عالمی میڈیا کانفرنس

عالمی میڈیا کانفرنس
عالمی میڈیا کانفرنس

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چند سال پہلے ایک برطانوی صحافی پاکستان آئے تو وہ وطن عزیز میں زندگی کو معمول کے مطابق رواں دواں دیکھ کر حیران ہوئے۔ بچوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھنا، خواتین کا ذوق و شوق سے شاپنگ کرنا، کھانوں کے شوقینوں کا مختلف ڈشز پر ٹوٹ پڑنا۔

یہ ایسے نظارے تھے جس کا مغرب میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی میڈیا نے پاکستان کا ایسا امیج پیش کیا ہے جس میں یہاں اکثر لوگ مدرسوں میں پڑھتے ہیں، خودکش بمبار بننے کی تربیت حاصل کرتے ہیں اور پاکستان کا ہر شہری ہمہ وقت دہشت گردی کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔
اس پس منظر میں یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور میں ہونے والی انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس نے بہت سے لوگوں کو حیران کرنے کے علاوہ باقاعدہ پریشان کر دیا ہو گا۔ اس کانفرنس میں چین اور نیپال سے لوگ آئے تھے۔

امریکہ اور سویڈن کے ممتاز سکالر کانفرنس کا حصہ بنے تھے۔ جرمن سفیر نے تو کانفرنس میں میلہ لوٹنے والی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ پاکستان میں اس حیرت انگیز سرگرمی کا ذمہ دار بجا طور پر ڈاکٹر مغیث شیخ کو قرار دیا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر مغیث صاحب ہمارے استاد ہیں۔ پاکستان میں علم صحافت کو جدید ابلاغیات کا علم بنانے کا سہرا ان کے سر ہے۔ 1980ء کے عشرے میں وہ امریکی یونیورسٹی اوہائیو سے پی ایچ ڈی کر کے آئے تھے تو ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔

میں ان دنوں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کر رہا تھا اور جناب مجیب الرحمن شامی کی قیادت میں قومی ڈائجسٹ کے ادارتی فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ان سے ملاقات ہوئی تو پھر ان کے ہی ہو کر رہ گئے۔ اس وقت اسسٹنٹ پروفیسر تھے، مگر ستاروں پر کمند ڈالنے کے جذبے سے سرشار تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبے جوان سے جوان تر ہوتے گئے۔

وہ شعبہ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے سربراہ بنے تو انہوں نے اسے اتنا جدید بنا دیا کہ پورے جنوبی ایشیا میں اس کی مثال نہیں ملتی تھی۔یہاں ایف ایم ریڈیو قائم ہوا۔ ٹی وی سٹوڈیو بنے۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام شروع ہوئے۔

عالمی سکالروں نے شعبہ ابلاغیات آنا شروع کیا۔ یہاں کے طالب علم بیرون ملک جانے لگے۔عالمی کانفرنسیں ہونے لگیں اور شعبہ ابلاغیات پورے زوروشور کے ساتھ پاکستان کے دل میں دھڑکنے لگا۔
ڈاکٹر مغیث صاحب پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے تو سپیریئر یونیورسٹی کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ یہاں ان کا قیام زیادہ طویل نہیں تھا مگر یہاں بھی انہوں نے ایم فل پروگرام شروع کیا۔ پی ایچ ڈی پروگرام کی تیاریاں شروع کر دیں۔

سپیریئر یونیورسٹی کے اساتذہ ڈاکٹر صاحب کی بصیرت اور محنت کی تعریف شروع کریں تو رکنے کا نام نہیں لیتے۔ سپیریئر یونیورسٹی کے بعد دبئی کی ایک امریکی یونیورسٹی کے ساتھ بھی منسلک ہوئے مگر لاہور کے کھانے اور یہاں کی زندگی انہیں واپس لے آئی اور وہ یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ چند برسوں میں انہوں نے یہاں کے شعبہ ابلاغیات کو قومی سطح پر معروف کردیا ہے۔

