹہ آ رہا ہوں، آپ میتوں کی تدفین کر دیں تو یہ اذیت کے پانچ دن میتوں کے حصے میں آتے اور نہ لواحقین کے، قوم بھی اس صورتِ حال سے نہ گزرتی جس سے ان پانچ دنوں میں گزری ہے۔
جس دن مچھ میں یہ سانحہ پیش آیا تھا پوری قوم افسردہ ہو گئی تھی سب کو اس بات کا احساس تھا کہ ہزارہ قبیلے والوں کے ساتھ بہت ظلم ہو رہا ہے۔ سب نے ہی یہ آواز بلند کی تھی کہ اس دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے، وزیر اعظم، آرمی چیف اور پوری سیاسی قیادت نے اس واقعہ کو اندوہناک قرار دیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب ہزارہ متاثرین کے پاس جا کر ان کی دلجوئی کی جا سکتی تھی۔ حکومت ایک مذمتی بیان دے کر بری الذمہ ہو گئی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان موقع پر گئے اور نہ وفاق نے فوری کسی وزیر کو بھیجا۔ بس یہی وہ درمیانی وقفہ تھا، جس سے بعض لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور شہیدوں کے ورثا کو ایک ایسی راہ دکھائی، جس میں اذیت ہی اذیت تھی۔ بعد از خرابیئ بسیار وزیر داخلہ وہاں پہنچے تو معاملات نادیدہ ہاتھوں میں جا چکے تھے۔ اب یہاں سے وہ سیاست شروع ہوئی جس نے ہمیں دنیا کی نظر میں تماشا بنا دیا سڑک پر لاشیں پڑی ہوں اور دنیا بھر کا میڈیا یہ منظر دکھا رہا ہو تو اس کے سوا کیا تاثر پیدا ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے ساتھ بھی حکومت ایسا رویہ اختیار کرتی ہے۔ حالانکہ معاملہ اس کے الٹ تھا اور حکومت دھرنا دینے والوں کی تمام شرائط اور مطالبات مان چکی تھی۔ اس کے بعد ایک ایسی انہونی شرط رکھ دی گئی جو وجہئ اختلاف بنی اس کے بعد انا کا مسئلہ بن گئی۔
جب ہر طرف ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا کہ وزیر اعظم کوئٹہ کیوں نہیں جا رہے تو وزیر اعظم عمران خان نے چپ سادھ رکھی تھی۔ وزیروں و مشیروں کے پاس اس سوال کا کوئی حتمی جواب نہیں تھا، کیا ایسے موقع پر وزیر اعظم کو خاموش رہنا چاہئے تھا۔ ظاہر ہے وزیروں کے پاس تو اتنی جرأت نہیں تھی کہ وہ کہتے کہ حضور آپ جاتے کیوں نہیں، اس طرح تو حالات خراب ہو جائیں گے۔ بس وہ یہی کہتے رہے کہ وزیر اعظم ضرور جائیں گے۔ اس ابہام زدہ صورتحال نے معاملات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا قابل غور بات یہ ہے کہ تین دن بعد تک اپوزیشن کو کوئٹہ جانے کا کوئی خیال نہیں آیا۔ اس دوران اپوزیشن کی ریلیاں بھی ہوئیں اور جلسے بھی مگر جب یہ بات طے ہو گئی کہ وزیر اعظم نے کوئٹہ جانا نہیں اور ان کے بغیر دھرنا ختم ہونا نہیں تو مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے سانحے کے چوتھے دن کوئٹہ جانے کا فیصلہ کیا۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کے دورۂ کوئٹہ کے بعد ملک بھر میں دھرنے دینے کی شدت میں اضافہ ہو گیا۔ ایک ایک شہر میں کئی کئی دھرنے دیئے گئے۔ معاملہ اتنا حساس تھا کہ انتظامیہ کسی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی۔ دھرنے میں چالیس افراد بیٹھے ہوتے تو ان کی حفاظت کے لئے پچاس پولیس والوں کو تعینات کرنا پڑتا تاکہ کوئی نا خوشگوار واقعہ نہ پیش آ جائے۔ پانچویں دن شام تک تو یہ حالات ہو چکے تھے کہ جیسے پورے ملک میں احتجاج کی آگ لگ گئی ہو ہر شہر سے سڑکیں بند کرنے اور دھرنے دینے کی خبریں آ رہی تھیں اور حکومت بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔
دھرنے کے پانچویں دن حالات خراب ہونے کی ایک وجہ وزیر اعظم عمران خان کی وہ تقریر بھی بنی جو انہوں نے اسلام آباد کی ایک تقریب میں کی اور یہ کہہ گئے کہ لاشیں رکھ کر وزیر اعظم کو بلانا کہ وہ نہ آئے تو تدفین نہ ہو گی بلیک میلنگ ہے، حالانکہ اسی تقریر میں انہوں نے ہزارہ قبیلے کے ساتھ زیادتیوں کا جس درد مندی سے اعتراف کیا اور اس سانحے کی مذمت کی وہ کسی کو یاد نہیں رہا، بس بلیک میلنگ کا لفظ یاد رہ گیا۔ اس بات کو اپوزیشن سمیت دیگر حلقوں نے اس حد تک اچھالا کہ معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکلتے محسوس ہوئے۔ وزراء نے سارا زور اس بات کی وضاحت میں صرف کر دیا کہ وزیر اعظم نے بلیک میلنگ کا الزام کسے دیا بات اپوزیشن کی طرف موڑنے کی کوشش کی، مگر اپوزیشن نے تو لاشیں نہیں رکھی ہوئی تھیں، لاشوں کے وارث تو ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ پھر کراچی سے پر تشدد واقعات کی خبریں بھی آنے لگیں اور یوں لگ رہا تھا کہ کہ فوری کوئی قدم نہ اٹھایا گیا تو رات بھاری گزرے گی۔ غالباً یہی وہ وقت تھا جب حکومت نے تمام تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر دھرنا ختم کرانے کی آخری کوشش کی وزیر اعظم عمران خان نے بھی کوئٹہ پہنچنے کی یقین دہانی کرائی، جو تحریری معاہدہ ہوا وہ اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ اس میں کوئی ایسی شرط نہیں رکھی گئی جو حکومت کے لئے پوری کرنا مشکل ہو۔ اس معاہدے پر تو حکومت پہلے دن ہی پہنچ سکتی تھی پھر نجانے پانچ دن تک بے تدبیری کیوں اختیار کی گئی۔
وفاق اور صوبے نے مل کر بلوچستان کی سیکیورٹی کا از سر نو پلان بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئند ہے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس وقت بلوچستان بھارت اور افغانستان میں موجود بھارتی ایجنسیوں کے نشانے پر ہے۔ ہزارہ قبیلے کو ایک آسان ہدف سمجھ لیا گیا ہے اس کی حفاظت کے لئے فول پروف نظام وضع کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے امید ہے ان پانچ دنوں کا سبق تمام اسٹیٹ ہولڈرز یاد رکھیں گے۔