صدر اردوان اب دلوں کو فتح کرنے کا راستہ اختیار کریں
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے عہدہ صدارت کی دوسری مدت کا حلف اٹھالیا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب ہوئے تھے، لیکن انہوں نے صدارتی مدت کی تکمیل سے بہت پہلے انتخابات کرادئے جو ان کے اعتماد کا مظہر ہیں، ان قبل از وقت انتخابات میں انہیں 52 فیصد سے زیادہ ووٹ ملے ان کے مد مقابل متحدہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کو تیس فیصد ووٹ ملے، جنہوں نے اپنی شکست خندہ پیشانی سے تسلیم کی اور ترکی میں جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہنے کا اعلان کیا، پارلیمنٹ میں بھی اردوان کی جماعت اور ان کے اتحادیوں کو واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ صدر کے فیصلوں کو پارلیمنٹ کی تائید حاصل کرنے میں کوئی مشکل حائل نہیں ہوگی اور اردوان جو بھی پالیسیاں اختیار کرناچاہیں گے ان پر عمل درآمد میں آزاد ہوں گے۔
اردوان نے اپنی پہلی سیاسی کامیابی استنبول کا میئر منتخب ہوکر حاصل کی تھی جس کے بعد وہ 2002ء میں وزیراعظم منتخب ہوگئے، اس وقت سے لے کر اب تک وہ برسر اقتدار چلے آرہے ہیں، البتہ اب انہوں نے ترکی کا نظام پارلیمانی کی بجائے صدارتی بنا دیا ہے، اس مقصد کے لئے انہوں نے ریفرنڈم کرایا تھا جس میں نظام کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا، اردوان کی تازہ کامیابی نے انہیں صحیح معنوں میں ترکی کا مردِ آہن ثابت کردیا ہے، وہ اپنے وژن کے مطابق ملک کی رہنمائی میں آزاد ہیں، بظاہر ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں، تاہم اپوزیشن بھی کافی مضبوط ہے، اکثریت اگرچہ اس کے پاس نہیں لیکن حکومت کو ٹریک پر رکھنے کی پارلیمانی اور سٹریٹ پاور اس کے پاس ضرور ہے، اس لئے چیک اینڈ بیلنس کا یہ نظام مستقبل میں ترکی کو نئی بلندیوں کی طرف لے جانے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔
اردوان نے اپنے مختلف ادوارِ حکومت میں اپنی سیاسی جماعت اے کے پی ۔کے اندر اور باہر سے سیاسی مخالفت کا سامنا کیا ہے ان کے اپنے کئی قریبی ساتھیوں کے درمیان جن میں سابق صدر عبداللہ گل بھی شامل تھے اختلافات بھی سامنے آئے اور ایک زمانے میں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے سکالر فتح اللہ گولن بھی ان کے دشمن بن گئے، موخر الذکر نے صحیح معنوں میں گراس روٹ لیول پر ہمدریاں حاصل کیں اور تعلیمی اداروں میں بڑی تعداد میں اپنے ہم خیال طلباء اور اساتذہ پیدا کرلئے، قانونی حلقوں یہاں تک کہ عدلیہ میں بھی ان کے حامیوں کی کمی نہ تھی، دو برس قبل اردوان کو جس فوجی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اس میں فوج کے جن دستوں اور ایئر فورس کے افسروں کے جس گروپ نے حصہ لیا یہ سب فتح اللہ گولن کی تحریک سے متاثر بتائے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اردوان نے امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا جہاں وہ مقیم ہیں لیکن امریکہ اس میں لیت و لعل سے کام لیتا رہا اور امریکی ادارے اردوان سے ’’ثبوت‘‘ مانگتے رہے، گولن کی واپسی تو ممکن نہ ہوسکی لیکن صدر اردوان نے فوجی بغاوت کچلنے کے بعد فوج، عدلیہ اور یونیورسٹیوں میں تطہیر کا عمل وسیع پیمانے پر کیا، فوجی افسر بڑی تعداد میں گرفتار کئے گئے، انہیں ان کے جرم کی نوعیت کے حساب سے سزائیں دی گئیں، ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، ان ججوں کو بھی برطرف کیا گیا جو حکومت کے خیال میں باغیوں سے ملے ہوئے تھے اور ان کے فیصلوں سے اس ملی بھگت کی مہک آتی تھی، اردوان نے تعلیمی اداروں کے اساتذہ پر بھی سخت ہاتھ ڈالا، یہاں تک کہ بیرون ملک گولن تحریک کے جو تعلیمی ادارے کام کررہے تھے ان میں کام کرنے والے اساتذہ اور دوسرے عملے کو واپس بلالیا، جو واپس گئے گرفتار ہوگئے، یا انہیں مقدمات کا سامنا رہا جو کسی نہ کسی وجہ سے نہ جاسکے، انہوں نے ان ملکوں میں ہی پناہ لے لی۔
