لمحہ فکریہ
دنیا بھر میں لوگ اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل کھلے اور آزاد یکساں مواقع کے ماحول میں پھلتا پھولتا دیکھنے کے متمنی ہیں۔ اس آزادی سے مراد ایسا ماحول ہے ،جہاں ان کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔
انتخابات میں آزادانہ طور پر حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ کسی کی دل آزاری کئے بغیر اپنے مذہبی عقائد پر عمل کر سکیں۔ عوامی اہمیت کے معاملات پر اپنی رائے دے سکیں، انہیں یقین ہو کہ اگر کہیں قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو عدلیہ بلا تمیز و تفریق اس کا سدباب کرے گی۔ قانون کی حکمرانی ہوگی اور حکمرانوں کا قانون نہیں ہوگا، یعنی ایسی آزاد اور خود مختار عدلیہ جو کسی بھی شخصیت یا ادارے کی پوزیشن اور اختیار سے بالاتر ہو کر فیصلے کرے۔ حکومت وقت خود بھی عدلیہ کا احترام کرے۔
حکومت وقت خود ہر شہری کی جان مال اور عزت کی حفاظت کی ضامن ہو۔ انصاف عام آدمی کی پہنچ سے بالاتر نہ ہو۔ نہ قانون مہنگا ہو اور نہ قانون دان یعنی مہیا ہو، پہنچ میں ہو اور برداشت کیا جا سکے۔ Available - Accesable- Affordableہو ۔ اس کے لئے Bar اور Benchدونوں ذمہ دار ہیں۔
* اس سارے عمل کی معاونت کے لئے ایک جاندار اور غیر جانبدار Media بھی موجود ہونا چاہیے جو بنیادی طور پر چار فرائض ادا کرے۔ 1۔اقتدار کے ایوانوں پر نظر رکھے اور انہیں عوام کے سامنے جواب دہ بنائے۔2۔
عوامی اور قومی اہمیت کے معاملات عوام کے سامنے لائے۔ 3۔عوام کی تربیت اور رہنمائی کرے، تاکہ وہ صحیح فیصلے کرنے کے قابل ہو سکیں۔4۔ عوام کو ایک مضبوط اور متحد قوم بنانے کے لئے ’’Social Glue‘‘مہیا کرے، تاکہ عوامی اور قومی اہمیت کے معاملات پر قومی اتفاق رائے پیدا ہو۔
* ان عوامل کی موجودگی کے باوجود انسانی حقوق، قوانین، آئین پر زور دینے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے، کیونکہ ’’ذمہ دار شہری‘‘ بھی ہونا ضروری ہے جو اپنے حقوق کے ساتھ اپنے فرائض سے بھی بخوبی آگاہ ہوں جو اپنی ذات کے خول سے نکلیں سوچیں اور عمل کریں، جنہیں قومی مفادات اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے زیادہ عزیز ہوں جو دوسرے شہریوں کے لئے بھی ان کی بھلائی کے لئے بھی ویسے ہی سوچیں جیسے وہ خود اپنی بھلائی، عزت اور احترام کے لئے سوچتے ہیں۔
’’اگر ہم فرشتے ہوتے تو ہمیں حکومت کی ضرورت نہ ہوتی، اگر ہم پر فرشتے حکمران ہوتے تو بھی حکومت کی ضرورت نہ ہوتی، لیکن مشکل وہاں ہوتی ہے، جب انسانوں پر انسان حکمران ہوتے ہیں۔
انہیں عوام کے ساتھ اپنے پر بھی کنٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر عوام کے لئے سول اور فوجداری قوانین کی ضرورت ہوتی ہے اور حکمرانوں کے لئے آئینی قوانین کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔
* کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا معیار وزیراعظم، وزیراعلیٰ، وزراء یا ترجمان کے بیانات اور بلند بانگ دعوے نہیں ہوتے ،بلکہ عام آدمی کی زندگی اس کے مسائل کا حل، روزگار اور بنیادی ضروریات کی فراہمی، جان و مال اور عزت کا تحفظ، امن و امان کی صورت حال ہوتا ہے۔ منتخب نمائندگان عوام کے اعتماد پر پورا نہ اترتے ہوں اور عوام کو خون چوسنے والی بلائیں بن جائیں۔
ملک اور قوم قرض کی دلدل میں غرق کر دیئے جائیں اور حکمرانوں کے اثاثوں میں ناقابل یقین اضافہ ہوتا چلا جائے تو فوری اور بے رحم احتساب وقت کی آواز اور تقاضا بن جاتا ہے۔
پارلیمنٹ کی بالادستی کا مطالبہ کرنے والے عزت اور احترام کے لائق تب ہوتے ہیں، جب وہ خود عوام کے اعتماد اور ایوان کے تقدس کا احترام کریں۔ عوامی اعتماد اور پارلیمنٹ کو مقدس سمجھیں نہ کہ چور، ڈاکو، لٹیرے بن جائیں۔ کسی فلاسفر نے کہا ہے کہ
Elected Representatives Demand Undeserving Respect Let Them Earn it, By making assemblies & Parliament, Temples of Democracy and not Ocean of Corruption.
