پاکستان تحریک انصاف.... ایک جائزہ
انتخابات اوائل2013ءمیں متوقع ہیں، لیکن ”میرے عزیز ہم وطنو! یہ پاکستان ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے“.... جیسے ہی کوئی انتخاب قریب آتا ہے، کوئی نہ کوئی ”گیٹ“ کھل جاتا ہے۔ کسی بھی تجزیہ نگار کے لئے جو خود بھی سیاسی وابستگی رکھتا ہو، کسی دوسری جماعت کے بارے میں جائزہ پیش کرنا بہت مشکل ہے۔ الفاظ سخت ہوئے تو تعصب کا الزام، الفاظ نرم ہوئے تو وفاداری مشکوک، بہرحال کوشش ہے کہ اس امتحان سے بھی عزت آبرو سے نکل پاﺅں۔
عرصہ ہوا جب فاروق امجد میر صاحب نے ”تحریک انصاف سے تحریک انصاف“ تک کے سفر کا آغاز نہیںکیا تھا.... (مَیں اُن کے اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات چودھری واجد علی خاں سے ملنے گیا تھا).... عمران خان کے دفتر میں ان سے ملاقات ہوئی، دوسری باتوں کے علاوہ اچانک انہوں نے ایک ڈائریکٹ سوال کر دیا۔ مَیں نے خان کی جلالی طبیعت کا سُن رکھا تھا، اس لئے جھجکتے جھجکتے کہ کوئی ناخوشگوار صورت حال نہ بن جائے۔ عرض کیا ابھی آپ ایک سیاسی حقیقت نہیں ہیں۔ عمران خان نے بڑی خندہ پیشانی سے مسکرا کر یہ سخت جواب سُن لیا، جو میرے لئے تعجب کا باعث تھا، لیکن ساتھ ہی مَیں اس کہاوت کا بھی قائل ہو گیا کہSeeing is Beleiving.... لیکن کپتان حوصلے اور مستقل مزاجی سے میدان میں رہا، کیونکہ جیت ہار کھیل کی طرح سیاست کا بھی حصہ ہے، لیکن میدان میں رہنا شرط ہے اور آج عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک حقیقت ہے۔ ایسی حقیقت جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
30اکتوبر 2011ءکا تحریک انصاف کا کامیاب جلسہ، جس نے بہت سے سیاسی پنڈت حیران بھی کر دیئے اور پریشان بھی۔ اس اجتماعمیںشریک نوجوانوں کے جوش و خروش کو عمران خان نے ”سونامی“ کا نام دیا۔ اس کے بعد کامیاب جلسوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا،جس کے ساتھ قد آور سیاسی شخصیات کی آمد بھی شروع ہوئی۔ قسمت آزمانے والے بھی ہیں، موقع پرست بھی ہیں اور ایک ”مضبوط، خوشحال پاکستان“ کا خواب دیکھنے والے بھی ہیں۔ اسی جلسے میں میمو سکینڈل بھی کھلا تھا، جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہونے کا الزم بھی لگا۔ عمران خان نے غالباً اپریل1996ءمیں باقاعدہ سیاست میں قدم رکھا۔ پاکستان تحریک انصاف قائم کی گئی اور پاکستان کے لئے ورلڈکپ جیتنے والا عمران خان ایک سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاح پسند اور کرپشن کے خاتمے کا علمبردار بن گیا۔
1977ءکے انتخابات میں حصہ لیا، لیکن کوئی نشست لینے میں کامیاب نہ ہو سکا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ میاں نوازشریف نے کوئی پیشکش بھی کی تھی، لیکن سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ جنرل پرویز مشرف کی امداد بھی کی یا شاید حمایت زیادہ مناسب لفظ ہے،کیونکہ جنرل کو امداد کی ضرورت نہیں ہوتی۔2002ءکے انتخابات میں پارلیمنٹ کا حصہ بھی رہے، جس کا کریڈٹ بھی جنرل پرویز مشرف لیتے ہیں۔ ویسے توپاکستان میں کوئی سیاست دان ایسا ہوا نہیں، جس نے بقول شیخ رشید، جی ایک کیو کی سیاسی نرسری میں پرورش نہ پائی ہو۔ پاکستان میں ویسے بھی ووٹروں کا معیار مختلف ہے۔ ا نہیں ایک ایماندار اور اہل نمائندے کی نہیں، ایک سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے، جو تھانے کچہری میں اُن کی امداد کرے۔ یہ نظام کی خرابی ہے اور جمہوریت کی بجائے مارشل لاءکا تسلسل اس کی وجہ ہے۔
لاہور کے جلسے سے پیشتر اکثر لوگ عمران خان کو ایک سیاسی حقیقت ماننے پر تیار نہیں تھے، لیکن لاہور کے جلسے نے سب اندازے غلط ثابت کر دیئے اور ساتھ ہی بہت کچھ تبدیل ہوتا نظر آیا۔2011ءکا سال پاکستانی سیاست اور سیاست دا نوں کے لئے اچھا سال نہیں تھا، لوگوں کی اپنی اپنی قیادت سے مایوسی خاصی نمایاں تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اگست2011ءمیں فرانس چلے گئے، جب سارا پاکستان، خصوصاً سندھ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا۔ کرپشن ، بے روز گاری، امن و امان کی بدترین کیفیت، افراط زر ، توانائی کا بحران، حکومت کی ناکامی سمجھا جانے لگا، جو کچھ حقیقت تھی اور کچھ پراپیگنڈہ اور یہ سب اتحادیوں کے لئے پریشانی کا باعث تھا، بلکہ سب سیاسی جماعتوں کے لئے، کیونکہ ہر سیاسی جماعت”حکمران“ جماعت تھی۔ ان حالات میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی، عوام میں امریکہ کے خلاف ناپسندیدگی کے جذبات،عرب دُنیا میں کرپٹ آمروں کے خلاف تحریکوں کی کامیابی، ان سب نے عمران خان کو ایک ”نعم البدل“ بنا دیا،کیونکہ یہی ایک جماعت تھی، جو اقتدار میں کسی طور پر بھی حصہ دا ر نہیں تھی اور اُن کے لئے حکومت چاہے مرکز کی ہے یا صوبے کی، ٹارگٹ کرنا آسان ہے۔
2007ءکی عدلیہ بحالی تحریک نے بھی عمران خان کے آزاد عدلیہ، شفاف حکومت اور انداز حکمرانی و احتساب کے نعرے نے عوام کے دلوں میں اس کے لئے جگہ بنا دی، لیکن بعض مسائل پر جہادی تنظیموں کے مو¿قف، اسٹیبلشمنٹ کے مو¿قف کے سا تھ ہم خیال ہونے سے مسلم لیگ(ن) کی طرف سے اس الزام میں شدت آ گئی کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی ہے اور صرف انہیں سیاسی طور پر نقصان پہنچانے کے لئے اسے مضبوط کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کی اب تک کی پرفارمنس اور مختلف مسائل پر مو¿قف کا جائزہ لیں، تو جہاں اس کی کامیابی کے امکانات واضح ہوتے نظر آتے ہیں، وہاں یہ اندازہ بھی ہوتا ہے یا ہونے لگتا ہے کہ تحریک انصاف انتخابات میں شاید وہ کامیابی حاصل نہ کر سکے،جس کا دوہ دعویٰ کرتی ہے۔ عمران خان تنقید تو کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن)، مسلم لیگ(ق)، اے این پی وغیرہ میں اختیارات کا ارتکاز ہے، لیکن تحریک انصاف میں بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ دوسری جماعتوں میں سرپرستی اور ذاتی پسند کے بغیر آپ Non entity ہیں اور18ویں ترمیم نے تو پارٹی سربراہان کو لامحدود اختیارات دے دیئے ہیں۔ اگرچہ عمران خان پارٹی میں مختلف سطح پر انتخابات کی بات کرتے ہیں، لیکن بااثر اور بے اثر کا فرق واضح دیکھنے میں آ رہا ہے اور جو انقلابی بننے کی کوشش کرے تو، کتابی طور پر یہ قابل اعتراض ہو سکتا ہے، لیکن اس طریقے سے ہی ایسے امیدوار سامنے آئیں گے، جو دوسری جماعتوں کے لئے چیلنج ثابت ہوں گے۔
