سیاست نہیں ریا ست پہلی تر جیح ہو نی چاہیے
اگر پاکستان کی سیا سی وجمہوری تا ریخ پر نظر ڈالی جائے تو حقیقی معنو ں میں پہلی دفعہ اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسر ی جمہوری حکو مت کو منتقل ہو ا ہے ،جو بلا شبہ ملک میں جمہوریت کے لئے تو ایک اچھا شگون ہے، لیکن اگر اس جمہوری تسلسل کافائد ہ عام آدمی تک پہنچے تو ریاست کی جلد تر قی متو قع ہو تی ہے ۔سابقہ جمہوری دور میں ہی کئی امتحا نو ں سے گزرتی، لڑ ھکتی ، ہچکو لے کھا تی ،ناتواں اور کمزور جمہور یت نے ایک اور منتخب حکو مت کو جنم دے کر ثابت کرنے کی کو شش ضرور کی ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑ ی زرخیز ہے ساقی ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ غیر جمہوری ادوار صر ف سیا ست دانو ں یا سیاسی جماعتو ں کے لئے مشکل نہیں رہے،بلکہ ”عام آدمی“ نے بھی ہمیشہ جب بھی انتخا بات ہو ئے ،بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لیکر ملک کو جمہور یت کی پٹڑ ی پر چڑ ھایا ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی جمہور یت کی مو ت ہوئی تو جمہوریت کاخاتمہ عام آدمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ سیاستدانوں اورسیا سی جماعتو ں کے سبب ہی ہو ا۔ اب سو ال یہ پید ا ہو تا ہے کہ عوام کے ووٹو ں سے بر سر اقتدار آنے والی نئی حکو مت کیا واقعی عو ام کے مسائل حل کر نے کے لئے ہاتھ پاﺅ ں مارے گی یا جمہوریت کو خطر ے کی گھنٹیا ں سنتے عوام کے مقدر میں وہی دہشت گر دی کی آگ ،مہنگائی کا عذاب ،لوڈشیڈنگ کے اندھیر ے ،لاقا نو نیت کے ڈیرے ہی رہیںگے۔ پچھلی دہا ئیوں میںاپنی ہی ناکام اور من پسند پالیسیوں کے بطن سے جنم لینے والے دہشت گر دی ،مذہبی انتہا پسند ی اور فر قہ واریت جیسے مسائل اب اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ ان کے سامنے ریاست کے طاقتو ر ادارے بھی بے بس و لا چار نظر آتے ہیں۔
اگرنئی منتخب جمہوری حکو مت بھی ہر صو ر ت ہنی مو ن منا نے کو تر جیح دے گی تو لاکھوں معصو م لو گو ںکی جانو ں اور عزتو ں کی قر بانیو ںکے بعد انیسو یں صد ی میں معجزے کی صو رت میں بننے والے مملکت خداد کے مسائل حل کر نے میں شایداتنی دیر ہو جائے کہ ہاتھ ملنے کی نو بت آنے سے پہلے ہی کاٹ دیے جا ئیںاور اگر وقت کی مہاربھی مٹھی کی ریت کی طر ح نکل گئی اس سے پہلے کہ قوم کے سپو تو ں کو لا کھ دو لاکھ کے قر ضے دے کر دھو بی درزی بنا یا جائے تو اس سے اچھا ہے کہ دہشت گر دی اور لوڈشیڈ نگ کے بارے میں ٹھو س اور جامع منصو بہ بندی کے لئے مخصو ص سیا سی و سر مایہ کاری سوچ سے ہٹ کر فیصلے کئے جائیں ،تو شایدپہلے سے مو جود دھو بیو ں اور درزیو ں کے ساتھ ساتھ کسانوں اور مزدوروں کو بھی دو وقت کی عزت کی روٹی مل جائے ۔نجانے کب تک ہم کو ئٹہ اور کراچی میں مر نے والو ں کے لئے صر ف مذمت کر تے رہیں گے ؟