پاکستان دوراہے پر اور سیاسی جماعتیں دست و گریباں
پاکستان کی موجودہ صورت حال اس لحاظ سے خطرناک ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے بیچ مل بیٹھنے کے امکانات ہیں نہ کسی بھی قومی مسلے پر ایک سوچ اپنانے کے۔ پچھلے 5 سال بہت ہنگامہ خیز گزرے ہیں۔
پنجاب کی دو بڑی سیاسی قوتوں کے کارکنان سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف آسمان سر پر اٹھائے پھرتے ہیں اور ایک دوسرے پر انگشت نمائی کے ساتھ ساتھ مغلظات بکنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ سیاستدانوں نے اپنی کھینچا تانی میں اب ملک کے کئی بڑے اداروں کو بھی کھینچ لیا ہے اور کئی سیاستدان کھلم کھلا اداروں پر بھی سنگ باری کرنے میں مصروف ہیں اس سے پہلے 90 کی دہائی میں بھی ہم ایسے حالات سے گزر چکے ہیں، جس کے نتیجے میں ہمیں ایک اور آمریت کا شکار ہونا پڑا تھا اور ملک کئی سال پیچھے چلا گیا۔
90 کی دہائی میں ایک پارٹی پنجاب میں اور دوسری سندھ میں مضبوط تھی اب کی بار دونوں جماعتیں پنجاب میں برتری کی دعویدار ہیں اور دونوں کو کم و بیش پنجاب سے جوشیلے کارکنوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس وقت دونوں جماعتیں پوائنٹ آف نو ریٹرن کی پوزیشنوں پر موجود ایک دوسرے کو للکار رہی ہیں اور مختلف الزامات کی بوچھاڑ کرنے میں مصروف ہیں، ان حالات میں آنے والی نئی حکومت کے لئے کار ہائے زندگی چلانے میں بہت دقت ہوگی۔
لہٰذا اس سلسلے کو روکنا ہوگا۔
تمام جماعتوں کے سربراہان کو چاہیے کہ وہ پہلے خود اخلاق سے گری زبان کے استعمال سے اجتناب کریں اور اپنے کارکنان کو بھی تربیت دیں۔ ابھی آج رات لندن کے ایون فیلڈ فلیٹس کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں نے مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف خاندان کے فلیٹس کے دروازے توڑنے کی کوشش کی ، جسے لندن پولیس کی مدد سے روکا گیا ۔ یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔
نوازشریف خاندان کے اوپر احتساب عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں جن میں ایک مقدمہ میں انہیں سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ اور انکی گرفتاری کی تیاریاں بھی مکمل ہیں۔ ساتھ ہی ان کو 10 دن کے اندر ہائیکورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہے۔ یہ تمام طریقہ کار قانونی ہے، جس میں ملزمان اپنی صفائی پیش کر کے ریلیف حاصل کریں یا سزا بھگتیں۔
لیکن اس سارے معاملے کو دونوں طرف سے سیاسی رنگ دینے اور اعلان جنگ کر کے دنیا کے سامنے اپنے ملک کو تماشہ نہ بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے یہ پاناما پیپر کا ہنگامہ صرف پاکستان میں ہی برپا ہے باقی تمام ممالک جن کے لوگ ان پیپپرز میں سامنے آئے، ان کے ساتھ قانونی طریقہ کار سے نمٹا جا چکا ہے لگ بھگ تمام ممالک کے قانون کے مطابق یہی ہے کہ آف شور کمپنیوں کے مالکان اپنی اس دولت کا حساب کتاب پیش کریں کہ یہ دولت کیسے کمائی ہے اور کس طریقے سے ملک سے باہر لے جائی گئی ہے۔ آیا یہ دولت بدعنوانی یا ٹیکس چوری سے تو نہیں کمائی گئی؟
اب یہ سیدھی سی بات تھی۔ دنیا میں جن لوگوں نے اپنا حساب سامنے رکھ دیا انہیں کوئی سزا ہوئی نہ جرمانہ کیونکہ جائز پیسے سے آف شور کمپنی بنانا کوئی جرم نہیں اور جو اپنے ذرائع آمدن ثابت کرنے میں ناکام ہوئے انہیں سزائیں بھی ملیں اور دولت واپسی کے ساتھ جرمانے بھی ادا کرنے پڑے۔ اب ان سادہ اور سیدھے دو سوالوں کے جوابات دینے جن کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھا کہ 1۔
اپنے ذرائع آمدن کی تفصیل بمعہ ثبوت پیش کریں۔ 2۔ اپنی دولت کو بیرون ممالک لے جانے کے ذرائع یا منی ٹریل کے ثبوت فراہم کیے جائیں کی بجائے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا۔ دوسری طرف عدالتوں اور بدعنوانی روکنے کے اداروں سے بڑھ کر سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنان نے پوچھ گچھ اور الزامات کی پٹاریاں کھول لیں اور ملک میں ایک ہیجان برپا کر دیا۔ جو ہنوز پورے زور و شور سے جاری ہے۔ ایک طرف ابھی تک الزامات قبول کرنے اور شرمندگی محسوس یا عدالتوں کے ذریعے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی بجائے۔
ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو لے کر اداروں کے اوپر الزامات کا سلسلہ جاری ہے ۔اب پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے، جہاں سے سیاسی جماعتوں کے سربراہان اس ملک کو انارکی سے بچا کر حقیقی جمہوریت کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں، اس کے لئے انہیں خود بھی ایک ضابطہ اخلاق کی پابندی اور قانون کی پاسداری کرنا ہوگی اور اپنے کارکنان کو بھی اس کا پابند کرنا ہوگا۔
دوسری صورت میں انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہے ۔
سیاسی جماعتوں کے علاوہ تمام سٹیک ہولڈر بالخصوص مقتدر قوتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔ آج وقت ہے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا یا تباہی کے راستے پر۔۔۔