ایم ایم اے پنجاب سے قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں جیت سکے گی

ایم ایم اے پنجاب سے قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں جیت سکے گی
ایم ایم اے پنجاب سے قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں جیت سکے گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری

متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سیاسی داؤ و پیچ اور حرکیات کے اتنے بڑے ماہر ہیں کہ سینیٹ میں ان کے سینیٹروں کی محدود تعداد کے باوجود تین سال تک ڈپٹی چیئرمین کا تعلق ان کی جماعت سے رہا۔ اس کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) آج بھی سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہے اور مارچ کے الیکشن میں اپنا کوئی عہدیدار منتخب نہیں کراسکی تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو عوامل کار فرما تھے، مولانا فضل الرحمن کے خلاف ایسا کوئی عامل متحرک نہ تھا۔ یہ درست ہے لیکن یہ بھی تو مولانا کی مہارت ہی کا کمال ہے کہ وہ اپنے خلاف کام کرنے والی قوتوں کی چالیں ناکام بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل پانچ سیاسی (و مذہبی) جماعتوں کا اتحاد ہے جس میں جے یو آئی (ف)، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہلحدیث، جے یو پی (نورانی) اور مجلس وحدت المسلمین شامل ہیں۔ 2002ء میں جب یہ اتحاد پہلی مرتبہ وجود میں آیا تو مولانا سمیع الحق اور ان کی جماعت بھی اس کے رکن تھے، لیکن اب انہوں نے اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کئی سال کی جدوجہد کے بعد جب یہ اتحاد دوبارہ بحال ہو رہا تھا تو مولانا کے نمائندے بعض اجلاسوں میں شریک ضرور ہوئے، لیکن بعدازاں وہ تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے۔ (سابق) وزیراعلیٰ پرویز خٹک ان پر مہربان تھے اور مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی پالیسی کے تحت وہ ان کی مالی امداد بھی کرتے رہتے تھے، لیکن سینیٹ کے الیکشن میں مولانا سمیع الحق کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔ وہ امیدوار بنے تو انہیں امید تھی کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی انہیں ووٹ دیں گے لیکن تحریک انصاف کے بہت سے ووٹ تو فروخت ہوگئے، باقیوں نے بھی مولانا سمیع الحق کو ووٹ دینا پسند نہ کیا اور وہ ہار گئے۔
ایم ایم اے کو مولانا پہلے داغِ مفارقت دے گئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ اتحاد پانچ جماعتوں تک محدود رہ گیا۔ سنا تھا کہ ملی مسلم لیگ بھی اس کی رکن بننے کی خواہش مند ہے لیکن اسے رجسٹریشن نہ ملی۔ چنانچہ اس نے اللہ اکبر تحریک کی کرسی کو اپنا نشان بنا لیا۔ اس اتحاد میں امیدوار تو تقریباً سبھی ملی مسلم لیگ کے ہیں، لیکن پلیٹ فارم اللہ اکبر تحریک کا استعمال ہو رہا ہے۔
متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ اس بار وہ حیران کن انتخابی نتائج دے گی، مطلب ہے اتنی زیادہ کامیابی حاصل کرے گی کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں دابتے پھریں گے، ممکن ہے کے پی کے میں ایسی حیرتوں کا کوئی سامان موجود ہو، لیکن ہمارے خیال میں پنجاب کی 141 قومی اسمبلی کی نشستوں پر اس کا شاید ہی کوئی امیدوار کامیاب ہوسکے، اس لئے متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کی قیادت کی سوچ یہ ہے کہ انہیں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حمایت کرنی چاہئے، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے خواجہ سعد رفیق کی قیادت میں پروفیسر ساجد میر سے ملاقات کی تو اس ملاقات میں پروفیسر صاحب نے صاف کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ان کی جماعت کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں رکھا۔ اس کے باوجود مرکزی جمعیت اہلحدیث کا فارمولا یہ ہے کہ وہ پہلے نمبر پر اپنے امیدواروں کی حمایت کرے گی، جو ایم ایم اے کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایسے امیدواروں کی حمایت کی جائے گی، جو ایم ایم اے کی طرف سے الیکشن لڑ رہے ہوں، لیکن جیتنے کی پوزیشن میں ہوں یا اچھا مقابلہ کرسکتے ہوں۔ پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث ایم ایم اے کے کمزور امیدواروں کی حمایت کرکے ووٹ ضائع کرنے کی بجائے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حمایت کو بہتر سمجھتی ہے۔ انہوں نے اپنی اس پالیسی سے خواجہ سعد رفیق کو آگا کر دیا ہے، جس پر انہوں نے پروفیسر ساجد میر کا شکریہ ادا کیا۔ ایم ایم اے کی دوسری جماعت جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کا بھی یہی خیال ہے کہ پروفیسر ساجد میر اور ان کی جماعت کی پالیسی معروضی حالات کے مطابق بالکل درست ہے۔ جے یو پی کی قیادت کا بھی خیال ہے کہ پورے پنجاب میں ایم ایم اے کا کوئی امیدوار اتنا مضبوط نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے مدمقابل تحریک انصاف یا مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو ہرا سکے۔ اس لئے ایسے کسی امیدوار کی حمایت کرنا تحریک انصاف کی حمایت کے مترادف ہوگا۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی رائے مختلف ہے۔ اگرچہ اس نے کئی حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے۔ تاہم سراج الحق نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف جو جارحانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یاد رہے کہ 2013ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی پورے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست جیت سکی تھی، اس میں بھی مسلم لیگ (ن) کا تعاون شامل تھا اور قومی اسمبلی کی 148 نشستوں میں سے ایک پر بھی کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ اس وقت ایم ایم اے کی جو ساخت ہے، اس میں پنجاب اس کے لئے لق و دق صحرا کی طرح ہے جہاں اس کی کامیابی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ ایم ایم اے کی کامیابی زیادہ تر خیبرپختونخوا میں ہوگی، وہاں بھی جے یو آئی (ف) کی نشستیں زیادہ ہوں گی۔ بلوچستان میں بھی اس جماعت کو نشستیں ملیں گی۔ اندرون سندھ ممکن ہے جے یو آئی کو کسی حلقے میں کامیابی حاصل ہو جائے۔ جہاں تک کراچی کا تعلق ہے ایم کیو ایم کے مخالفین نے ساری امیدیں اس کی ٹوٹ پھوٹ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے وابستہ کر رکھی ہیں، لیکن کراچی کے نتائج کا انحصار بھی اس بات پر ہے کہ ’’مہاجر ووٹ‘‘ کی سوچ کیا ہے۔ البتہ وہ سب جماعتیں ضرور کامیابی کے دعوے کر رہی ہیں، جن کے چراغ کئی عشروں تک ایم کیو ایم کی سیاسی اور غیر سیاسی چالوں کے سامنے جل نہیں سکے تھے۔
ایک نشست

مزید :

تجزیہ -