ایدھی صاحب کی آخری خواہش کون پوری کرے گا؟

ایدھی صاحب کی آخری خواہش کون پوری کرے گا؟
 ایدھی صاحب کی آخری خواہش کون پوری کرے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بالآخر انتظار ختم ہوا۔ جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات ایدھی صاحب نے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اپنے خالق حقیقی کے سامنے حاضر ہوگئے کہ ساری زندگی انہوں نے اللہ کے بھروسے پر دکھی انسانیت کے خدمت کرتے ہوئے حکمرانوں اوربڑے بڑے سرمایہ داروں اورجاگیر داروں کو حیران کئے رکھا۔ بلاشبہ عبدالستار ایدھی نے انتھک محنت، ایثار وقربانی کے ساتھ دکھی انسانیت کے مسیحا کا کردار ادا کیا۔ وہ کسی مذہب ،ذات پات، رنگ ونسل، زبان اور علاقائی تعصب کا شکار نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات اور نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے انسانیت کی بے مثال خدمت کرتے رہے۔ ان کا جذبہ سچا اور بے لوث تھا، اسی لئے ان کیلئے اس مشن میں کامیابی کے راستے کھلتے چلے گئے۔ عبدالستار ایدھی کی خدمات کا سلسلہ طویل ہے۔ پانچ دس یابیس پچیس سال تک انسانیت کی خدمت نہیں کی تھی، وہ 65سال تک تن تنہا شب و روز خدمات انجام دیتے رہے۔آخری برسوں میں ان کی اہلیہ بلقیس اور بیٹا فیصل ان کا ساتھ دیتے رہے۔ صحیح معنوں میں ان کی خدمات کو ناقابل فراموش قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ حکومتوں سے فنڈز قبول نہیں کیا کرتے تھے بلکہ عوام سے چندے کی اپیل کرتے اور انہیں کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہر سال اربوں روپے کا بجٹ تیا ر کرکے ایدھی ایمبولینس سروس، لاوارث لاشوں کی تدفین، بے سہارا خواتین اور یتیم بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ جھولا پروگرام کے تحت ہر مہینے نوزائیدہ بچوں کی پرورش کا کام کیا کرتے تھے۔ سیلاب، زلزلہ، آتشزدگی اور ایسے ہی دیگر معاملات میں بھی ایدھی صاحب اپنے رضا کاروں اور ایمبولینس سروس کے ذریعے پیش پیش رہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ توفیق بھی دی کہ انہوں نے زخمیوں کی شفٹنگ کے لئے ایئر ایمبولینس سروس کا اہتمام بھی کرلیا تھا۔ یعنی جو کام حکومتیں نہیں کرپائیں، وہ زبر دست کام ایدھی فاؤنڈیشن نے کیا۔ مرنے کے بعد بھی ایدھی صاحب نے اپنی آنکھیں عطیہ کر دیں۔


ایدھی صاحب بتایا کرتے تھے کہ پہلی کامیابی انہیں اس وقت ملی، جب انہوں نے وہ پوری بلڈنگ خریدلی، جس میں انہوں نے ایک دکان میں ڈسپنسری کھولی تھی۔ اس کے بعد تو انہوں نے دکھی اور مرحوم انسانیت کی خدمت کچھ اس طرح کی کہ لوگوں نے ان پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا۔ جب بھی پیسوں کی ضرورت محسوس ہوئی، ایدھی صاحب اخبارات اور ٹیلی فون کے ذریعے لوگوں سے اپیل کرتے اور انہیں مطلویہ رقم بطور چندہ وصول ہو جاتی تھی۔ اکثر یوں بھی ہوا کہ ایدھی صاحب نے سپیشل واک کا پروگرام رکھا یا وہ کسی مقام پر اپنا بڑا رومال پھیلا کر بھیک مانگتے اور لاکھوں روپے کی امداد انہیں عوام سے مل جایا کرتی تھی۔ دراصل لوگوں نے دیکھا کہ زلزلہ آیا ہو، دہشت گردی کا واقعہ ہو، کوئی بڑی عمارت گرپڑی ہو، ایدھی صاحب اپنے رضا کاروں کے ساتھ اپنے کندھوں پر لاشیں اٹھایا کرتے تھے زخمیوں کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال بھجوایا کرتے تھے۔ ان کی زندگی اس قدر سادہ تھی کہ مردہ لوگوں کے اترے ہوئے کپڑے پہنتے تھے۔ پاؤں میں ہمیشہ چپل پہنا کرتے اگر کبھی چپل کا جوڑا نہیں ملا تو دو طرح کی چپل پہن کر گزارہ کرلیتے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے ان کی خدمات کے بارے میں سنااوران کی پذیرائی کے لئے ٹیلیوژن پروگرام ترتیب دیا گیا تو اس وقت بھی انہوں نے پاؤں میں دوطرح کی چپل پہنی ہوئی تھی۔ ایدھی صاحب نے بتایا کہ میرا کرتہ اور پاجاما بھی کسی مردہ شخص کی اترن ہے۔ وہ انتہائی سادہ زندگی بسر کرتے رہے۔ معمولی کھانا ان کی مستقل غذا ہوا کرتی تھی۔ کبھی مرغن کھانا انہوں نے نہیں کھایا تھا۔