* حالیہ سالوں میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں کی گئی جو عام شہریوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہو۔ اس کی بجائے صرف ایسی قانون سازی کی گئی اور وہ بھی انتہائی سرعت کے ساتھ جس کا مقصد کسی فرد کو یا افراد کی ذات کو فائدہ پہنچاتا تھا یا کسی بیرونی دباؤ کے تحت اور ایسا کرتے وقت قوانین آئین اور ضوابط کار کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا۔ نااہل فرد کو پارٹی سربراہ بنانا۔ اثاثے چھپانا، حلف نامے سے نبیؐ آخر الزماں کا نام مبارک حذف کرنے کی ناپاک قانون سازی کی گئی۔ ذمہ دار آج تک ’’نامعلوم‘‘ ہیں۔
* ایسے حالات میں افسر شاہی نے بتدریج اپنی مرضی سے ایک مقصد وضع کر لیا اور بسا اوقات وزراء کے احکامات ماننے سے بھی انکار کر دیتی تھی، حتیٰ کہ نوازشریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر نامدار کیپٹن صفدر اسمبلی میں بھی اور اسمبلی سے باہر بھی فواد حسن فواد کی خودسری کی شکایتیں کرتے رہے۔
تمام تر اختیارات فواد حسن فواد کو سونپ رکھے تھے اور خود بے کار غیر ملکی دورے کرتے رہے، جن سے قوم اور ملک کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے اور نہ تھا، البتہ اپنے کاروبار، جائیدادوں اور بنک اکاؤنٹس کو Up-Date رکھنا مقصد حیات بن گیا تھا۔
* اتنی بڑی کابینہ رکھی گئی، جس کی کوئی مثال نہیں اور اندرون ملک اور بیرون ملک یعنی داخلہ اور خارجہ طور پر کوئی مثبت نتائج حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی، ایک جرم سے کم نہیں۔ پوری دنیا میں ڈویلپمنٹ کا ایک ہی مطلب اور تعریف ہے۔ Improement of Existing Infrastructure، لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔
عوام کی اکثریت بنیادی ضروریات مثلاً پینے کا صاف پانی، ادویات، صحت تعلیم اور روزگار کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ان کے لئے مختص فنڈز Mega پراجیکٹ پر خرچ کئے گئے جن کا مقصد صرف کرپشن ہوتا ہے۔
حساب پوچھا جائے تو جمہوریت کے خلاف سازشیں؟ بارش ہوئی، پیرس دُھل گیا اور نیچے سے لاہور نکل آیا۔ خادم اعلیٰ کے دعوے ننگے ہو گئے۔
*خود مختاری، خود انحصاری، خوش حال مستقبل کبھی کبھی ہم سے دور نہیں ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں نے خود ہی انہیں نزدیک نہیں آنے دیا۔ سوال ایک ہی ہے، اگر آپ کا جینا پاکستان سے وابستہ ہے توآپ اپنا سرمایہ پاکستان واپس لائیں، تاکہ آپ کے وطن کی معیشت بہتر ہو،جنہوں نے آپ کو عزت دی، آپ کو صدر بنایا۔
وزیراعظم بنایا،انہیں روزگار مل سکے۔ ان کے مسائل کم ہوں گے، غربت ختم ہوگی تو اس سے وابستہ خرابیاں ختم ہو جائیں گی۔ اس وقت ملک بحرانوں کی زد میں ہے۔ مزید بحران پیدا کرنے کی بجائے معاشی بحران، غربت اور بے روزگاری کا بحران،امن و امان کا بحران حل کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کی ضرورت ہے۔