’’وہ لڑکی جس کے ساتھ ایک جنّ نے شادی کرلی تھی‘‘

’’وہ لڑکی جس کے ساتھ ایک جنّ نے شادی کرلی تھی‘‘
’’وہ لڑکی جس کے ساتھ ایک جنّ نے شادی کرلی تھی‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قسط نمبر 1

جنات اورخلائی مخلوق کے وجود سے بھی کئی لوگ انکاری ہیں لیکن قرآن واحادیث کی روشنی میں بھی ان کے وجود کے اشارے ملتے ہیں لہٰذا ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں، کئی افراد پر ان کا سایہ ہونے اور علاج کے بارے میں بھی آپ نے سن رکھا ہوگا لیکن بہت سی باتیں بے تکی اور سراسر بے بنیاد ہوتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا پھر وہ ڈبہ پیر ہوتے ہیں جو ایسی شعبدہ بازیاں کرتے ہیں جن کا ذکر عمومی طورپر خبروں میں ملتا ہے ۔
ماورا کا ہمارے ساتھ ایک عرصے سے ناطہ تھا، اپنی پریشانیوں کابوجھ دوسروں کے کندھوں پر لاددینا بھی معمول ہے ، دنیاداری کی معمول کی باتوں کے دوران ایک دن دین و روحانیت پر بھی گفتگو ہوئی توماورا نے بھی دلچسپی کااظہار کیا اوراپنے ساتھ بیتی صورتحال، کہانیاں اورکیے گئے وظائف وغیرہ سے متعلق بھی بتایا،وہ بھی چیونٹیوں کو دانہ ڈالتی تھی،کرائے کے گھر میں رہتی ،کسی گھر کے خوش قسمت ہونے اور کسی فلیٹ کے منحوس ہونے پر بھی اس کا یقین تھا، رات کو دو،دو بجے جب اچھاخاصا نوجوان باہر جانے سے کتراتا ہے لیکن وہ کھاناکھانے مارکیٹ نکل پڑتی، زندگی کے دن کٹتے رہے اور کبھی کبھار آمناسامنا ہوجاتاتوحال احوال پوچھ لیاجاتا،یوں ہی دن کٹتے رہے، ہفتے اور پھر مہینے حتیٰ کہ چند سال بیت گئے۔
ایک دن ٹیلی فون آیا تو بات کرنے پر پتہ چلاکہ دوسری طرف ماوراہیں جنہوں نے ہم دونوں کے مشترکہ جاننے والے سے نمبر لیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی لیکن وقت کی کمی اور کچھ دنیا وی مصروفیات کی وجہ سے ٹیلی فون پر ہی اکتفا کرنے کی ٹھانی تو اس نے کسی پیرسے دم کرانے کی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ دراصل اسے شبہ ہے کہ ’اٹھرا‘ کی بیماری لاحق ہے اور اس کا بہترین روحانی علاج ہی ہے ۔اس کی یہ بات سن کر مریض کا تصور ذہن میں آتے ہی کسی دن ساتھ چلنے اور ایک روحانی سلسلے سے وابستہ روحانی ولی اللہ(جواب دنیا سے پردہ کرچکے ہیں)کے پاس جانے کی حامی بھرلی۔ان کا نام ملک محمد بشیر سہروری قادری تھا ،کئی بار ان سے نیاز مندی حاصل کرچکا تھا ۔اللہ ان کے درجات بلند کرے ،ولی کامل تھے اور ان کے ابرو کا اشارہ ہی سائل کے لئے تسکین کا باعث بن جاتا تھا ۔ 
ایک شام ٹیلی فونک رابطے کے بعد ماورا کے گھر پہنچا تو وہ پہلے سے ہی تیار تھی، اس کی بہن کے آنے کاانتظار کیا اور پھر ہم اکٹھے پیر خانے کیلئے نکل پڑے، ٹاؤن شپ کے علاقے میں پہنچے تو وہاں بھی پہلے سے رابطے کی وجہ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور چند ہی لمحوں میں وہ ہستی زمین پر پڑے محمدی بسترپرہمارے سامنے تھی ۔ 
انہیں ماورا نے اپنی پریشانی اور اس پریشانی کی وجہ سے پیدا ہونیوالے مسائل سے آگاہ کیا، ملک محمد بشیر سہروری قادری صاحب نے مجھ سمیت چند دیگر لوگوں کی موجودگی میں اپنے دائیں طرف رکھی تسبیح اٹھائی، اس پر کچھ پڑھا اور پھر ایک ساتھ 5,7,7دانے گھمانے شرو ع کردیئے۔ چند سیکنڈز بعد تسبیح روک لی ۔ انہوں نے اپنے اردگرد نظردوڑائی جیسے وہ کسی چیز کی تلاش میں ہوں ۔لیکن شاید ناکامی ہوئی،پھر میری جانب دیکھا اور کہیں سے کالادھاگہ لانے کی ہدایت کی۔ میں تھوڑی ہی دیر میں قریبی دوکان سے دھاگہ لے آیا۔ ملک محمد بشیر سہروری قادری صاحب نے دھاگہ پکڑلیا لیکن اُس کو غور سے دیکھتے ہوئے بولے ’’میرے بچو۔ اصل مسئلہ وہ نہیں جویہ لوگ سمجھ رہے ہیں، ماوراپر جنات کا اثر ہے اوراٹھراوغیرہ کچھ نہیں‘‘انہوں نے ماورا کی طرف آنکھ اٹھاکردیکھاتو وہ جیسے وہاں موجود ہی نہ تھی، بے سدھ تھی۔
ہم سے ابتدائی رائے لینے اور اصل مسئلے پر اعتماد میں لینے کے بعد اُنہوں نے ماورا کو قریب ہونے کی ہدایت کردی
،اب ماورا کے چہرے پر بھی ملے جلے تاثرات تھے، شاید وہ بھی یہ سمجھنے سے قاصرتھی کہ اب مستقبل میں اس کیساتھ کیا ہونے والا ہے ؟؟؟ وہ ملک محمد بشیر سہروری قادری کے قریب کھسک گئی۔ ہم باقی لوگ تھوڑے فاصلے پر تاحال قالین پر ہی براجمان تھے۔انہوں نے توبہ استغفار کرتے ہوئے اپنے ہاتھ دونوں کانوں کو لگائے اور پھر اپناالٹا ہاتھ ماورا کے سرپر رکھتے ہوئے کچھ پڑھناشروع کردیا جبکہ سیدھے ہاتھ کی انگلیو ں پر تیزی سے کچھ گننا شروع کردیا۔شاید وہ پڑھے جانیوالے کلام کی تعداد سے متعلق گنتی کررہے تھے ، ابھی ماورا پر دو یا تین پھونک ہی مارے تھے کہ اس کی حالت بگڑنا شروع ہوگئی، اس نے ہاتھ پاؤں چلانا شروع کردیئے۔
ماورا کی بے چینی دیکھ کر میں گھبراگیا تھا کیونکہ میرے لیے یہ نئی بات تھی اورمیڈیا میں سنی یا پڑھی گئی خبروں کی وجہ سے یہ بھی ڈرتھاکہ کہیں ماورا کی موت ہی نہ ہوجائے ، وہاں میرے علاوہ موجود دیگرافراد بھی بت بنے بیٹھے تھے ، انہیں اس بارے میں علم ہوگا یا پھر شاید وہ بھی میری طرح کچھ نیاہی دیکھ رہے تھے ۔ اس دوران تشدد وغیرہ کا کوئی واقعہ نہیں تھا(اس پر مزید آگے چل کر تفصیل سے بات ہوگی )وہ کچھ پڑھ کر پھونکتے رہے ، ماورا ایک ہی بات مسلسل کہے جارہی تھی 
’’ مجھے چھوڑ دو،ورنہ میں آپ کو نہیں چھوڑوں گی، آپ اچھانہیں کررہے ‘‘
ملک محمد بشیر سہروری قادری نے ماورا کی کسی بات یا دھمکی کی پرواہ کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا لیکن مزاحمت کا سامنا ہونے پر سرسے ہاتھ ہٹا کر چٹیا کو پکڑلیااور جنات کیساتھ ہم کلام ہوگئے تھے۔ ماورا کی آواز میں لرزش تھی اور وہ پہلے سے بدل چکی تھی۔انہوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کون ہو ،کہاں سے آئے ہو۔جنات نے ان کے سوالوں کے جواب دئیے تو انہوں نے جنات کو جانے کی اجازت دیدی ۔ پھر گلاس میں موجود چند گھونٹ پانی پر دم کرکے اس کے چھینٹے مارے تو ماورا تھوڑی ہی دیر میں بے حس وحرکت ہوگئی یوں لگا جیسے نیند کی آغوش میں چلی گئی ہو۔ ملک محمد بشیر سہروری قادری صاحب ذرا پیچھے کھسکے اور ماوراکو وہاں لٹادیا۔ دو منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ماورا اٹھ کریوں ہشاش بشاش بیٹھ گئی جیسے اس کیساتھ کچھ ہوا ہی نہیں تھا ۔اب وہ اپنے بال سمیٹنے میں لگی تھی کیونکہ پیرصاحب نے بالوں سے پکڑنے کیلئے کیچر اتروادیاتھا تاکہ وہ ٹوٹ نہ جائے۔
ملک محمد بشیر سہروری قادری نے ماوراسے اسکی طبیعت بارے پوچھا اور پھر ہمیں بتایا ’’ اصل میں جنات کا جس انسان پر بھی سایہ ہو،اس کے بالوں کے ذریعے یہ کنٹرول میں آجاتے ہیں، وہ بال بظاہر تومتاثرہ انسان کے پکڑے دکھائی دیتے ہیں لیکن اصل میں وہ جنات پر انکی پکڑ ہوتی ہے ۔بال پکڑلیں تو جس مذہب کا بھی جن ہویا دیو، وہ قابو میں رہتاہے لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رکھیں کہ وہ نظرنہ آنیوالی مخلوق ہے اوراسے عمل کی طاقت سے ہی قابو کیا جاتاہے، ہرانسان ایسا نہیں کرسکتااورکسی کو بھی از خود جنات کو قابو کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے،ایسا کرنے میں وہ مخلوق نقصان بھی پہنچاسکتی ہے ‘‘ انکی باتیں کسی انکشاف سے کم نہیں تھیں ۔میرے لئے یہ حیرانی کا سبب تھیں کوینکہ آج تک کسی سے نہیں سنا تھا کہ جنات کا سر کے بالوں پر ٹھکانہ ہوتا ہے یا وہ انسانی بالوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں ۔کئی باتیں اور کئی سوال ذہن میں گڈمڈانے لگے ۔ایک حیرتوں کا جہاں دریافت کرنے کی ضرورت پڑ گئی تھی۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )