سلمان بٹ کیس کا سوموٹو نوٹس؟
ہمارے ہاں مسخروںکی کون سی قلت تھی، جو اب ہمیں سلمان بٹ کے ملفوظات بھی برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس کو چاہئے تو یہ تھا کہ رہا ہونے کے بعد اپنے منہ پر کوئی جہازی سائز کی زپ لگا کر زبان بندی کر لیتا،کیونکہ جتنی مرتبہ بھی اس نے کوئی بات کی ہے، کسی نئی مصیبت نے سر اُٹھایا ہے۔ غصہ اس بات پر بھی آتا ہے کہ کیا ہمارے ٹی وی چینلوں کے پاس کرنے کا اور کوئی ڈھنگ کا کام نہیںرہ گیا جو اس طرح کی داغدار شہرت کے حامل افراد کو بلا کر اُن کو اپنا کردار اُجلا کرنے کا موقع دے رہے ہیں۔ یہ کس طرح کی صحافت ہے ؟یہ تو اسی طرح ہے، جیسے وہ سنٹرل جیل ، کوٹ لکھپت سے قیدیوں کو بلا کر لائیں جو اپنے نظریات اور زندگی کے تجربات سے ہمیں مستفید کرتے ہوئے ہماری روحانی آبیاری کا سامان کریں۔ درست ہے کہ معاشرے میں ذوق ِ لطیف ناپید ہے، مگر بد ذوقی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔میچ فکسنگ سکینڈل سے بدنام ہونے والے سلمان بٹ کی طرف سے سنائی گئی جھوٹ پر مبنی موجودہ کہانی ناقابل ِ قبول ہے۔
یہ وہ صاحب ہیں جوپاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے تھے....(آفرین ہے اُس سلیکشن کمیٹی پر جس نے ایسا نابغہ ¿ روز گار کپتان ڈھونڈا)....مگر وہ بے حد شرمناک طریقے سے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ برطانوی نظام ِ عدل نے اسے طویل موقع دیا، بہت طویل سماعتیں ہوئیں ، اگر وہ کر سکتا ہے تو اپنی بے گناہی ثابت کر لے، تاہم وہ ایسا نہ کر سکا اور تمام وقت عدالت کو کنفیوز کرنے کی کوشش میں مصروف رہا۔ چنانچہ اُسے قید کی سزا سنائی گئی۔ بہت سے افراد کی طرح میرا بھی خیال تھا کہ فاضل جج صاحب نے سلمان بٹ، جس کا رویہ عدالت میں خاصا گستاخانہ تھا، کے ساتھ بہت نرم رویہ برتا ہے۔ کیا کہنے اہل ِ برطانیہ کے ! اُنہوںنے اسے جیل میں بہت سہولتیں دیں....اُسے اس کی مرضی کی شرائط پر کام کرنے کی اجازت دی اورجم کی سہولت بھی فراہم کی۔ اگر جیل میں کچھ ”فکس “ کرنا مطلوب ہوتا تو بٹ صاحب اُس کے آرگنائزر ہوتے۔ رہا ہونے پر سلمان بٹ کو تمام رقم، جو اس نے آئس کریم پارلروںکا افتتاح کرکے کمائی تھی، واپس کر دی۔ پھر وہ واپس اپنے وطن سدھارا۔
دوسری طرف ہم شرمندگی سے زمین میں گڑے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے، جیسے کسی نے ہمارے منہ پر گندے انڈوںکی بوچھاڑ کر دی ہو۔ بٹ رات کی تاریکی میں لاہور ہوائی اڈے پر اترتا ہے اور ہم اپنے پہلے سے ہی داغدار چہرے کو آگے کر دیتے ہیں تاکہ وہ اس پر مزید کالک مل دے۔ پاکستان کا عالمی امیج یہ بنتا جارہا ہے کہ یہ ملک ہر قسم کی دیانت اور اچھائی سے ”پاک “ ملک ہے۔ اگر کسی شخص میں دس فیصد بھی شرافت ہوتی تو وہ ٹی وی پر چہکنے کی بجائے چپکے سے اپنے کام میں لگ جاتا اور اپنی زندگی کا ایک نیا سفر آہستگی سے شروع کر دیتا۔ اپنی راہِ زیست ، جس میںاس نے اپنے ہاتھوں لالچ اور بے ایمانی کے کانٹے بو دیئے، پر سادگی کے ساتھ قدم رکھتے ہوئے اپنے معاشرے ، جس کو اس نے دھوکہ دیا، کی بہتر ی کے لئے کچھ کرنے کی کوشش کرتا، کیونکہ اس پر اس کے معاشرے اور شائقین ِ کرکٹ کا قرض تھا، مگر صاحب، یہ الف لیلہ کی دُنیا نہیں ہے۔ سلمان بٹ ، جس کو کبھی بھی سبز کیپ نہیں ملنی چاہئے تھی، جیسے افراد میں اس طرح کے جذبات نہیں ہوتے ۔ مجھے یاد ہے کہ 1962-63ءمیں کرسٹن کیلر (Christine Keeler)، جو کہ ایک خوبصورت ماڈل تھی،کا افئیر منظر ِ عام پر آیا تھا....(وہ ہمارے فیلڈ مارشل کے ساتھ ایک سوئمنگ پول میں جاٹکرائی).... اس نے برطانوی معاشرے کو شرم سے پانی پانی کر دیا، مسٹر ہارولڈ میک ملن کی حکومت ہل کر رہی گئی اور جان پروفیومو (John Profumo)،جو کہ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنگ تھے، کو استعفا دینا پڑا ،کیونکہ کیلر اُس کی دوست تھی۔ اس کے بعد احساس ِ ندامت کے مارے وہ ساری زندگی مشرقی لندن کے ٹوئن بی ہال میں ٹوائلٹ صاف کرتے رہے۔ یہ اپنے ملک سے معافی مانگنے کا ایک طریقہ تھا، تاہم ہمارا سابقہ بدنام کپتان کیا کرے گا؟ کیا وہ بھی شرمندگی کا داغ دھونے کے لئے ٹوائلٹ صاف کرے گا....کرنا تو چاہئے! مگر ہوا یوں کہ جیسے ہی وہ پاکستان آیا، تمام میڈیا اس کے لئے چشم براہ ہوگیا ۔ اب یہ تاثر دیا جارہا ہے، جیسے اُسے برطانوی عدالت سے انصاف نہیں ملا۔ اس کا مطالبہ ہے کہ اب سپریم کورٹ آف پاکستان اس کے کیس کا سوموٹو نوٹس لے ،حکومت ِ برطانیہ کو نوٹس بھیجے اوراُس کے کیس کی ازسرِ نو تحقیق کی جائے۔
اُسے اپنے کئے پر کوئی ندامت یا تاسف نہیںہے۔ اس کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے“.... مَیںنے پاکستان کے لئے قربانی دی ہے“....شرم کرو سلمان بٹ، تم نے ابھی تک کچھ نہیں سیکھا ہے....ایک فارسی محاورے کے مطابق: ”رسیمان بسوخت ولے کجی نہ رفت“ .... حالانکہ عدالت میں اس کے خلاف واضح گواہی پیش کی گئی تھی، مگر اب وہ بڑی ڈھٹائی سے اس کو جھوٹ ثابت کرتے ہوئے ”فیئر ٹرائل“ چاہتا ہے۔ یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اُس کو یہ احمقانہ مشورہ دینے والے کون ہیں اور اُن کی اپنی ذہنی حالت کیا ہے ؟کیا یہ مشورہ قابل ِ عمل ہے؟کیا پاکستانی سپریم کورٹ برطانوی قانونی نظام اور برطانوی حکومت سے جواب طلبی کر سکتی ہے؟یہ نوٹس کس طرح دیا جائے گا؟ کیا کوئی تھانیدار چھڑی ہلاتا ہوا جائے گا اور برطانوی نظام ِ عدل کو اس ”ناانصافی “ کی پاداش میں لرزہ براندام کر دے گا ؟
سلمان بٹ کو اُس وقت کے چیئرمین پی سی بی مسٹر اعجاز بٹ نے منتخب کیا تھا۔ اُس وقت چیئر مین صاحب نے یہ توجیح پیش کی تھی کہ سلمان بٹ انگریزی بول سکتا ہے۔ میرا خیا ل ہے کہ مصباح الحق بھی روانی سے انگریزی بول سکتے تھے۔ بہرحال اُس احمقانہ فیصلے پر پی سی بی کی بھی تادیب کی جانی چاہئے۔ سلمان بٹ پروفیومو نہیں ہے ، چناچہ اُسے خود اُس مقام پر بھیجنا چاہئے، مگر ہمارا سکینڈلز کا متلاشی میڈیا ایسا انصاف کرنے نہیں دیتا۔ پی سی بی کے بہت سے اعلیٰ عہدیداران سے میری بحث رہی ہے کہ وہ صرف یک جہتی شخصیات کو کسی ایک آدھ خوبی کی بنیاد پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے چن لیتے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پی سی بی کے پاس چناﺅ کے لئے آنے والے لڑکے نوآموز ہوتے ہیں اور اُنہیں بہت سی چیزیں سیکھنا ہوتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کیا کررہا ہے؟زیادہ سے زیادہ بورڈ کسی ماہر ِ نفسیات کو بلاتا ہے جو ”لڑکوں “ کو لیکچر دیتا ہے۔ یہ مسئلے کا حل نہیںہے۔کرکٹ بور ڈ جانتا ہے کہ جو لڑکے اس کے پاس آتے ہیں اُنہیں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر اس کی طرف سے ایسا کوئی پروگرام دیکھنے میں نہیں آیا، جس کے تحت لڑکوں کو باقاعدہ ایسی مہارت سکھائی جاتی ہو جو بطور کھلاڑی ان کی کردار سازی کر سکے۔ جب بھی میڈیا سے بات کرنی پڑے تو ہمارے زیادہ تر کھلاڑی نہایت احمق نظر آتے ہیں۔ سوال جو مرضی پوچھا جائے، ان کا جواب ہم سب جانتے ہیں....”اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں.... سب لڑکے بہت محنت کررہے ہیں“۔ بدقسمتی سے مائیکل ہولڈنگ یا ٹونی گریگ اُردو میں تو انٹرویو نہیں لیںگے، اِس لئے ٹیم کے کھلاڑیوں انگریزی بولنے کے بنیادی اصول کیوں نہیں سکھائے جاتے ہیں؟ یہ مرحلہ ہمالیہ سر کرنے کے مترادف نہیںہے ، درجنوں طریقوںسے ایسا کیا جاسکتا ہے مگر بورڈ کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔
یہ کھلاڑی بیرونی دُنیا میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں،مگر وہ سماجی آداب اور رویے، کھانے کی میز کے آداب یا پبلک مقامات پر خواتین کے ساتھ برتاﺅ وغیرہ سے ناواقف ہوتے ہیں۔ انہیں کسی نے نہیں بتایا ہوتا کہ جو ملازمہ ہوٹل میں ان کے لئے بیڈ شیٹ بچھانے آتی ہے، اس کی مسکراہٹ اس کے آداب میں شامل ہے، وہ ان کو دوستی کی دعوت نہیں دے رہی ۔ ان میں سے اکثر جوشیلے کھلاڑی پاکستانی کرکٹ کے عظیم ناموں اور ان کے کارناموںسے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ ماضی میں پاکستانی کرکٹ کوکس قدر تابندہ ستاروںکی خدمات حاصل تھیں اور اُنہوںنے نہایت نامساعد حالات میں کس طرح کی کارکردگی دکھائی۔ اگر ہم نے نوجوان لڑکوںکو یہ باتیں نہ سکھائیں تو مجھے ڈر ہے کہ محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کی کہانی یہیںختم نہیںہوگی، اس طرح کے سکینڈل پاکستان کا نام، جس میں اب رکھاہی کیا ہے، بدنام کرتے رہیںگے۔
وقت بہت بدل گیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے۔ اب ہمارے کیمپ میں نہ تو عبدالحفیظ کاردار ہیں، نہ فضل محمود، نہ ماجد ، نہ عمران....( یہ چار نام عظمت کی علامت کے طور پر لئے گئے کہ تمام عظیم کھلاڑیوںکے ناموں کی فہرست کی کالم اجازت نہیںدیتا)۔ آج ہمارے پاس ان جیسی نصف کارکردگی اور کردار والے کھلاڑی بھی نہیںہیں۔ جب یہ میدان میں ہوتے تھے تو ان سے نہ صرف کھیل، بلکہ ہمارے معاشرے اور نظام کی عظمت کا اظہار بھی ہوتا تھا۔ بہر حال پھر ذہن میں آتا ہے کہ ٹیم بہرحال معاشرے سے ہی لی جاتی ہے.... اس لئے موجودہ ٹیم بھی موجودہ پاکستان کی ہی نمائندگی کرتی ہے۔