1970ءکے انتخابات میں جیسے بھٹو شہید کے نعرے ”روٹی کپڑے اور مکان“ کے وعدے نے اور اُن کی اپنی طلسمانی شخصیت نے پا کستان کی سیاست کو الٹ کر رکھ دیا۔ ”آبائی“ سیٹوں پر پی پی پی کے عام کارکنوں نے کامیابی حاصل کی تھی۔ عمران خان چاہتے تو یہی ہیں کہ کرپشن کے خاتمے اور اصلاحی اسلامی ریاست کے نعرے کے ساتھ اپنی شخصیت کا جادو بھی جگائیں، لیکن بھٹو شہید؟ اور پھر دوسری جماعتوں کے Old guardsتحریک انصاف میں آ رہے ہیں، اس لئے تبدیلی سے زیادہ” سٹیٹس کو“ کا امکان ہے۔ صرف چہرہ تبدیل ہو گا وہ بھی اگر ہوا تو۔ عمران خان کے ساتھی اسے ”جوانی اور تجربے“ کا کمبی نیشن قرار دیتے ہیں کہ یہ کامیابی کا ذریعہ بن جائے گا، لیکن انتخاب میں کامیابی اور بات ہے۔ سوال ان پرانے بتوں کی موجودگی میں منشور اور وعدوں پر عمل کا ہے۔ کیا عام آدمی نے جو امیدیں تائید اور توقعات عمران خان سے وابستہ کر لی ہیں وہ پوری ہو سکیں گی، پھر جو سیاسی اور مذہبی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں، اُن سے نزدیکی، سول ملٹری تعلقات میں نیا موڑ لانے دیں گی؟ سیکیورٹی سٹیٹ کا تاثر ختم کر کے دفاعی اخراجات میں کمی کر کے وسائل کو عوامی ترجیحات کے مطابقAllocate کرنے دے گی؟ یہ بہت سے” لیکن اور اگر“ ہیں جو ذہن میں آتے ہیں کہ عوام کا پیسہ عوام کے لئے کیسے ہوگا؟
عمران خان کی شخصیت اور پروگرام نے نئی نسل کو متاثر کیا، جو قدرتی ر دعمل” ان کارناموں“ کا ہے، جو ہم سرانجام دے رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی آبادی کا 67فیصد حصہ ایک اندازے کے مطابق30سال سے کم عمر ہے، یعنی جوش اور جذبات کا سیلاب۔ کوئٹہ میں جیسا کہ حالات ایسے ہیں کہ کوئی سیاسی قائد وہاں جلسہ ¿ عام کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔ عمران خان نے جلسہ ¿ عام کیا اور وہاں بھی اکثریت نوجوانوں کی تھی، جبکہ خیال ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی والوں کی پا لیسیوں نے دوسری جماعتوں کو بھی مجبور کر دیا ہے کہ اپنی توجہ اس طرف مبذول کریں۔ فریال تالپور کی سربراہی میں ایک کمیٹی پیپلزیوتھ کی تنظیم کرے گی۔ پی ایس ایف کی تنظیم نو کی جائے تاکہ ان دونوں ونگز کو زیادہ مو¿ثر طور پر پارٹی کا بازو بنایا جا سکے۔ عمران خان کی جماعت کے نوجوانوں نے اپنا نعرہ بنایا ہے....Camping for change.... ووٹرز لسٹ میں نام درج کرانے کی مہم ، لیکن اس کے لئے جو ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں، وہ پاکستان کے ایک بڑے طبقے کی پہنچ میں نہیں ہیں، یعنی فیس بُک۔
