چاند کا فیصلہ اور میڈیا کا کردار

چاند کا فیصلہ اور میڈیا کا کردار
 چاند کا فیصلہ اور میڈیا کا کردار

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام سے قبل عرب کے لوگ مختلف قسم کے توہمات کا شکار تھے۔ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے مختلف قسم کے شگون لیتے تھے۔جب اسلام کی روشنی پھیلی تو لوگوں نے رسول اللہﷺ سے چاند اور اس کے گھٹنے بڑھنے کے بارے میں بھی پوچھنا شروع کیاجس پر وحی آئی۔ ’’یسئلونک عن الاھلۃ‘‘اے ہمارے پیارے رسول! لوگ آپ سے چاند کے حوالے سے سوالات پوچھتے ہیں۔’’قل ھی مواقیت للناس والحج‘‘آپ ان کو بتلا دیجئے کہ چاند کا معاملہ صرف اتنا ہے کہ اس کے ذریعے سے حج اور دیگر ماہ و سال کا تعین کیا جاتا ہے۔رمضان شریف کی ابتدا اور انتہاکا پتہ بھی اسی سے چلتا ہے۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ چاند دیکھ کر روزے رکھنا شروع کرواور چاند دیکھ کر ہی روزے ختم کیا کرو۔


یوں تو پاکستان کی تاریخ ہے کہ چاند کے معاملے میں کسی نہ کسی حوالے سے شور مچ جاتا ہے۔ صرف چاند ہی نہیں حکومت کا رول، سیاست کاروں کے ذاتی مفادات پارٹیوں کی باہم سرکشی،راتوں رات پارٹیوں کی تبدیلیاں، اقتدار کی جنگ،اس حوالے سے شور ہنگامہ پاکستان کا معمول بن چکا تھا۔دُنیا والے خصوصاً ہندوستان کے لوگ پاکستان کے حالات پر ہنستے تھے۔ جب حالات حد سے تجاوز کر گئے تو پاکستان میں فوج نے 1957ء میں مارشل لاء لگا دیا۔
فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خان نے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔جنرل ایوب خان نے مُلک میں بہت سی اصلاحات کیں جو ایک مستقل موضوع ہے۔ انہی اصلاحات میں چاند کے بارے میں بھی حکم نامہ جاری کیا اور پاکستان کی سطح پر رویتِ ہلال کمیٹی قائم کی جس میں مُلک کے نامور علماء کو نمائندگی دی گئی۔ اس کمیٹی کے ذمہ کام تھا کہ وہ چاند کی رویت کا انتظام کرے گی۔ آج کل رویتِ ہلال کمیٹی کی چیئرمین مفتی منیب الرحمن ہیں جو انتہائی صاحب فہم ثقہ عالم ہیں۔ دھیمہ مزاج رکھتے ہیں۔معاملہ فہم ہیں۔


اس مرتبہ عید کے چاند کو متنازعہ بنانے میں میڈیا نے بھر پور کوشش کی اور یہ بات باور کرانے میں پورا زور صرف کیاکہ لوگوں میں یہ تاثر عام ہو کہ علماء چاند کے بارے میں یک زبان نہیں ہیں۔ اور یہ کہ علماء میں تحمل اور سوچ وفکر کا فقدان ہے۔ چاند کی رویت کے بارے میں فیصلہ رویتِ ہلال کمیٹی کے اراکین کی ذمہ داری ہے اور چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی اس کا باقاعدہ سرکاری اعلان کرتے ہیں۔ اس مرتبہ میڈیا والوں نے سہواً یا جان بوجھ کر(جان بوجھ کر کا امکان غالب ہے)ایسارویہ اختیار کیاجس سے حالات میں خرابی کا امکان بڑھتا ہوا محسوس ہوا۔ اگر چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن اپنے صوابدیدی اختیارات کے پیش نظر اقدامات نہ کرتے تو ملک میں اس معاملے پر بڑی خرابی پیدا ہو سکتی تھی۔


ابھی چیئرمین کی طرف سے چاند کے بارے میں اعلان نہیں ہوا تھاکہ میڈیا والوں نے ازخود یہ خبریں دینا شروع کر دیں کہ اتنی شہادتیں موصول ہو گئی ہیں۔فلاں شہر سے خبر آ گئی ہے۔فلاں مقام پر چاند دیکھا گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔اس قسم کی خبریں میڈیا تسلسل سے جاری کرتا رہا۔ اس پر مفتی منیب الرحمن نے میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا نوٹس لیا۔ جب بار بار اعلان ہوتا رہا تو چیئرمین نے میڈیا کے نمائندے کی سرزنش بھی کی۔ اس پر میڈیا میں یہ اعلان تکرار کے ساتھ کیا جانے لگا کہ چیئرمین رویتِ ہلال کمیٹی غصے میں آ گئے ہیں اور پریس کانفرنس سے اُٹھ کر چلے گئے ہیں۔یہ اعلان ایک دفعہ نہیں بار بار دہرایا گیا، جس سے عام لوگوں میں منفی تاثر دینا مقصود تھا،جو اللہ کا شکر ہے کہ پیدا نہ ہو سکا۔


ہماری دانست میں میڈیا کے اندر کچھ ایسے لوگوں کا طبقہ موجود ہے جو اسلام بیزاری اور مذہب آزاری کے جذبات بھڑکانے کے لئے ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ یہ لوگ بظاہر اسلام اور عوام کے اندر مذہبی گرفت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ عوام کے رگ و پے میں موجود مذہبی جذبات کو کمزور سے کمزور کیا جا سکے۔ تاکہ پاکستان کے اسلامی تشخص میں دراڑیں ڈالناآسان ہو جائے۔


اس دوران مفتی منیب الرحمن کی فوٹیج جس میں وہ میڈیا کے نمائندے کو باہر جانے کا کہہ رہے ہیں درجنوں دفعہ دکھا ئی گئی۔تاکہ عام لوگوں کی ذہن سازی کرنے میں سہولت پیدا ہو اور لوگوں میں علماء سے نفرت کا بیج کاشت کرنا آسان ہو۔اسی دوران مفتی عبدالقوی کا بیان بھی نشر کیا جاتا رہا، جس میں انہوں نے رویتِ ہلال کمیٹی کو ہدف تنقید بنایا،حالانکہ مفتی عبد القوی اخباری حوالوں سے متنازعہ شخصیت بن چکے ہیں اوررویت ہلال کمیٹی کے رکن بھی نہیں رہے۔ان تمام حوالوں سے میڈیا کا منفی کردار کھل کر سامنے آتا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ میڈیا کے منفی ہتھکنڈوں کا جائزہ لے کر میڈیا کے ذمہ داران سے باز پرس بھی کرے۔ اس بد احتیاطی، بلکہ قصداً بدعملی سے ملکی حالات میں خرابی کا تدارک کیا جا سکے۔

مزید :

کالم -