وزیر اعظم کے نوٹس اور بیورو کریسی کی ہٹ دھرمی
یہ بات بہت پرانی نہیں کہ اس جون جولائی کے مہینوں میں کسان سڑکوں پر گندم کے ڈھیر لگا کے سرکاری قیمت سے بھی کم نرخ پر گندم فروخت کرتے تھے۔ میں سال بھر کی گندم خرید کر گھر میں رکھ لیتا اور پھر ضرورت کے مطابق پسوا کر سارا سال اس کا استعمال جاری رہتا مگر اس بار گندم سڑکوں پر بکتی نظر نہ آئی۔ اس لئے آٹے کا تھیلہ ہی خریدنا پڑ رہا ہے۔ اب ایک عرصے سے حکومت اور فلور ملز مالکان کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے وہ آٹا غائب کر کے قیمت بڑھا دیتے ہیں اور حکومت ڈنڈالے کر ان کے پیچھے پڑ جاتی ہے کہ مقررہ نرخوں پر آٹا بیچو۔ اس سارے کھیل میں جو طبقہ پس رہا ہے وہ غریبوں کا ہے پہلے بیس کلو تھیلے کی قیمت 805 روپے تھی۔ اب حکومت نے اس میں 55 روپے اضافہ کر کے اس کی قیمت 860 روپے مقرر کی ہے۔ مگر وہ مارکیٹ میں 1050 روپے کا مل رہا ہے وہ بھی ڈھونڈنا پڑتا ہے فلور ملز مالکان بہت طاقتور مافیا ہے۔ اسے کنٹرول کرنا حکومت کے بس کا روگ نہیں، خاص طور پر محکمہ خوراک کے افسران کی موجودگی میں جو خود کرپشن کی گنگا میں ڈبکیاں لگاتے ہیں، ایسا کرنا تو بالکل ہی ممکن نہیں محکمہ فوڈ کا ایک ڈائریکٹر ہر سال کروڑوں روپے کماتا ہے۔ کیسے کماتا ہے، کوئی اس پر بھی غور کرے۔
اس کے پاس بے محابا اختیارات ہوتے ہیں، وہ کسی فلور ملز کو جتنا چاہے گندم کا کوٹہ الاٹ کر دے پھر آنکھیں بند رکھے اور یہ چیک نہ کرے کہ جتنا کوٹہ دیا گیا ہے، اس کے مطابق مل آٹا بھی مارکیٹ میں فراہم کر رہی ہے یا نہیں فلور ملز مالکان اور محکمہ خوراک کے افسران کی ملی بھگت سے ہر سال اربوں روپے کی لوٹ مار ہوتی ہے، دو چار افسران پکڑے بھی جاتے ہیں، معطل بھی ہوتے ہیں، مگر جلد ہی دوبارہ بحال ہو کر اپنا دھندا شروع کر دیتے ہیں اس بہتی گنگا میں اضلاع کے انتظامی افسران بھی ہاتھ دھوتے ہیں، کیونکہ ان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس سارے معاملے پر نظر رکھیں، وہ نظر تو رکھتے ہیں مگر صرف اس حد تک کہ انہیں حصہ بقدر جثہ ملتا رہے۔ سو یہ لوٹ مار جاری ہے اور ایسے وقت میں بھی کہ جب گندم کی تازہ فصل سے سرکاری گودام بھرے پڑے ہیں، گندم کی پورے ملک میں کوئی قلت بھی نہیں لیکن آٹے کا تھیلا کسی ایک قیمت پر ٹھہر نہیں پا رہا۔ یاد رہے کہ اگر صرف ایک ہفتہ آٹے کا تھیلا مقررہ قیمت سے دو سو روپے مہنگا بکتا ہے تو اربوں روپے اضافی عوام کی جیبوں سے نکل کر فلور ملز مالکان، محکمہ خوراک کے افسران اور ضلعی انتظامیہ کی تجوریوں میں چلے جاتے ہیں۔
چند روز پہلے ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے جب آٹے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لیا تو میں اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ اب آٹا نایاب ہونے والا ہے۔ اس بار تو عمران خان نے نوٹس بھی بڑا سخت لیا تھا کہ پنجاب حکومت پرانے نرخوں پر آٹے کی فراہمی یقینی بنائے چاہے کوئی بھی قدم اٹھانا پڑے، حتیٰ کہ سبسڈی دینے کا آپشن بھی وزیراعظم کی طرف سے دیا گیا۔ ظاہر ہے جب کپتان کسی بات کا نوٹس لیتے ہیں تو حکومتیں اور مافیاز تھرتھر کانپتے لگتے ہیں، اسی کپکپاہٹ میں وہ یا تو مارکیٹ سے اس شے کو غائب کر دیتے ہیں یا پھر اسی کی بلیک میں فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ چینی اور پٹرول کے معاملے میں ہم یہ واردات دیکھ چکے ہیں آج کتنے دن ہو گئے ہیں کہ وزیر اعظم نے پرانی قیمت پر آٹے کی فراہمی یقینی بنانے کو کہا تھا، پنجاب حکومت نے پہلی حکم عدولی تو یہ کی کہ قیمت 805 سے 860 روپے کر دی، لیکن اس سے بھی بڑی حکم عدولی یہ تھی کہ اس قیمت پر بھی آٹے کی فراہمی کو ممکن نہیں بنایا جا سکا۔ آٹے کا تھیلا دھڑلے سے گیارہ سو روپے فی بیس کلوگرام بیچا جا رہا ہے ہم نے تو کئی بار کہا ہے کہ پنجاب میں تعینات بیورو کریسی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے مذاق کر رہی ہے۔ ان کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر یہ بیان تو جاری ہو جاتا ہے کہ مہنگا آٹا بیچنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی، مگر شاید انہیں علم نہیں کہ اس ملک میں مافیاز کو اب کسی رسمی اجازت کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے سرکار کو بری طرح ناکام بنا رکھا ہے اور عوام کو ریلیف دینے کے کسی فیصلے کو نہ صرف جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں بلکہ قیمت بڑھا کر یا قلت پیدا کر کے حکومت کو عوام کی نظروں میں مزید بے توقیر کر دیتے ہیں۔
حکومت یہ اعداد و شمار جاری کر کر کے تھک گئی ہے کہ سرکاری نرخوں پر فلور ملوں کو کتنے لاکھ ٹن گندم روزانہ کی بنیاد پر فراہم کر رہی ہے اور آٹے کی روزانہ کھپت کتنی ہے۔ مگر اس کے باوجود آٹا ہے کہ نایاب ہو جاتا ہے اور من مانے نرخوں پر فروخت جاری رہتی ہے۔ کہنے کو وزیر اعظم عمران خان نے ایک سخت نوٹس لے کر حکم جاری کر دیا لیکن یہ حکم نیچے تک کیسے نافذ ہوگا۔ صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے نزدیک یہ تو کوئی ایشو ہی نہیں، انہوں نے کون سا گندم یا آٹا خریدنا ہے۔ ان کے گھر تو دانے ہی دانے ہیں اس لئے ان کے کملے بھی سیانے ہیں وہ اپنے پیارے اور چہیتے افسران کو اس معمولی سے کام پر تو نہیں لگا سکتے کہ وہ عوام کو آٹے کی فراہمی یقینی بنائیں ان کے سامنے تو بڑے بڑے کام ہیں کروڑوں روپے کے ٹھیکے، فنڈز کی بندر بانٹ سرکاری گاڑیوں کے فلیٹ اور حکمرانی کا کروفر۔ مافیاز بھی جانتے ہیں کہ ضلعوں میں تعینات ہونے والے افسران مختصر مدت کے لئے آتے ہیں اور ان کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال بنا کر اگلی پوسٹنگ پر چلے جائیں۔
ایک پولٹری فارم مالک دوست نے مجھے بتایا کہ بھولے بادشاہ عوام کو کیا معلوم کہ مرغی کا ریٹ یکدم سو روپیہ کلو کیوں بڑھ جاتا ہے، وہ شور مچاتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر اس کا نوٹس لیں حالانکہ یہ اسی عطار کے بیٹے سے دوا لینے والی بات ہے، جس کے سبب یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اس کے بقول ڈپٹی کمشنر سے ایک خاص مدت کے لئے قیمت بڑھانے کا معاملہ طے کیا جاتا ہے، مثلاً ایک ہفتہ یا دو ہفتے کے لئے اگر کسی ضلع میں مرغی کا گوشت سو روپیہ مہنگا ہو جائے تو روزانہ کا فائدہ کروڑوں روپے میں ہوتا ہے۔ پولٹری ایسوسی ایشن پانچ کروڑ روپے میں سودا طے کرتی ہے اور پچاس کروڑ کما لیتی ہے جب زیادہ شور مچتا ہے تو معاہدے کی مدت پوری ہو چکی ہوئی ہے اور مرغی کا ریٹ یکدم نیچے آ جاتا ہے، لوگ خوشی سے تالیاں بچاتے ہیں کہ دیکھو ہمارے ڈپٹی کمشنر نے کیا کارنامہ دکھایا ہے، 320 روپے کلو بکنے والا گوشت 220 روپے کلو بک رہا ہے۔
اب ایسی انتظامیہ کے بھروسے پر جب وزیر اعظم عمران خان کسی بات کا نوٹس لیتے ہیں اور عثمان بزدار، آگے اس نوٹس کی بنیاد پر یہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ کسی کو عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو اُنہیں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملتا یہ جو سی ایس پی کلاس ہے، یہ خود کو اس ملک کا اصل مالک سمجھتی ہے اس کا سرپرست اعلیٰ ہر صوبے کا چیف سیکرٹری ہوتا ہے جو ہرقیمت پر اپنے سی ایس پی افسر کا تحفظ کر کے امورِ حکومت چلاتا ہے۔ یہ کلاس اتنی طاقتور ہے کہ اس نے وزیر اعظم کو مجبور کر کے یہ قانون بھی منظور کرا لیا کہ نیب ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ عثمان بزدار نے پنجاب میں کئی چیف سیکرٹری بدلوائے مگر عقدہ یہی کھلا کہ چیف سیکرٹری سب ایک جیسے ہوتے ہیں ان کا کام اپنے افسروں کا تحفظ ہے ناکہ عوام کو ریلیف پہنچانا، ان کا کام یہ بھی نہیں کہ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے کسی نوٹس پر چوکنے ہو جائیں، وہ ٹھنڈے ٹھار کمروں میں بیٹھ کر ایسے نوٹسوں کے چیتھڑے اُڑتے دیکھتے ہیں شاید اسی لئے عوام اب یہ کہنے لگے ہیں کہ وزیر اعظم کسی بات کا نوٹس نہ ہی لیں تو عنایت ہو گی، کیونکہ جب وہ نوٹس لیتے ہیں تو حالات پہلے سے بھی بدتر ہو جاتے ہیں۔