نواز مودی ملاقات
آج روس میں نواز مودی ملاقات ہے۔ ویسے تو روس اور پاکستان کے درمیان قیام پاکستان سے گزشتہ سال تک اچھے تعلقات نہیں رہے ہیں۔ روس ہمیشہ بھارت کا حمائتی رہا ہے۔ جبکہ پاکستان امریکہ کے کیمپ میں رہا ہے۔ لیکن دنیا بدل گئی ہے اور اب آہستہ آہستہ بھارت مکمل طور پر امریکی کیمپ میں پہنچ چکا ہے۔ جبکہ پاکستان گو کہ اتنی رفتار سے تو نہیں لیکن کسی نہ کسی حد تک روس کے قریب آیا ہے۔ درمیان میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب بھارت بیک وقت روس اور امریکہ کے قریب تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب روسی صدر پوٹن بھی بھارت کے دورہ پر گئے اور امریکی صدر بھی بھارت کے دورے پر گئے۔
دنیا میں ایسا نہیں ہو تا۔ آپ بیک وقت دو دھڑوں کو قابل قبول نہیں ہوتے۔ یہ وہ وقت تھا جب روس کی یہ کوشش تھی کہ بھارت مکمل طور پر امریکی کیمپ میں نہ جائے ۔ لیکن بھارت نے امریکہ کے حق میں فیصلہ کیا۔ اسی طرح پاکستان پر بھی گزشتہ دو سال ایسے تھے جب پاکستان بھی امریکہ کی بھارت سے زیادہ قربت محسوس کر رہا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ پاکستان کی یہ خواہش تھی کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب نہ کرے۔ تا ہم امریکی صدر اوباما نے صرف بھارت کا دورہ کیا۔پاکستان نہیں آئے اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہاں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بہتر نہیں ۔
اب تو حکومتی سطح پر بھی یہ تسلیم کیا جا تا ہے کہ اس وقت پاکستان اور امریکی تعلقات انتہائی کم سطح پر ہیں۔ بلکہ گزشتہ دنوں اس حوالے سے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک اجلاس کی صدارت بھی کی۔ جس میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں انحطاط کا جائزہ لیا گیا۔ اس کی شائد ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ستمبر میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے جانا ہے تو کوشش ہے کہ اس دفعہ نواز اوباما ملاقات ہو جائے ۔ لیکن ابھی تک اس کے امکانات کم ہیں۔
آج جب نواز مودی ملاقات ہو رہی ہے۔ اس سے کیا امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں فی الحال کوئی بڑ ابریک تھرو نہیں ہو گا۔ بھارت کے حوالہ سے پاکستان نے ایک ایسی پوزیشن اختیار کر لی ہے۔ جس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف فوری طورپر بھارت کے ساتھ بڑے بریک تھرو کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ آج ہونے والی ملاقات دراصل بھارت کی خواہش پر ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے لئے یہ ملاقات کوئی خوشگوار ملاقات نہیں ہے۔ انہوں نے ایسی بھی کوئی بات نہیں کرنی ہے جس سے اسٹبلشمنٹ کے ناراض ہونے کا خدشہ ہو۔ جبکہ انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بھی بنانا ہے۔ یہ دونوں کام بیک وقت بھی مشکل ہیں۔ یہ ملاقات شائد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے اتنی اہم نہیں ہے۔ پاک بھارت درجہ حرارت انہوں نے ہی گرم کیا ہے۔ لہذا اگر یہ ملاقات نا کام بھی ہوتی ہے ۔ تو وہ اپنے ملک میں اپنے ان تنقید نگاروں کو کہیں گے کہ میں نے تو تعلقات بہتر کرنے کے لئے بات کی۔ لیکن بات نہیں بنی۔ جو انہیں پاکستان سے تعلقات خراب نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور وہ واپس اپنی اسی ہٹ دھرم پالیسی پر گامزن ہو جائیں گے۔ جس پر وہ پہلے گامزن ہیں۔ سرحدیں گرم رہیں گی۔ بیانات بھی گرم رہیں گے۔ اور تناؤ برقرار رہے گا۔ لیکن میاں نواز شریف اس ملاقات کو قبول کر کے زیادہ مشکل میں ہیں۔ وہ اگر سخت موقف اپناتے ہیں تو اس سے بہتر تو تھا کہ وہ نہ ملتے۔ اور اگر وہ نرم بات کرتے ہیں اس امید سے کہ تعلقات بہتر ہونگے تو نہ صرف پاکستان میں اسٹبلشمنٹ بھی ان سے ناراض ہو جائے گی۔ اور سیاسی طور پر انہیں بھی بہت نقصان ہو گا۔
پاکستان میں اس وقت نہ تو سیاسی ماحول اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ کا ماحول بھارت سے دوستی کے حق میں ہے۔ اس لئے میاں نواز شریف اپنی زندگی کی آج ایک مشکل ملاقات کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی مودی انہیں نا امید کر چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں گزشتہ سال پاکستان میں جو سیاسی بحران آیا تھا۔ جس کے بار ے میں بھی عام تاثر یہی ہے کہ اس کا سکرپٹ لکھا گیا تھا۔ اس کی ایک وجہ بھی میاں نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان بھارت سے تعلقات کے حوالہ سے واضح اختلاف تھا۔ اس لئے میاں نواز شریف اس ملاقات کے حوالہ سے جن مشکلات کا شکار ہیں۔ شائد اس کا مود ی کو ادراک نہیں ہے۔ بھارت میں بھی اس وقت ایسا کوئی ماحول نہیں جس کا میاں نواز شریف کو کوئی فائدہ ہو سکے۔ اور نہ ہی پاکستان میں ایسا کوئی ماحول ہے جس کا بھارت یا مودی کو فائدہ ہو سکے۔
البتہ میاں نواز شریف کی روسی صدر پوٹن سے ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہو گی۔ اور اس بات کی امید ہے کہ اس کے بعد روسی صدر پوٹن جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔ اور روس پاکستا ن میں انرجی اور گیس کے شعبوں میں قابل ذکر سرمایہ کاری کرے گا۔