تطہیری مہم کی کامیاب تکمیل کے بعد اردوان نے انتخابات کا قبل از وقت اعلان کردیا، جس کے لئے اس پر کوئی دباؤ نہ تھا، یہ ان کا یکطرفہ فیصلہ تھا، غالباً وہ سمجھ رہے تھے کہ یہی بہترین وقت ہے جب وہ قوم سے نیا مینڈیٹ لینے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، چنانچہ ایسے ہی ہوا اور وہ ایک نئے اعتماد کے ساتھ اپنا نیا صدارتی عہد شروع کررہے ہیں، اس نئی مدت میں انہیں عالمی سطح پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہوگا، ترکی دنیا کے کئی ملکوں میں اپنا کردار ادا کررہا ہے، شام تو اس کے ہمسائے میں ہے جہاں ترکی کا کردار بہت نمایاں ہے، ترکی فوج بھی شام میں موجود ہے، اسرائیل کے ساتھ اگرچہ ترکی کے پرانے سفارتی تعلقات ہیں لیکن حالیہ برسوں میں اردوان نے اسرائیل کے متعلق جو پالیسیاں اپنائی ہیں وہ عالمِ اسلام کی آوازہیں انہوں نے فلسطینی ریاست کی حمایت کی ہے اور فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم و جور کے ہتھکنڈوں کی ہمیشہ مذمت کی ہے، غزہ کی ناکہ بندی کے زمانے میں ترکی نے ادویات اور اشیائے خورد و نوش کا جہاز فلسطین بھیجا جسے روکنے پر اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جو اب تک معمول پر نہیں آئے، امریکہ نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ مستقل کرنے کا اعلان کیا تو ترکی نے اس معاملے پر فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا جس میں بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دیا گیا اور مسلمان برادری نے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کی۔
اردوان اب ایک وزیراعظم، ایک صدر یا محض ایک حکمران ہی نہیں رہ گئے، ایک مدبر سیاستدان بن چکے ہیں جو بھی حکمران اس مقام و مرتبے پر فائز ہوجاتا ہے، اس میں اپنی بات منوانے اور تحکم کا ایک مزاج پیدا ہونے کے امکانات بھی ہوتے ہیں، اردوان اس اصول سے مستثنا نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے مخالفین انہیں آمر کہنے سے نہیں ہچکچاتے، ان پر کرپشن کے الزامات بھی لگتے ہیں جن میں ان کی فیملی کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اُن کے صدارتی محل کو بھی ’’عیاشی‘‘ کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے، اُن کے بعض سخت گیر اقدامات بھی ہدفِ تنقید بنتے ہیں خصوصاً فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد انہوں نے باغیوں سے نپٹنے میں سخت رویئے کا اظہار کیا ہے، ممکن ہے وہ یہ سمجھتے ہوں کہ باغیوں کو اُن کے کئے کی سزا ملنی چاہئے لیکن مکمل فتح اور بغاوت کچلنے کے بعد اب وہ اگر صلہ رحمی کا مظاہرہ کریں اور اپنے سخت اقدامات پر نظرثانی کرکے مخالفین کی سزا میں کمی کریں اور نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے ان لوگوں کی سزائیں معاف کردیں جو کسی کے بہکاوے یا اعلیٰ افسروں کے حکم کی وجہ سے باغیوں کا ساتھ دینے پر مجبور ہوئے تو یہ ان کی عالی ظرفی ہوگی۔ انہیں اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرنا چاہئے جو حضورِ اکرمؐ نے فتح مکہ کے بعد اپنے بدترین دشمنوں کے ساتھ اختیار کیا تھا اور گھر میں بیٹھے رہنے والوں کے لئے بھی عام معافی کا اعلان کردیا تھا، سیاسی اور جنگی فتوحات کے ساتھ ساتھ ایک فتح دلوں کی بھی ہوتی ہے اور جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ کہلاتا ہے، اردوان یہ قدم بھی اٹھاکر دیکھیں اُن کی عزت میں اضافہ ہوگا۔