ایک مرتبہ ایدھی صاحب نے لاہور میں مال روڈ پر بھیک کیمپ لگایا۔ ریگل چوک میں لوگ ان کے لئے چندہ دے رہے تھے۔ سخت سردی میں بھی ایدھی صاحب معمولی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ ہم نے ان سے ملاقات کی اور پوچھا’’ آپ نے سردی سے بچاؤ کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔‘‘ ان کا جواب تھا۔ ’’میں ٹھنڈے اور گرم موسم کا عادی ہوں۔ ویسے بھی میرا بھروسہ ہے میرا خدا میری مدد ہر جگہ اور ہر معاملے میں کرتا ہے‘‘ ایدھی صاحب نے وطن عزیز میں ہی انسانیت کی خدمت نہیں کی ، بوسنیا، برما، افغانستان اور دیگر ممالک میں بھی انہوں نے بھرپور خدمت کی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا نام اعتماد اور احترام کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ ایک موقع پر انہوں نے کراچی، حیدر آباد، لاہور اور پشاور میں نشے کی لعنت کا شکار افراد کی بحالی کا کام بھی شروع کیا اور پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں کی مدد لی گئی۔ ایدھی صاحب فخریہ بتایا کرتے تھے کہ ان کا ادارہ پونے دو لاکھ لاوارث لاشوں کی تدفین کا کام کر چکا ہے۔ کراچی کے قبرستانوں میں جگہ بہت کم رہ گئی ہے۔ ایدھی صاحب کی خواہش تھی کہ ’’ایدھی قبرستان‘‘ کے لئے حکومت جگہ فراہم کرے۔ دبے دبے الفاظ میں اپنی اس خواہش کا اظہار انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ کیا لیکن بات نہ بن سکی۔ جس پر وہ بے حد فکر مند تھے کہ مقتدر لوگ بیان بازی کرتے ہیں، عملی طور پر کچھ نہیں کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ان کے گردے خراب ہو چکے تھے بلڈ پریشر اور شوگر نے نڈھال کر رکھا تھا۔ حکومتی نمائندوں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ان کے اعلیٰ علاج کیلئے انہیں بیرون ملک بھجوانے کی پیشکش کی گئی۔ سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری کا پیغام لے کر سابق وزیر داخلہ رحمان ملک عیادت کے لئے پہنچے لیکن ایدھی صاحب نے بیرون ملک علاج سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ہی ملک میں کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کرانا پسند کریں گے۔ اگلے روز آصفہ بھٹو زرداری بھی پہنچ گئیں اور کافی اصرار کیا کہ بیرون ملک علاج کیلئے مان جائیں لیکن ایدھی صاحب نے آصفہ بھٹو کی بات بھی نہیں مانی اور کہا کہ اگر آپ لوگوں نے کچھ کرنا ہے تو ’’ایدھی قبرستان‘‘ کیلئے جگہ دلوا دو۔ ان کا اشارہ واضح تھا کہ سندھ حکومت یہ کام آسانی سے کر سکتی ہے۔ آصف زرداری یا بلاول بھٹو اپنی پارٹی کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو اس بارے خصوصی ہدایت کریں تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ آصفہ بھٹو نے اس موقع پر بچوں کی طرح ایدھی صاحب کو یقین دلایا کہ ایدھی قبرستان کا مسئلہ ضرور حل ہو گا۔ لیکن افسوس سیاستدانوں کے وعدے محض سیاسی طفل تسلیاں ثابت ہوئے۔ ایدھی صاحب منتظر رہے۔ ان کی طرح بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ ایدھی قبرستان کا مسئلہ ضرور حل کیا جائے گا اور کوئی پیش رفت ہو گی مگر آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس جانب توجہ دیتے۔ بالآخر انتظار ختم ہوا اور ایدھی صاحب کی آخری خواہش ان کی زندگی میں پوری نہ ہو سکی۔
ایدھی صاحب کی آخری خواہش کوئی نا ممکن بات نہیں۔ کراچی میں جہاں ہزاروں مقامات پر ناجائز قبضے کئے جا چکے ہیں، کہیں نہ کہیں اتنی جگہ تو ضرور بچ گئی ہو گی کہ ایدھی قبرستان کا مسئلہ حل کر لیا جائے۔ صرف بے حسی کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو یہ کام آسانی سے سندھ حکومت کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم نوازشریف بھی یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ ماشاء اللہ شریف برادران کے پاس دولت کی کمی نہیں، وہ اپنی ذاتی جیب سے بھی کراچی میں ’’ایدھی قبرستان‘‘ کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ محروم اور دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دینے والے عبدالستار ایدھی کی آخری خواہش ان کے مرنے کے بعد کون پوری کریگا۔ یہ اعزاز آصف زرداری اور بلاول بھٹو حاصل کرتے ہیں، یا شریف برادران کو ایدھی قبرستان کا بندوبست کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔!

مزید :

کالم -