کرپشن کے 150بڑے سکینڈل!
دو روزپہلے میں نے انہی صفحات میں عرض کیا تھا کہ قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی ساکن سیاسی اور عسکری جھیل میں کنکریاں نہیں، کنکر پھینکے جانے کے دن نزدیک آ رہے ہیں۔ میں کہ اگرچہ ایک فقیرِ بے نوا ہوں، دنیا اور پاکستان کے حالات پر کچھ نہ کچھ نظر ضرور رکھتا ہوں۔ میرے علاوہ یہی ’’کام‘‘ دوسرے لاکھوں قارئین بھی کررہے ہوں گے۔ یہ اور بات کہ ان کو کسی پریس یا الیکٹرانک میڈیا میں اپنے تجزیات یا خیالات و جذبات کے اظہار کا موقع نہیں ملتا۔ الحمدللہ کہ شمشیروسناں کے کالم نگار کو شمشیرزنی کے بعض داؤ پیچ کا بھی پتہ ہے اور ان کو طرح (Parry) کیسے دی جاتی ہے، اس کا علم بھی ایک حد تک ہے۔ اندریں حالات میں نے پیش گوئی کی تھی کہ عیدالفطر کے بعد پاکستانی تالاب کو صاف کرنے کا ڈول ڈالا جائے گا اور شروعات پاک فوج سے ہوں گی۔۔۔پاک آرمی نے چار بار مارشل لاء لگا کر دیکھ لیا کہ یہ نسخہ کیمیا ملک کے عوارض کا علاج نہیں بلکہ وہی بیماری بار بار دیکھنے میں آتی ہے جس کی طرف اقبال نے اشارہ کیا تھا:
مشکلے نیست کہ اعجازِ مسیحا داری
مشکل آن ست کہ بیمارِ تو بیمار تراست
(مشکل یہ نہیں ہے کہ تو اعجازِ مسیحا رکھتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ تیرا بیمار، بیمار تر ہو گیا ہے)
اگر چار بار کے مارشل لاؤں سے قوم کا کچھ نہیں ’’بگڑا‘‘ تو یہ بات بھی غلط نہیں کہ چار سے زیادہ بار سویلین حکمرانوں نے بھی آکر دیکھ لیا، انہوں نے بھی قوم کا کیا ’’بگاڑ‘‘ لیا ہے؟۔۔۔ یہ عذر کہ فوجی آمروں نے سویلین حکومت اور جمہوریت کو فروغ پانے کا موقع نہیں دیا اور ’’کچی انبیوں‘‘ کو توڑ لیا تو اس ’’عذر‘‘ کا علاج فوج نے اب شائد سوچ لیا ہے کہ ’’آموں ‘‘ کو پکنے دیا جائے۔ لیکن ان آموں کو جس موزوں آب و ہوا، حرارت، پانی اور باغبانی کی ضرورت ہے اس کے انتظامات کرنے میں سویلین حکومت کے پیچھے رہ کر اس کے ’’آگے‘‘ رہا جائے، فصل کو وقت پر پانی دیا جائے ، بُور آنے کے بعد پھل لگنے کے عرصے تک میں باغبانی کے فرائض ادا کرنے والوں کی ’’نگہبانی‘‘ کی جائے اور جو باغبان ماضی میں ارادی غفلت کے سبب باغ فروشی کرتے رہے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟
سپریم کورٹ کے تین فاضل جج صاحبان پر مشتمل ایک بنچ نے کہ جس کی سربراہی جسٹس جاوید خواجہ کررہے ہیں گزشتہ ہفتے نیب (NAB) کو حکم دیا تھا کہ پاکستان میں رونما ہونے والے بڑے بڑے کرپشن کیسوں کی نشاندہی کی جائے۔ اس کے جواب میں نیب کے ڈائریکٹر جنرل سید خالد اقبال نے عدالتِ عظمیٰ میں جو رپورٹ پیش کی ، وہ 35صفحات پرمشتمل بتائی جاتی ہے ۔اس میں 150میگا کرپشن کیسوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بدعنوانیوں کو تین اقسام میں تقسیم کرکے گوشوارہ بنایا گیا ہے، یعنی (1) مالی بدعنوانیاں (2)زمین سے متعلق بدعنوانیاں اور (3) اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کی بدعنوانیاں۔۔۔اس رپورٹ میں بڑے بڑے نام ہیں۔ بعض پردہ نشیں ہیں اور بعض سٹیج پر جلوہ گر ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جو پردہ نشین ہو کر بھی گوشہ نشین نہیں اور چلمن کی اوٹ میں بیٹھے ایسے اشارات و کنایات سے کام لے رہے ہیں جو عشاق کے دل و جگر کو چھلنی کئے جاتے ہیں۔
