الیکشن کمیشن کی نامزدگی ،کل اپوزیشن لیڈر کے دفتر میں اجلاس ہوگا
تجزیہ:چودھری خادم حسین
قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پیر کو اپنے چیمبر میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس بلا لیا ہے یہ الیکشن کمشن کے اراکین کی نامزدگی کے لئے مشاورت کی غرض سے بلایا گیا کہ اسی روز نامزدگی کے لئے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کا بھی اجلاس ہونا ہے۔ حزب اختلاف کے اجلاس میں حکومت کی طرف سے پیش کئے گئے ناموں پر غور کے علاوہ اپوزیشن کی طرف سے بھی نام تجویز ہوں گے۔ یوں پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس شاید مختصر ہو کر سید خورشید شاہ تھوڑا وقت مانگیں گے کہ حزب اختلاف کی مکمل مشاورت سے جو نام طے ہوں وہ بھی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں رکھے جائیں تاکہ اتفاق رائے کی نوبت آئے اور الیکشن کمشن کے اراکین کی نامزدگی ہو اور کمشن مکمل ہو جائے۔ اب تک کمشن نے سارا کام روکا ہوا ہے اس میں وزیر اعظم کے خلاف دائر ریفرنسوں کی سماعت بھی شامل ہے۔ یار لوگوں نے اسی اجلاس کے حوالے سے شاید پاناما لیکس کی خبر جوڑ دی ہے کہ اپوزیشن کا گرینڈ اجلاس بلانے کی کوشش شروع کر دی گئی۔ حالانکہ عمران خان دس روز کے لئے لندن جا چکے ہیں۔ اور ان کا اعلان ہے کہ 20 جولائی کو تحریک کا اعلان کریں گے۔ لندن سے واپس آنے کے بعد اب تو اپوزیشن(متحدہ) کو یہی فیصلہ کرنا ہے، کہ اس تحریک میں شامل ہوا جائے یا نہ ہوا جائے، اس مسئلہ پر خود حزب اختلاف کی جماعتوں کے اندر اختلاف ہے، عوامی نیشنل پار ٹی اور پیپلز پارٹی حکمت عملی کے حوالے سے یکسو نہیں ہیں، جبکہ تحریک انصاف ہر صورت تحریک شروع کرنا چاہتی ہے چاہے اکیلی ہو، تاہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا رویہ مختلف ہے وہ تحریک کے حامی اور تحریک انصاف کے ساتھ بھی چلنا چاہتے ہیں جبکہ عمران خان کہتے ہیں، اتفاق صرف کرپشن کے ایک نقطے پر ہے،انہی حالات میں سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے خود احتساب کے لئے پیش ہونے کا کہا اب ان کو ایسا کرنا چاہیے، وزیر اعظم لاہور واپس آچکے، اب یہ ان کی صوابدیدہے کہ وہ یہ مشورہ مانتے ہیں یا پھر اپوزیشن کو وسیع اتحاد بنانے کا موقع دیتے ہیں، فی الحال تو وہ ایک ہفتے تک صرف سرکاری فائلوں ہی کو دیکھیں گے اس کے بعد سیاسی سرگرمیاں بھی شروع کریں گے جو محدود ہوں گی کہ بائی پاس آپریشن کے بعد زیادہ سردی اور زیادہ گرمی سے گریز کی ہدائت کی جاتی ہے اس لئے عام لوگوں میں آنا یا جلسے کرنا ذرا مشکل ہوگا البتہ وہ دفتری امور سر انجام دیں گے اس لئے ٹی۔او۔آرز کمیٹی کے احیاء کا فوری امکان نہیں ہے۔
وزیر اعظم کی واپسی کے حوالے سے پی۔آئی۔ اے کی وضاحت عذر گناہ بد تراز گناہ والی بات ہے، عمران خان اور دوسرے حضرات کی طرف سے بوٹنگ 777کی روانگی اور وزیر اعظم کو لانے کے حوالے سے دی گئی کہ عام پرواز میں مطلوب نشستوں کی گنجائش نہیں تھی، ساتھ ہی کہا گیا کہ وزیر اعظم کے لندن میں قیام کی وجہ سے وزیر اعظم کا کیمپ آفس(چھوٹا) وہاں قائم کردیا گیا تھا، اب اسے بھی واپس لانا تھا، بوٹنگ777شریف خاندان کے 35افراد اور عملے کے تھوڑے سے لوگوں کو لائے گا، یہ خصوصی طور پر پاکستان سے بھیجا گیا اور یہ اہتمام کیا گیا کہ جراثیم سے پاک صاف ہو، اور ایسا کیا بھی گیا کہ ادویات کے چھڑکاؤکرکے جہاز کو محفوظ بنایا گیا ہے، یہ وضاحت اس مطالبے کے سامنے کچھ نہیں کہ پاکستان سے خالی جہاز جاکر اتنے ٹھوڑے لوگوں کو لائے! اس پر 29کروڑ روپے خرچ ہوں اور پی۔آئی۔اے۔ کا شیڈول بھی متاثر ہو، اس حوالے سے جواب تو دینا ہوگا۔
ادھر امریکی سینیٹر جان مکین کے حوالے سے دو خبریں شائع اور نشر ہوئیں جوصریحاًجان مکین کی پہلی گفتگو ا ور انٹرویو کے متوازی ہیں، جان مکین نے تو افغانستان کے مسئلہ پر بارک اوباما پر تنقید کی اور پاکستان کی تعریف کی تھی، اب جان مکین کے وفد کی واپسی کے بعد رپورٹ کے حوالے سے امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اُلٹ بات کردی وہ کہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے یقین دلایا کہ پاکستان کی سر زمین افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، اس یقین دہائی پر اعتماد ہے پاکستان کو مزید کارروائی کرنا چاہیے،جبکہ یہاں آئی۔ایس۔ پی۔ آر کے مطابق جنرل راحیل شریف نے افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے حلاف استعمال نہ ہونے دینے کا مطالبہ کیا اور یقین دلایا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا، یہی پالیسی ہے کہ وزیر اعظم بھی یہ کہہ چکے، یوں امریکہ کا دوغلہ رویہ بار بار نظر آجاتا ہے۔
ملک کے اندر دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اگرچہ بہت کمی آ چکی لیکن امن نہیں ہو پار ہا، کیا ایسے میں سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ بھی ضروری ہے ۔
ہم نے بہت عرصہ قبل گزارش کی تھی کہ ملک میں ایک’’لابی‘‘ صدارتی نظام حکومت کے لئے کام کررہی ہے، کئی اطرف سے تائید ہو چکی تھی، اب تازہ ترین انٹرویو میں ڈاکٹر طاہر القادری نے واضح طور پر صدارتی نظام کی حمائت کی اور اس سے پہلے عمران خان سوالات کے جواب میں تائیدی بات کر چکے ہیں جبکہ نئی جماعت پاک سرزمین پارٹی کا تو منشور اور مطالبہ تو یہی ہے، ان عوامل پر بھی غور کی ضرورت ہے، غور ضرور کریں فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے، ویسے شیخ رشید ڈاکٹر طاہر القادری سے مل کر ’’ کچھ‘‘ کر چکے ہیں۔