یہاں ایک بات دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ تحریک انصاف کے مخالفین کا کہنا ہے کہ جو طبقہ عمران خان کے ساتھ ہے، وہ تو ووٹ ڈالنے جاتا ہی نہیں اور اگر گرمیوں میں انتخابات ہوئے تو وہ تو سارے مری، کاغان وغےرہ یا غیر ملک گئے ہوں گے۔ تحریک اور عمران خان کو اس پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ دیہات کی طرف اور وہ بھی اس انداز میں کہ عام آدمی اثر اور دباﺅ سے آزاد ہو کر رائے دہی استعمال کر سکے، لیکن ایک بات طے ہے کہ نوجوان نسل کی توجہ نے مسلم لیگ(ن) کو بھی لیپ ٹاپ تقسیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جس سے یہ اندازہ یقین میں بدل جاتا ہے کہ عمران خان ایک سیاسی حقیقت بن گیا ہے۔ آج بلاول بھٹو زرداری متحرک نظر آتے ہیں، مریم نواز بھی متحرک نظر آتی ہیں۔
عمران خان کی ایک کامیابی یہ بھی ہے کہ اس نے کرپشن کی طرف عام آدمی کی توجہ بھی مبذول کرائی ہے۔ دفتروں پر، ریستورانوں میں، اڈوں پر، بڑے لوگوں کی کرپشن پر بات ہوتی ہے اور وہ اس سے پریشان نظر آتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس ”عام آدمی“ کے دباﺅ پر تحریک کے اندر انتخابات کا عمل بھی شروع ہے، لیکن کچھ اعتراضات کا ذکر بھی ہو جائے۔ ایک تو اب نہیں تو کب؟ ہم نہیں تو کون؟ ارے بھائی امام مہدی نہ بنو، اب نہیں تو کب؟ ہم نہیں ہم سب ایک متبادل ہو سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کی ہٹ لسٹ پر صرف مسلم لیگ(ن) کا ترجیحی بنیادوں پر ہونا اُن کے الزام پر غور کرنے پرمجبور کر دیتا ہے، خیبر پختونخوا میں اسفندریار ولی اپنے عظیم باپ دادا کی ”نادانیاں“ عقل مندی میں تبدیل کرنے کے لئے ہوتی ہیں، اُن کے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ چودھری ہیں، جن کا کاروبار دُنیا بھر میں پھیل رہا ہے، جن کا جانشین این آئی سی ایل کے ساتھ ساتھ، لاہور میں پارک اور قبرستانوں کی جگہ فروخت کرنے سے بھی ہچکچاتا نہیں تھا، جن کا ایک وزیر اسمبلی میں بیوہ کی طرح رویا، جس کا انویسٹر پٹواری چودھری نثار نے تبدیل کرا دیا تھا۔ تفصیل سے بھی آگاہ کر دیا جائے گا۔
احتساب کی بات کر نی ہے تو پشاور سے کراچی تک کریں، ورنہ ایک کالم نگار جو آج سارا دن مختلف دستر خوانوں پر ہی پھرتا رہا (یہ سارا دھندہ پاپی پیٹ کی خاطر) اس کی محنت رائیگاں جائے گی اور محسوس ہو گا پھر لوگ تعین کریں گے کہ تحریک کو صرف میاں برادران کی تصویر دکھائی گئی ہے۔ تیسرا سیاست میں ٹائمنگ بہت اہم ہے جو فیصلہ ، جو عمل، جو بیان گیارہ بجے آنا چاہئے، وہ ایک منٹ کم یا ایک منٹ دیر ہونے پر اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے اور خان اکثر”دیر کر دیتا ہوں مَیں“! سب کہنے لکھنے کے باوجود عمران خان نے عوام کے سامنے متبادل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور اگر ہم نے اپنی اصلاح نہ کی، عوام کے مسائل حل نہ کئے، کرپشن کے سنہری کارنامے، ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچتے رہے ، تو عمران خان حکومت نہ بنا سکا، تو ایک بڑے چیک اور حزب اختلاف کے طور پر اُبھرے گا اور باربوں کا دور ختم ہو جائے گا جو جمہوریت کے لئے اچھا شگون ہو گا۔