اس رپورٹ کو سپریم کورٹ کا فاضل بنچ شائد کچھ حیرت اور کچھ دلچسپی سے پڑھے اور فاضل اراکین عدلیہ کو یہ بھی معلوم ہو کہ اصل کواکب کیا تھے اور بازی گر کیا کیا دھوکے دیتے رہے ہیں یا دے رہے ہیں۔اس فہرست میں سابق صدر آصف علی زرداری کا نام بھی ہے۔ انہوں نے چند روز پہلے فوج کے جن سینئر افسروں کو مطعون کیا تھا اور ان کو سرِ میڈیا خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی روش سے باز آ جائیں وگرنہ اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی تو اب وہ اس نئی صورتِ حال کا سامنا کریں اور اینٹ سے اینٹ بجا ہی دیں۔ ان پر 10% کا الزام تو اب پرانی بات ہو چکی۔ نئی ٹرم (2008ء تا 2013ء) میں تو وہ 100%تک چلے گئے اور یہ اس لئے ممکن ہوا کہ ایک تو قدرت نے ان کی رسی دراز کر دی اور دوسرے پاکستان کے مظلوم و مقہور عامتہ الناس کی شنوائی کا لمحہ بھی نزدیک آ گیا کہ رسی جتنی دراز ہوتی ہے اس میں گردن کو جھٹکا دینے کی اذیت بھی اسی تناسب سے بڑھ جاتی ہے۔ زرداری صاحب کے پاس اب وقت ہے کہ وہ سینئر فوجی افسروں کی وہ ’’کرتوتیں‘‘ طشت ازبام کریں جو ان کے سیف میں محفوظ ہیں اور جن کا واضح اشارہ وہ دے چکے ہیں۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فوج کو بھی قدرت نے ایک نادر موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنی چارپائی کے نیچے ڈنگوڑی پھیر کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردے۔
یہ بات اب کوئی راز نہیں ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے برادرِ بزرگ کی اقربا نوازی کی خوکا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ جو حضرات یہ کہیں کہ جنرل صاحب کا دامن صاف ہے اور ان کے بھائیوں نے جو کچھ کیا ہے، وہی بھگتیں اور یہ کہ جنرل صاحب پر ان کے بھائیوں کی جرائم (اگر وہ ثابت ہو جاتے ہیں) کی چارج شیٹ نہیں لگائی جا سکتی تو ان کو اس خود فریبی سے باہر آ جانا چاہیے۔ اگر زرداری کسی مصلحت کی بناء پر اپنی دھمکی کی وضاحت نہیں کرتے تو ان کا یہ فعل پاک فوج کے خلاف جائے گا۔ اگر جنرل کیانی کی بھائیوں کی تفتیش مکمل کرکے ان کو سزا مل بھی گئی یا چند اور افسروں پر جرم ثابت ہونے کے بعد ان کو پسِ دیوارِ زنداں دھکیل بھی دیا گیا تو لوگ یہ قیاس کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ فوجی ملبے کی پوری طرح صفائی نہیں ہوئی۔ اس لئے اگر زرداری اپنی پٹاری کھول کر سارے سانپ اور سنپولئے باہر نکال دیتے ہیں تو فوج کا دامن صاف ہونے میں آسانی ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ فوج میں ایسے عناصر بھی موجود ہوں(یا ماضی ء قریب میں موجود رہے ہوں) جنہوں نے وہی کچھ کیا ہو جو نیب (NAB) کی اس رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے۔
جس طرح اس رپورٹ میں 150میگا کرپشن کیسوں کا ذکر کیا گیا ہے اور سیاستدانوں/ اعلیٰ عہدوں پر متمکن بیورو کریٹوں کے خلاف الزامات کے خلاصے پیش کئے گئے ہیں، بالکل اسی قسم کی رپورٹ اُس ملٹری کورٹ میں بھی کسی متلعقہ اداروں (ISI/JAG) کو پیش کر دینی چاہیے جو فوجیوں پر مقدمات کی سماعت کر رہے ہیں۔میں نے اپنے پہلے والے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ فوج کا پرسپشن عوام کے سامنے کلیئر ہونا چاہیے۔ کسی مسٹر 10% یا (بعدازاں) مسٹر 100% کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ الزام تراشی میں گومگو کا سہارا لے۔ اگر اس اوکھلی میں زرداری صاحب نے سردے ہی دیا ہے توان کو دھماکوں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
سندھ حکومت نے بعداز خرابی ء بسیار سندھ رینجرز کے Policing اختیارات کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع کر دی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اب تک رینجرز جن ’’ہاؤسز‘‘ پر ریڈ (Raid) کرتے رہے ہیں، وہ زیادہ بڑے نہیں تھے۔ اب اس 30روزہ مدت میں رینجرز شائد بڑے بڑے ہاؤسز پر بھی وہ چھاپے ماریں جن کا عوام کو ایک عرصے سے انتظار ہے۔ بے کسوں، ناداروں، کمزوروں،غریبوں اور ناتوانوں کے لئے یہ چھاپے ایک بڑی خوشخبری ثابت ہو سکتے ہیں۔ سندھ میں بالعموم اور کراچی/ حیدرآباد میں بالخصوص ایم کیو ایم اور پی پی پی نے سالہا سال کی حکمرانی کے دوران، قانون کا مذاق اڑانے کے جو انتظامات کر رکھے ہیں، ان کو درہم برہم کرنے کا وقت شائد نزدیک آ رہا ہے۔ کیا ستم ہے کہ ایک طویل عرصے سے سندھ کارڈ کو استعمال کرکے ناقابلِ بیان انہونیاں کی جارہی ہیں۔اور ان دونوں شہروں کو دوزخ بنا دیا گیا ہے۔
جیسے جیسے انسانی عقل و دانش بڑھتی جاتی ہے، انسانی جرائم کے تانے بانے بھی زیادہ مضبوط اور زیادہ گنجلک ہوتے جاتے ہیں۔ مغربی دنیا میں جرائم کے ارتکاب کے طریقے اور پیمانے مشرق سے کہیں بڑھ کر ’’دانش زدہ‘‘ ہیں۔ کم پڑھے لکھے لوگ عموماً کمتر سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، لیکن زیادہ پڑھے لکھے اگر اس شعبے میں آ جائیں تو جرم کی شدت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر معاشروں میں کم عقل لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور اسی نسبت سے جرائم کی شدت کا سکیل بھی کمتر ہے۔ لیکن جوں جوں ہمارے معاشرے ’’مہذب اورمتمدن‘‘ ہوتے جا رہے ہیں، ارتکابِ جرائم کے آفاق بھی اسی نسبت سے وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔ نیب نے سپریم کورٹ میں کرپشن/ بدعنوانیوں کے جن 150میگا کیسوں کی فہرست پیش کی ہے اس کے درست یا غلط ہونے پر انگلیاں اٹھائی جا سکتی ہیں لیکن الزامات سچ ثابت ہوں یا جھوٹ،ان کے ارتکاب کرنے والوں کا سیاسی، تعلیمی، اخلاقی اور سماجی قد کاٹھ قابل غور ہے۔ یہ سب لوگ اقتدار کے اونچے ایوانوں میں بیٹھے ہیں (یا ماضی میں بیٹھے رہے تھے) ان میں کوئی ایسا فرد نہیں جو اَن پڑھ ہو، اوسط فہم و فراست، اوسط آمدنی اور اوسط سماجی سٹیٹس کا حامل ہو۔ یہ سب لوگ ایلیٹ شمار ہوتے ہیں، اشرافیہ کہلاتے ہیں لیکن ان کی بدعنوانیوں (مبینہ ہی سہی) کے خلاصوں پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ایسی بلندی اور ایسی پستی!!
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ارتکابِ جرائم پر سزاؤں کا نظام کاؤنٹر پروڈکو (Counter Productive)ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہوتی، مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ جرم ثابت ہونے پر مجرم سزا تو کاٹ لیتا ہے لیکن اس کے بعد زیادہ خطرناک مجرم بن جاتا ہے یا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ مجھے اس استدلال سے اتفاق نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام میں جرم و سزا کے جو قوانین و ضوابط مقرر ہیں وہ باطل ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جن ممالک/ معاشروں میں سنگین جرائم پر سنگین سزائیں نہیں دی جاتیں، ان میں انسانی اخلاق کے جنازے اٹھتے ہیں۔۔۔قرآن حکیم کی بہت کم سورتیں ایسی ہوں گی جن میں قیامت کے عذاب سے ڈرایا نہیں گیا اور اعمالِ صالح کی خوش خبریاں نہیں سنائی گئیں۔ پاکستان کا آئین بھی اگر قرآن و سنت کے احکامات و روایات پر استوار ہے تو ہمیں نیب کے ان 150میگا مقدمات کی عدالتی تحقیق کرنی چاہیے جن کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کی گئی اور اگر عدالت میں ملزمان پر جرم ثابت نہیں ہوتا تو الزام لگانے والوں کو عبرتناک سزائیں دے کر نیب کو ہمیشہ کے لئے ختم (Quash)کر دینا چاہیے۔