یہاں گریجوایٹ اور ماسٹرز کے پروگرام ہی شروع نہیں ہوئے،بلکہ اس کے ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگراموں نے بھی غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ کوالٹی ایجوکیشن کے حوالے سے اب یہ شعبہ غیر معمولی مقبولیت حاصل کر چکا ہے اور پورے ملک کے ریسرچ سکالرز کا یہ مرغوب ٹھکانہ ہے۔
ڈاکٹر مغیث خواب دیکھتے ہیں اور ان خوابوں کو حیرت انگیز طور پر عملی جامہ بھی پہناتے ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد وہ پاکستان میں میڈیایونیورسٹی قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔
اختتامی تقریر میں ڈاکٹر مغیث کا کہنا تھا عالمی میڈیا کانفرنس انٹرنیشنل سطح پر ملک کے وقار میں اضافے کا سبب بنے گی۔ ان کی اس رائے سے کانفرنس کے شرکاء نے بھی اتفاق کیا۔

نیپال کی پروفیسر منجومشرا خاص طور پر ڈاکٹر مغیث کی خدمات کی دل کھول کر تعریف کرتی رہیں۔

عالمی میڈیا کانفرنس اس لئے اہم نہیں ہے کہ اس میں پاکستانی طلباوطالبات کو انٹرنیشنل سکالرز سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کا موقعہ ملا۔ اس کانفرنس میں نوجوان ریسرچ سکالروں کو اپنے مقالے پیش کرنے اور ان پر ماہرین کی آراء سے مستفید ہونے کا موقعہ ملا۔

یہ کانفرنس جہاں انٹرنیشنل سکالرز کو پاکستان لائی تھی وہاں پاکستان بھر کی تمام یونیورسٹیوں کے جیدسکالر اور پروفیسر صاحبان بھی اکٹھے ہوئے تھے۔ہمارے دوست شاہد ملک گلہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں معقولیت کی بے حد کمی ہوتی جا رہی ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ میڈیا نے معاشرے کو ٹکرز اور بریکنگ نیوز کے چسکے میں مبتلا کر دیا ہے۔ میڈیا اور ملکی مفاد کے حوالے سے ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔

اس میں سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان، جناب مجیب الرحمن شامی، جناب عارف نظامی، جناب سلمان غنی کے علاوہ دوسرے ممتاز اینکرز حضرات اور دانشوروں نے بھی شرکت کی۔

اس کانفرنس میں بڑے نازک معاملات پر احسن انداز سے گفتگو ہوئی۔ ڈاکٹر مغیث کا کہنا تھا کہ ہم نے ان اینکرحضرات اور دانشوروں سے بہت کچھ سیکھا، لیکن یہ لوگ ہم سے بھی کچھ سیکھ کر گئے ہوں گے۔ یونیورسٹی کی سطح پر اس طرح کے ڈائیلاگ کا اہتمام ایک بڑی کاوش تھی جس کی میڈیا میں بجا طور پر تحسین کی گئی۔
عالمی میڈیا کانفرنس کا تذکرہ احمد شیخ صاحب کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو گا۔ احمد شیخ عالمی سطح کے براڈکاسٹر ہیں۔ برطانیہ اور یورپی ممالک میں وہ انٹرنیشنل میچوں کی کوریج کر چکے ہیں۔

براڈکاسٹنگ کی دنیا میں ان کی حیثیت ایک لونگ لیجنڈ کی ہے۔ لوگ اپنی خامیاں چھپاتے ہیں احمد شیخ کو اپنی خوبیاں چھپانے کی عادت ہے۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو احمد شیخ ماشاء اللہ 68 سال کے ہو چکے ہیں، مگر اپنے جوش و جذبے کے حوالے سے وہ جوانوں سے بھی زیادہ جوان ہیں۔

ان کے متعلق ڈاکٹر مغیث کی بھی یہی رائے ہے جن کے فرمانے کو سب مستند سمجھتے ہیں۔ غیرملکی مہمان احمد شیخ کی میزبانی سے بھی خوب لطف اندوز ہوئے۔ اس عالمی میڈیا کانفرنس کے انعقاد پر ہم ڈاکٹر مغیث اور ان کے تمام رفقاء کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان سے یہ امید وابستہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ایسے کارنامے کرتے رہیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -