صادق اور امین کا ڈھکوسلہ
آئین،قانون، انصاف گھر کی لونڈی بن جائیں تو ہر بات کی من مانی تشریح کی جاسکتی ہے۔کون دیانتدار ہے،کون محب وطن،کون لائق ہے،کون بدعنوان ہے، کون غدار اور کون نااہل۔ طاقتور حلقوں کی جانب سے ایسے سرٹیفکیٹ جاری کرنا ہمارے ہاں ایک مستقل روایت بن چکی ہے۔ارب پتی جنرل مشرف اپنے دور آمریت میں خود کو مڈل کلاس ظاہر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ جنرل یحییٰ خان بہت ایماندار تھے۔ جبکہ اپنے دور میں خود جنرل یحییٰ خان مرحوم کا یہ کہنا تھا میں نے اتنی شراب پی ہے کہ بھولو پہلوان(رستم زماں) نے اپنی زندگی میں اتنا دودھ نہیں پیا ہوگا۔ کیا یہ شراب مفت آتی تھی اور جن رنگین محفلوں میں یحییٰ خان دن رات غرق رہتے تھے کیا ان کا اہتمام چندے یا خیرات کی رقم سے کیا جاتا تھا؟سچ ہے کہ طاقت کے نشے میں گفتگو کرتے ہوئے بعض لوگ کمال ہی کرجاتے ہیں۔آج کے حالات دیکھیں نیا پاکستان میں بعض دیگر گھسے پٹے نعروں کی طرح ایک یہ دعویٰ بھی ہے کہ پی ٹی آئی اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی، جب ان سے پوچھا جائے کہ آخر آپکا نظریہ ہے کیا؟ تو کوئی جواب نہیں بن پاتا،بس پہلے سے زیر عتاب سیاسی مخالفین پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے جاتے ہیں جب اورکچھ نہ ہو سکے تو خرابیوں کا ذمہ دار اشرافیہ اور مافیا کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
یو ں تو سیاسی مخالفین پر ذاتی نوعیت کے حملوں کی تار یخ بہت پرانی ہے مگر پی ٹی آئی کے ابھار اور اقتدار کے دوران اسے جدید بنیادوں پر استوار کیا گیا۔ منصوبہ سازوں نے بیانیہ تراشا کہ سیاست میں دیانتدار فرد اور پارٹی صرف ایک ہے۔باقی سب چور،ڈاکو یا بھگوڑے ہیں۔دو سال گزرنے کے بعد ا یسے تمام وعدوں کی قلعی کھلنا شروع ہو گئی ہے،بد ترین طرز حکمرانی نے انہی خرابیوں کو بہت جلد بے نقاب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ کون کرپٹ ہے کون نہیں،اسکا تعین جن تحقیقاتی اداروں نے کرنا ہو تا ہے وہ خود بری طرح سے سیاست زدہ اور متنازعہ ہیں۔ایسے مقدمات میں عدالتی فیصلوں پر بھی کئی طرح کے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں،جنرل مشرف کے دور کی طرح موجودہ حکومت بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کوکرپٹ ٹھہراتی ہے،خود ان کے اپنے کارنامے ہیں کہ تھمنے میں نہیں آ رہے۔شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر مارنے کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔کرپشن نہ صرف مالی بلکہ اخلاقی حوالے سے بھی ہوتی ہے۔ذاتیات کو زیر بحث لانا اگرچہ کوئی صائب بات نہیں لیکن جب بات ملک،ملت کی قیادت اور مستقبل کی ہو تو ایک ایک پہلو کی چھان پھٹک ضروری ہو جاتی ہے،دوسروں کو دھڑا دھڑ کرپٹ ہونے کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے وزیر اعظم عمران خان اور ایک پیج سمیت انکے حامیوں کو چاہے کتنا بھی برا کیوں نہ لگے مگر سیتا وائٹ کیس ایک حقیقت ہے،اس حوالے سے باقاعدہ امریکی عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے۔
آج بھی وہ کلپ بار بار دیکھا جاتا ہے جس میں وزیر اعظم کے موجودہ دست راست بابر اعوان ایک ٹی وی شو میں ٹیریان کا حوالہ دیتے ہیں۔پاکستان کے آئین میں اگر آرٹیکل 62،63موجود ہیں تو کیا یہ محض ذاتی معاملہ ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے عمران خان کی نا اہلی کے لیے ایک پٹیشن داخل ہوئی تو عدالت نے درخواست گزار کی سرزنش کر کے خارج کردی اور آئندہ اس معاملے پر درخواست دائر نہ کرنے کی تنبیہہ بھی کی۔بنی گالہ فارم ہاؤس کی الاٹمنٹ کے حوالے سے منی ٹریل سامنے لائی گئی تو کچے پکے کاغذوں کے ذریعے صادق اور امین کی سند سے نواز دیاگیا۔فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟ چندے کی رقوم کا غیر قانونی طور سے اکٹھا کرنا اور جائز طور پر خرچ نہ کرنا،یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ گھر کے بھیدی اکبر ایس بابر کا غذات اور ثبوتوں کے پلندے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر کوئی سننے والانہیں،ایک بڑے کھلاڑی نے کرکٹ سے معقول رقم کمانے کے باوجود خرچہ کرنے کے حوالے سے جس ”کفایت شعاری“ سے کام لیاہے،اسکا ذکر خودانکے قریبی حلقے ایک طویل عرصے سے کرتے آ رہے ہیں،یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ موصوف کا کھانا پینا،آنا جانا دوستوں کے پلے سے ہوتا رہا،یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حکومت آنے کے بعد اپنی تمام اے ٹی ایم مشینوں کو بڑے بڑے عہدوں پر اکاموڈیٹ کرے اور پھر یہ بھی کہے کہ اسے ملک کا واحد ایماندار کہا جائے،دنیا کا مروجہ اصول ہے کہ کوئی ڈنر مفت نہیں ہوتا، جو خرچہ کرتے ہیں وہ کئی گنا زیادہ وصولی کرتے ہیں،
لیکن جتنے برے طریقے سے وصولیاں موجودہ دور میں کی جا رہی ہیں ماضی میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی،چینی سکینڈل کو ہی دیکھ لیں،تمام تر نوٹس لینے کے باوجود قیمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی،کرپشن کھلم کھلا ہو رہی ہے،جب یہ تاثر دیا گیا کہ چینی مافیا کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیاہے تو پتہ چلا یوٹیلٹی سٹورزنے زیادہ نرخوں پر چینی خرید کر مافیا کو مزید خوش کردیا ہے۔صرف اس ایک معاملے میں کرپشن شیطان کی ا ٓنت کی طرح پھیلتی جا رہی ہے،وزیر اعظم عمران خان کے”مشاغل“ کے حوالے سے جو باتیں سرگوشیوں میں ہوتی رہی ہیں، ان میں سے بعض کا ذکر ریحام خان نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے،اللہ ہی جانے حقیقت کیا ہے؟ مگر اس سے قبل ان مشاغل کے حوالے سے خبریں خو د ان کے قریبی ساتھی اور مخصوص سرکاری اداروں کے لوگ ہی پھیلاتے رہے ہیں،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والے خود ہی جان لیں کہ سرکاری اداروں سے کیا مراد ہے۔سپریم کورٹ محترمہ علیمہ خان کی بیرون ملک پراپرٹی کو ریگولر قرار دے چکی ہے،مگر یہ سوال آج بھی باقی ہے کہ اتنا پیسہ آیا کہاں سے؟ اس حوالے سے جب اپوزیشن جماعتوں نے الزامات لگانے شروع کیے تو بعض حلقوں نے اسے محض پروپیگنڈا جانا،مگر اس وقت لوگوں کو حیرانی کا شدید جھٹکا لگا جب محترمہ علیمہ خان نے ملکیت تسلیم کرتے ہوئے کچھ رقم جمع کرا کے سب کچھ قانونی طور پر جائز کرا لیا۔
اپوزیشن جماعتیں آج بھی پارلیمنٹ سے لے کر پریس کانفرنسوں تک اس معاملے کو اٹھا رہی ہیں،مفادات کا ٹکراؤ بھی کرپشن کی ایک بہت بڑی قسم ہے،نئے پاکستان میں اس حوالے سے کھل کر کھیلا جا رہا ہے۔آئی ایف ایم کا ملازم وزیر خرانہ ہے،وزیر صنعت کی اپنی انڈسٹری ہے،تجارت والے کے اپنے کاروبار، صحت والا ادویات کا دھنداکرتا ہے،پٹرول والا اسی کام سے وابستہ ہے،یہی سلسلہ ہرطرف پھیلا ہو اہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اسکے باوجود وزیر اعظم کہتے ہیں کہ انہیں مافیا کاسامنا ہے،حالانکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ مافیا میرے دائیں بائیں آگے پیچھے موجود ہے۔معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کہ ملک کا سب سے بڑا پراپرٹی ڈان بھی اس وقت بنی گالہ کے غیر سرکاری مگر خصوصی مشیروں میں شامل ہے۔ اس حکومت کے دور میں اب تک لمبی دیہاڑیاں لگانے والوں میں آٹا،چینی مافیا ہی نہیں بلکہ پٹرولیم مافیا،کرنسی مافیا،لینڈ مافیا،ادویات مافیا، گولڈمافیا،تمباکو مافیا،آئی پی پیز اور دیگر شامل ہیں۔ اب نجکاری کے نام پر بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی تیاریاں کی جا رہی ہیں اس حکومت میں شامل شخصیات کیلئے کاروبارہی اولین ترجیح ہے۔ مشیر تجا رت عبدالرزاق داؤد کی کمپنی نے ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ لیا تو وہ خود قوم پر احسان کرتے ہوئے چیئرمین شپ سے مستعفی ہو گئے اور اپنے صاحبزادے کو آگے کردیا۔
یوں تو کرپشن کے حوالے سے اس حکومت کی وارداتوں پر کتاب لکھی جا سکتی ہے(ویسے مستقبل میں کتابیں ضرور آئیں گی)اس وقت چند ایک مثالیں ہی کا فی ہیں،آٹا،چینی سکینڈل کی شفاف تحقیقات ہو جائیں توعمران،بزدار سمیت وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے بڑے ستون سیدھے احتساب کے کٹہرے میں آ جائیں گے۔بڑے بول بولنے والے وفاقی وزیر فیصل واؤڈا کو دیکھیں،اتنا لمبا چوڑا مال کیسے کمایا؟ منی ٹریل کہاں ہے،بیرون ملک پراپرٹیاں کیسے بن گئیں؟میرٹ پر فیصلہ ہو تو صرف دوہری شہریت کے باعث ہی وزارت اور سیاست سے فارغ ہو جائیں۔وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی اپنی اے ٹی ایم مشین کے گھر پر رہتے ہیں اور اسے نوازنے کیلئے ہر ممکن اختیارات کا کھلااستعمال کرتے ہیں،خسرو بختیار نے کیا گل کھلائے وزیر صحت عامرکیانی کو ادویات سکینڈل میں ہٹانا پڑا تو انہیں پی ٹی آئی کا جنرل سیکرٹری بنا کر سب کو پیغا م دیا گیا کہ پارٹی کا منشور کیا ہے؟مفادات کے حصو ل کیلئے منتخب وزراء اور غیر منتخب معاونین خصوصی اور مشیروں کے درمیان دوڑ لگی ہوئی ہے نیا پاکستان بننے کے آج تقریباً 22ماہ بعد کرپشن کا لیول یہاں تک آ گیا ہے کہ ڈسٹرکٹ بار ا یسوسی ایشن ڈیرہ غازیخاں کے صدر کو پریس کانفرنس کر کے بتانا پڑا کہ وزارت قانون کی جانب سے ملنے والی گرانٹ میں سے وزیر ماحولیات زرتاج گل کے شوہر نے مبلغ 10لاکھ روپے کا حصہ مانگاہے صدر بار نے ایسا کرنے سے انکارکیا تو چیک ڈس آنر ہو گیا۔
محتاط اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت عام کرپشن تین گنا بڑھ چکی ہے،ہمیں ایک عرصے تک سنایا جاتا رہا کہ اگر اوپر حکمران ایماندار ہو تو نیچے تک سب دیانتدار ہو جاتے ہیں۔اگر اس فارمولے کو درست مان لیا جائے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اوپر سے نیچے تک سب ایک ہی ہیں،کپتان کی قیادت میں جہاں ایک طرف بیروزگاری اور مہنگائی کا سونامی برپا ہے وہیں دوسر ی جانب مختصر مدت میں ریکارڈ قرضے لے کر آنے والی نسلوں کو مقروض کر کے ریاست کے چھکے چھڑائے جا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن سر گرم کردار ادا کرتے ہوئے ملک میں وسیع پیمانے پر ہونے والی لوٹ مار اور نالائقیوں پر اس حکومت کا گھیراؤ کرتی مگر افسوس! سب جیلوں کے خوف سے سائیڈ لائن ہو گئے سیاست کرنی ہو تو اس کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے۔ بہرحال اپوزیشن کی اس کمزوری کا ایک فائدہ تو ہوا کہ ”ایک پیج“پر سلوٹیں پڑنا شر وع ہو گئی ہیں کیونکہ ناکامی کا بوجھ کوئی اپنے سر نہیں لیتا، ہمارے حکمرانوں کو دوسروں کو بے ایمان اور لٹیرے کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔اب تو نظر آرہاہے کہ انسداد کرپشن کی اگلی مہم خود انکے خلاف ہی چلے گی اس لئے بہتر ہوگا کہ مخالفین پر لگانے کیلئے کوئی نیا الزام ڈھونڈ لیں مگر ہا ں! انہیں غدار اور غیر ملکی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے بھی احتیاط کریں۔ایسا نہ ہو کہ اس حوالے سے بھی ماضی اور حال کے حقائق،واقعات اور بیانات وغیرہ سامنے آجائیں اور کھیل الٹا پڑ جائے۔