کب تک ہم فاٹا اور خیبر پختو انخواہ میں ڈرون حملے اور بم دھما کے کر نے اور کر انے والوں سے مذکرات اور احتجاج کر تے رہیں گے۔ارباب اختیار! اگر آپ بانی پاکستان کی رہائش گاہ کے لئے اتنے سپاہی عنائت کر دیتے جتنے آپ کے بچو ں کو سکو ل چھوڑنے جاتے ہیں، تو شاید زیا رت میں وطن عزیز کا پر چم نہ اتر تا اور نہ ہی قا ئد کے زیر استعما ل رہنے والی نایا ب چیزیں جل کر راکھ ہوتیں ۔ اگر پچا س ہزار شہر ی مر وانے کے بعد بھی یہ پتہ نہ چلے کہ یہ جنگ کس کی ہے تو مر نے والو ں کا درد کو ن سمجھے گااورمارنے والو ںسے کو ن نمٹے گا؟اگرموجو دہ حکومت قو م سے وعد ہ کے مطابق واقعی پاکستان کے حالات بد لنے کا عزم رکھتی ہے ، اورآپ کی نظر میں اس مملکت خداداد میں بسنے والے اٹھا رہ کر وڑ لو گ بھی باقی دنیا میں بسنے والے لو گو ں کی طر ح انسا ن کا درجہ رکھتے ہیںاور انہیں بھی زند ہ رہنے کا حق ہے، تو آپ کو وہ فیصلے کر نے ہوں گے جودنیا کے رہنما ﺅں نے اپنی قو م و ملک کی بقا اور عزت کے ساتھ ساتھ خود مختا ری بچانے کے لئے کئے تھے یا کر تے ہیں ۔ ایک مثال سابق امر یکی صدر ابر اہم لنکن کی ہے۔جس نے اپنے ملک میں غلا می کے نظام کو ختم کر نے کے لئے فیصلہ کیا تھا ....اور پھر تاریخ گواہ ہے کہ ابراہم لنکن اپنی مو ت سے پہلے غلا می کے نظام کو مار چکا تھا۔
اگر موجو دہ حا لا ت میں بھی اپنے پانچ سال پور ے کر نے کے لئے فیصلے کئے گئے تو شایدپانچ سال حکو مت کر نے کا موقع مل جائے گا، لیکن ایشین ٹائیگر کا خواب جو اگر آپ نے واقعی دیکھا ہو ا ہے ،وہ چکنا چو ر ہو جائے گا۔ حکو متیں تو پہلی بھی بڑی آئی ہیںاورآتی رہیں گی اور آپ خود بھی دو دفعہ حکو مت کر چکے ہیں ،اگر آپ حا لا ت کو سنجید گی سے لے رہے ہیں تو آپ کو اس بات کا اندازہ ہو نا چاہیے کہ اس دفعہ حکو مت نہیں قیادت کر نی ہے ۔ آج ایسے فیصلو ں کی ضرورت ہے، جن میں قو م و ملک کی بقا ہو نہ کہ سیا ست کی بقا ہو ۔ جی ہاں اگر ریاست کے حا لا ت کو دیکھا جائے تو یہ بات کہنے میں کو ئی مضائقہ نہیں کہ اب سیا ست نہیں ریا ست بچانی ہے۔ اگر ان حالات میں بھی سیا ست کو ریا ست پر تر جیح دی گئی توایک مر تبہ پھر سیا ست نہیں ریا ست کو بچانے کے لئے آنے والوں کو خوش آمد ید کہنا کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ محمو د خان اچکزائی نے بالکل ٹھیک کہا کہ بجٹ پربحث نہیں ،ریاست کے مستقبل کی فکر کر و ۔ آج ان تاریخی فیصلو ں کی ضرورت ہے جو ریاست کے مستقبل کو محفو ظ بنائیں۔ ریاست کے مسائل کو سابقہ حکو متو ں کا ورثہ کہہ کربر ی الذمہ ہو نے سے اچھا ہے کہ بہتر اور ذمہ دارانہ کارگر دگی دکھا کر ثابت کیا جائے کہ قو م کا حالیہ 11مئی کا فیصلہ ٹھیک تھا اور اگر اب بھی مدبرانہ فیصلے نہ کئے گئے تو عوام اور ریا ست دونو ں کا مستقبل خطرے میں ہو گا ۔ ٭