علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر4

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر4
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر4

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: پیر ابو نعمان

24روز تک زید ہسپتال میں ناشتہ کا فرض ادا ہوا تو حضرت پیر محمد رمضان نے اپنی خدمت کی ادائیگی پر اللہ کے حضور گڑ گڑا کر اس کی مقبولیت کے لئے دعا کی۔ قرض خاصا چڑھ گیا تھا۔ پریشانی تو تھی لیکن گھبراہٹ تھی نہ ایمان میں کمزوری ۔ یقین تھا اللہ کریم اس کے اسباب پیدا فرما دیں گے۔
جس روز حضرت مبارک صاحبؒ شیخ زیدہسپتال سے فقیر آباد واپس آئے تو ہسپتال میں آنے والے ہر مہمان و سالک نے پیر محمد رمضان کی بے لوث خدمات کو سراہا اور حضرت پیر محمد عابد سیفی سے کہتے رہے ’’ اس مرید نے مرشد مبارک کی خدمت کرکے معرفت میں جو مقام پایا ہے اللہ بہت کم کو یہ رتبہ نصیب کرتا ہے‘‘کچھ ممتاز پیران کرام نے تو یہ بھی کہہ دیا’’پیر صاحب یہ مرید آپ ہمیں کیوں نہیں دے دیتے‘‘ ۔

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر3 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس پر پیر صاحب فرماتے’’ میرا ہر مرید میرا نہیں بلکہ مبارک صاحب کامریدہے۔رمضان ان مریدوں میں سے ہے جس کے بارے میں سرکار مبارک صاحبؒ فرماتے ہیں کہ یک مرید نر مرید‘‘۔۔۔
صاحبزادہ حیدری صاحب اور صاحبزادہ مولانا حمید جان نے اس موقع پردعا فرمائی۔ ’’اے اللہ پنجاب والوں نے حضرت مبارک صاحب اور آپ کے خاندان و مہمانوں کی جس طرح جان و مال سے خدمت فرمائی ہے بالخصوص حضرت پیر محمد عابد صاحب کے مرید محمد رمضان نے جس جذبے لگن اور خلوص کے ساتھ ناشتہ کی والہانہ پرخلوص ذمہ داری ادا کی ہے اسے قبول و منظور فرما اور اس کے رزق میں وسعت فرما‘‘
صاحبزادگان تو سیف الزبان ہیں۔ ان کی دعاؤں سے عاجز و منکسرالمزاج محمد رمضان کا ذوق طریقت اور بڑھ گیا۔ اس دوران حضرت پیر محمد عابد سیفی صاحب نے پیر محمد رمضان کے اسباق بھی مکمل کرا دیئے تھے اور پھر حضرت مبارک صاحبؒ نے اپنے دست مبارک سے پیر محمد رمضان کو مطلق خلافت سے سرفراز کیا۔
پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے دل میں اپنے دادا مرشد سے ملاقات کی تمنا انگڑائی لیتی رہتی تھی ۔وہ اپنے مرشد سے گزارش کرتے رہتے تھے۔ انہی دنوں حضرت پیر محمد عابدحسین سیفی کے بیٹے مفتی حافظ عرفان اللہ سیفی کی شادی طے ہوگئی تو ان کا نکاح حضرت مبارک صاحبؒ نے پڑھانے کا وعدہ فرمایا۔ نکاح کے روز پیر محمد عابد حسین صاحب نے اپنے چہیتے مریدمحمد رمضان سے کہا ’’چلو بھئی تمہاری فرمائش پوری کر دیں۔ آج عرفان اللہ کا نکاح ہے اور تم بھی ساتھ چلو ۔۔۔‘‘ پیر محمد رمضان کے لیے یہ موقع مسرت انگیز تھا۔ انہوں نے راستے سے گلاب کے پھولوں کی مالائیں خرید لیں۔
حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی نے ان کایہ ذوق دیکھاتو فرمایا ’’محمد رمضان میرے مرشد کی اب طبیعت چونکہ قدرے نازک ہے ۔ آپ کو خوشبو سے الرجی ہو جاتی ہے۔ اس لئے بہتر تھا کہ تم اصلی پھول کی مالائیں نہ خریدتے۔‘‘
’’جی حضور۔۔۔آپ فرماتے ہیں تو میں دوسری مالائیں خرید لیتا ہوں‘‘ پیر محمد رمضان نے عرض کی۔
’’چلو اب چلتے ہیں۔ اللہ خیر کرے گا۔ میرے مرشد اپنے صادق سالکین کے تحائف کو بخوشی قبول فرماتے اور اپنی ناسازی طبع کو خاطر میں نہیں لاتے ۔۔۔میرے مرشد فرماتے ہیں صادق سالک کا دل توڑنا گناہ ہے، کبر ہے۔‘‘
نکاح کا اہتمام مسجد میں کیا گیا تھا۔ سالکین وسیع حلقہ بنا کر بیٹھ گئے تھے۔ دور منبر کے پاس حضرت مبارک صاحبؒ وہیل چیر پر تشریف فرما تھے۔ آپ کے پاس ہی حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی حسب روایت موجود تھے۔
’’میں آپ مبارکؒ سے کافی دور بیٹھا تھا۔۔۔‘‘ پیر محمد رمضان کی آنکھوں میں یادوں کے چراغ روشن ہوگئے۔ وہ نم ناک لہجے میں گویا ہوئے’’مالا والا شاپر میرے سامنے رکھا تھا۔ مبارک صاحبؒ نے دور سے انگشت شہادت سے میری جانب اشارہ کیا۔ یہ بلاوا تھا۔ میرے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آپؒ نے اتنے سارے سالکین میں سے میرے ذوق وتمنا کو دیکھ لیا تھا۔ایک سالک کی تڑپ اور خلوص کا پیمانہ تول لیا تھا۔ میرے مرشد کریم نے آپ مبارکؒ سے اس دوران عرض کی حضور یہ میرا مرید ہے اور آپ کی زیارت کے لئے بے تاب رہتاہے۔اس نے ہسپتال میں آپ کے مہمانوں کی بہت خدمت کی ہے۔آج آپ کے لیے پھولوں کی مالائیں لایا ہے۔‘‘ آپؒ نے تبسم فرمایااوران تازہ گلابوں کو سونگھ کر فرمایا ’’سبحان اللہ ۔۔۔‘‘ پھر آپؒ نے فرمایا’’یہ مالائیں صاحبزادوں کو پہنا دو۔۔۔‘‘
میں وہ سعادت آفریں لمحے بھول نہیں سکتا۔ آج بھی ان لمحوں کے احساس سے میرے بدن میں جذبۂ حال پیدا ہو جاتا ہے۔ آپ نے اس روز مجھے خصوصی توجہ فرمائی اور پھر جب بھی آپؒ کی زیارت کے لیے حاضر ہوتا آپؒ مجھ فقیر پر شفقت فرماتے۔ آپ کی توجہ کی تاثیر مجھے عزم و استقامت اور روحانی لذت سے آشنا کر دیتی اور پھر میرے عسرت زدہ دن پھرنے لگے۔۔۔
حقیقت میں ان دنوں میں بہت زیادہ تنگ دستی کا شکار تھا۔ بالکل خالی ہاتھ تھا۔ لیکن مشائخ کے صدقے آپ کی نگاہوں نے مجھے خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا۔(جاری ہے)

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔۔۔قسط نمبر5 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزید :

درویش کامل -