سیاسی عمل کا اختتام

سیاسی عمل کا اختتام
سیاسی عمل کا اختتام

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہم اکثر افغان جنگ کے خاتمے اور نیٹو افواج کے انخلا کی بات کرتے ہیں ، تاہم یہ دیکھنے کے لئے کہ عالمی طاقتوں کے اس خطے میں مفادات کا ٹکراﺅ کیا رنگ لاتا ہے اور افغانستان کی سرزمین پر اور اس کی سرحدوںسے باہر اس کے لئے کئے جانے والے فیصلوںکی نوعیت کیا ہوتی ہے، ہمیں2014ءکا انتظار کرنا ہوگا، تاہم اس دوران پاکستان میں ایک اور کھیل بھی ختم ہونے کے قریب ہے یہ اس ملک سے سیاسی عمل کے خاتمے، جمہوریت کے مستقبل کے تاریک ہوجانے اور بطور ریاست پاکستان کے غیر فعال ہوجانے سے متعلق ہے۔ اداروںکی آپس میں بڑھتی ہوئی محاذآرائی ، خاص طور پر اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے منتخب اداروں، جیسا کہ پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو، کے خلاف کارروائی نے سیاسی کشمکش کے شکار اس ملک کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔
چیف جسٹس صاحب کی 2009ءمیں بحالی کے بعد سے اعلیٰ عدلیہ نے بہت ہی فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ فاضل جج صاحبان اپنے کرادر کو خالصتاً آئینی نقطہءنظر سے دیکھتے ہوں ،مگر سیاسی حلقوں میں بالعموم یہ رائے پائی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ اپنی حدود کو پھلانگتے ہوئے منتخب اداروں کی کارکردگی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔اس بات پر دو آرا¿ ہو سکتی ہیں، مگر کیا چینی کی قیمت مقرر کرنا ، سرکاری افسران کو عہدے سے ہٹانا یا بحال کرنا اور منتخب وزیر ِ اعظم اور صدر ِ مملکت کے خلاف کارروائی کرنا سپریم کورٹ کے دائرہ ِ کار میں آتاہے ؟کیس کی سماعت کے دوران جج صاحبان کے بیانات اخبارات میںتواتر کے ساتھ شائع ہوتے ہیں ،(اکثر شہ سرخیوں میں).... اور وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری محاذآرائی کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔

موجودہ عدالتی فعالیت کے پیچھے تین حقائق ہیں پہلا ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ پی پی پی کی مرکزی حکومت ، خاص طور پر صدر آصف زرداری صاحب چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری اور چنددیگرجج صاحبان کی بحالی نہیں چاہتے تھے۔یہ اپوزیشن کی طرف سے کیا گیالانگ مارچ اور دفاعی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے دباﺅ تھا ،جس کے نتیجے میں مارچ 2009 ءمیں چیف صاحب بحال ہوئے ۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ بحال کئے گئے چیف صاحب اور کچھ دیگر جج حضرات کے طرز عمل سے ایسا محسوس ہوا کہ وفاقی حکومت اور اس کے من پسند افسران کو عدالت کی طرف سے ہدف بنایا جارہا ہے۔2009 ءکے بعد سے جج صاحبان کے فیصلوں میں حیرت انگیز حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ ماضی میں ایسا نہیںہوتا تھا اور بعض جج صاحب کئے گئے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا کرتے تھے،تاہم اب وہ کیس ، جو وفاقی حکومت کے خلاف ہوں، کے حوالے سے یکساں فیصلہ ہی آتا ہے۔ تیسرا عامل یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اب وفاقی حکومت کے خلاف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں بے تحاشا درخواستیں دائر کررہی ہیں۔ اس طرز ِ عمل کی مثال ماضی میں نہیںملتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ عدالتیں ان جماعتوںکے لئے سیاسی پنجہ آزمائی کا اکھاڑہ بن چکی ہیں۔
ایک جمہوری نظام میں منتخب اداروںکو غیر منتخب اداروں پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ادارے ایک دوسرے کی حدود کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے لچک پیداکرتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ دوسرے اداروں کی حدود میں مداخلت کرے تو اس سے عدم توازن کی فضا قائم ہوجائے گی اور سیاسی عمل خرابی کا شکار ہوجائے گا۔
   
ماضی میں دفاعی ادارے قومی سلامتی کے نام پر سول اداروں اور سیاسی عمل کو اپنے کنٹرول میںرکھتے تھے، تاہم ایسا کرنے سے وہ سول اداروںکی خرابیوںکو تو دور نہ کرپائے، بلکہ سول ادارے پٹڑی سے ہی اتر گئے۔ آج ہو سکتا ہے کہ فاضل جج صاحبان کے دل میں یہ مستحسن خواہش ہوکہ آئین اور قانون کی عملداری قائم ہواور پارلیمنٹ کی کارکردگی بہتر ہوجائے، مگر جس طرح سے موجودہ حکومت پر دباﺅ ڈالا جارہا ہے ،اُس سے یہ مقصد پورا نہیںہوگا۔ اگر عدالت ایک منتخب حکومت کو چیک کرنے میں لگ جائے گی تو معاملہ بگڑ جائے گا ،کیونکہ عدالت کے احکامات پربہرحال حکومت نے ہی عمل درآمدکرانا ہوتا ہے، اس لئے عدالت کی طرف سے کئے گئے ایسے اقدامات میں ، جن کی اہمیت سے بہرحال انکار نہیںکیا جاسکتا ،کیونکہ ان کے ذریعے عوامی مسائل بھی حل ہوتے ہیں، توازن اور اعتدال ہونا ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ ان اقدامات کے نتیجے میں ملک میں سیاسی افراتفری نہیں پھیلنی چاہیے۔
سابقہ وزیر ِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی صاحب کو وزارت ِ عظمی کے عہدے سے نااہل قرار دینے کے معاملے کو قانونی اور سیاسی حلقوں میں زیر ِ بحث لایا جاتارہے گا۔ یہ بات بھی ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ صدر ِ پاکستان کے خلاف کیس کھولنے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر بھی متضاد آرا¿ پائی جاتی ہیں۔ اس قبیل کی شاید کوئی سیاسی اور قانونی مثال نہ مل سکے کہ ایک ملک کی اعلیٰ عدالت اپنے ہی ملک کے صدر کو کسی دوسرے ملک کی عدالت کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے۔

میمو کیس میں بھی ایوا ن ِ صدر کو ملوث سمجھا گیا۔ یہ معاملہ سیاسی طور پر نہایت نازک مرحلے پر پہنچ چکا ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے نئے وزیر ِ اعظم صاحب کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ بارہ جولائی تک اس معاملے کی وضاحت کریں۔ موجودہ سیاسی عمل کے لئے تشویش ناک سائے مزیدگہرے ہوتے جارہے ہیں ،جبکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے صدر صاحب کے حوالے سے ایک اور معاملہ شروع کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے صدر صاحب سے تقاضا کیا ہے کہ وہ بطور صدر اپنے فرائض سرانجام دینے کے لئے اپنی پارٹی کی قیادت چھوڑ دیں۔ کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ ہم اداروںکے ٹکراﺅ کی طرف بڑھ رہے ہیں،کیونکہ ان تینوں کیسوںمیں صدر صاحب کی ذات کو ہی ملوث کیا گیا ہے۔
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیںہے کہ عدلیہ اور ایگزیکٹو کی اس محاذآرائی میں اپوزیشن کی حمایت موجودہ سیاسی تقسیم کی نسبت سے ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پی ٹی آئی اور جماعت ِ اسلامی اور وکلاءصدر صاحب کے خلاف کیس کھولنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی حمایت کریںگے۔ وہ جماعتیں، جو پی پی پی کی حلیف ہیں، وہ اس اقدام کو حکومت گرانے کا حربہ سمجھیں گی۔ آزاد اور غیر جانبدار سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ اُس وقت کیا ہوگا، جب سپریم کورٹ نئے وزیر ِ اعظم کوبھی طلب کرے گی اور صدر صاحب کے خلاف کیس کھولنے کا کہا جائے گا؟
اس وقت پاکستان نہایت تشویش ناک صورت ِ حال کا شکار ہے معیشت آخری ہچکیاںلے رہی ہے، داخلی امن و امان تباہ ہو چکا ہے، فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل وغارت کا سلسلہ تھمنے کانام نہیں لے رہااور مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔ ان معاملات کو ایک عدالتی فیصلہ درست نہیں کرسکتا۔اسی طرح اگر عدالت اور حکومت میں محاذ آرائی مزید شدت پکڑتی ہے تو ملک میں حکومت کی عملداری ختم ہوجائے گی اور پھر ہر طرف افراتفری کا دور دورہ ہوگا۔ اگر عدالت کی طرف سے فوج کی حمایت کے ساتھ پی پی پی حکومت کو ختم کرکے کوئی وسط مدتی حکومت لائی جاتی ہے تو وہ ان گھمبیر ہوتے ہوئے مسائل سے کیسے نمٹے گی؟
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ باوقار طریقے سے قدم پیچھے ہٹاتے ہوئے سیاسی عمل کو جاری رہنے کا موقع فراہم کرے۔ وفاقی حکومت کو سانس لینے کی مہلت دے تاکہ یہ تازہ انتخابات کی طرف جاسکے ۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) میں بھی نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر اتفاق ِ رائے ہو گیاہے ۔ اس کے بعد پھر وہ سمجھداری سے کام لیتے ہوئے نگران وزیرِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ کا بھی انتخاب کریں تاکہ انتخابات کا اعلان کیا جاسکے۔ اگرپاکستان کو درپیش مسائل حل کرنے کی اس کے علاوہ کوئی اور کوشش کی گئی تو اس کے ناقابل ِ تصور منفی نتائج برآمد ہوںگے۔
کالم نگار، معروف سیاسی مبصر اور پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر امریطس اور بین الاقوامی شہرت کے ماہر تعلیم ہیں۔

مزید :

کالم -