ہمارے یہ ٹیلی ویژن اینکرز!
میں نے کئی بار اس معاملے پر غور کیا ہے کہ ہمارے سیاسی مبصر میڈیا پر نمودار ہو کر جاری سیاسی صورتِ حال پر جو تبصرے اور تجزیئے کرتے ہیں ان میں دو مباحث کیوں شامل نہیں ہوتے…… ایک یہ کہ موضوعِ زیر بحث میں علاقائی اور بین الاقوامی سیاسیات سے جنم لینے والے اثرات و مضمرات کی input شامل نہیں ہوتی۔ زیادہ تر مقامی اور ملکی سیاست کو سامنے رکھ کر ایک بیانیہ ترتیب دے لیاجاتا ہے اور اسی پر سارے ٹاک شوز ترتیب پاتے ہیں۔ ایک فریق بعض ٹیکٹیکل لیول کے واقعات کو لے کر حکومت کے بخیئے ادھیڑتا رہتا ہے اور دوسرا اس کی دوبارہ سلائی کرنے کا فریضہ انجام دیتا رہتا ہے۔ایک طویل عرصے سے اپوزیشن اور حکومت کے میڈیا ترجمان مقرر ہیں۔ ان کے چہرے دیکھ دیکھ کر ناظرین کا جی نہیں بھرتا۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آٹا،گندم، چینی اور چاولوں کی بحث سے اوپر اٹھ کر کسی قومی اہمیت پر کوئی بات کی جاتی ہے۔ یہ مقرر شدہ ترجمان، مقرر شدہ مباحث پر ہی نقد و نظر کرکے آدھ گھنٹہ گزار دیتے ہیں ٹاک شو کا باقی آدھا گھنٹہ اشتہاروں پر صرف ہو جاتا ہے۔
پبلک کو بتایا جاتا ہے کہ اشتہار نہ ہوں گے تو ٹاک شوز کی گاڑی چلانے کے لئے پٹرول کہاں سے آئے گا۔ یہ کمرشلز صبح و شام و شب ایک ہی طرح کے مکالموں، تصاویر اور آڈیو کلپس وغیرہ سے مزین ہوتے ہیں۔ ناظرین و سامعین چونکہ ہر روز ٹاک شوز میں بولنے والوں اور مبصروں کو دیکھ دیکھ کر اور ان کی گھسی پٹی آراء کو سن سن کر کوئی بوریت محسوس نہیں کرتے اس لئے اشتہارات کی یکسانی سے کسی کا جی نہیں اکتاتا۔ یہ سمعی بصری یکسانی اب ہمارا کلچر بن چکی ہے۔ اس کو دور کرنے کے لئے جب تک خدا کی طرف سے کوئی کورونا وائرس جیسی ”بلا“ نازل نہیں ہو گی، ہم اس کی جگالی کئے جائیں گے۔ قدرت نے کورونا وائرس بنی نوع انسان پر نازل کرکے اسے جو سبق دینے کی کوشس کی ہے اس کا لب لباب گھسی پٹی یکسانی کے خلاف بغاوت ہی تو ہے۔ حضرتِ انسان کے خلافِ فطرت عالمی رویئے اتنے سٹیریو ٹائپ ہو چکے تھے کہ ان کو تبدیل کرنے کے لئے خدا نے گویا وقت سے پہلے صور پھونک دیا!
اور دوسرا موضوع جس کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ ٹاک شوز کے موضوعات میں مقامی اور داخلی سیاسیات کی ڈسکشن میں ملٹری inputشامل نہیں کی جاتی۔حکومت اور اپوزیشن کی صفوں میں کتنے ترجمان ہیں اور میڈیا چینلوں پر بیٹھنے والے کتنے اینکرز ہیں جن کو عسکری مباحث کا شعور ہے۔ بیشتر کو تو عسکریات کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہوتی۔ یہ آج کی بات نہیں، گزرے ہوئے تمام زمانوں میں سیاسیات پر فوجی معاملات کی پرچھائیاں ہمیشہ سایہ فگن رہی ہیں۔ پالیٹکس اور ڈیفنس کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جس معاملے کا تصفیہ سیاسیات سے نہیں ہوتا اس کے لئے آخر کار جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ یعنی جنگ گویا سفرِ سیاست ہی کی ایک اگلی منزل ہے۔ انڈو چائنا ملٹری سٹینڈ آف تو ابھی کل کی بات ہے۔ دونوں ممالک کی وزارت ہائے خارجہ کے اعلیٰ افسروں سے پوچھ کر دیکھ لیں وہ آپ کو روبرو نہیں بتائیں گے کہ انڈیا نے اپنے آئین کی دفعہ 370 اور 35-A کی تنسیخ کرکے جو بلنڈر کی تھی، 15جون کو چینی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے انڈین سولجرز کا سانحہ اسی سیاسی بلنڈر کی توسیع تھا۔ ہم جب اپنے ٹاک شوز پر کوئی سیاسی موضوع زیر بحث لاتے ہیں تو اس پر بات کرتے ہوئے اس امر کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اس کا ایک عسکری پہلو بھی ہوتا ہے۔فوج کو سیاست سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر کی افواج پسِ چلمن رہ کر جو رول ادا کرتی ہیں وہ پیشِ چلمن نہیں رکھا جاتا۔ آمریت اور جمہوریت میں یہی فرق ہے۔ اپنے گھر سے بات شروع کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آج بھی ہر گھر کا سربراہ ایسا شخص ہوتا ہے جس کے پاس فیصلے کی چابی ہوتی ہے۔ یہ شخص مذکر بھی ہو سکتا ہے اور مونث بھی۔ جن گھروں کا داخلی انتظام و انصرام خواتین کے ہاتھ میں ہوتا ہے ان کی خوش حالی اور بلند اقبالی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ”پسِ چلمن مردانگی“کا اقراراگرچہ کھل کر نہیں کیا جاتا لیکن باوا آدم کے بیشتر کارہائے نمایاں میں اماں حوا کا حسنِ کارکردگی ظاہر و باہر نظر آتا ہے۔ ماڈرن جمہوریاؤں میں جن خواتین کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار ہے وہ جمہوریائیں بہتر پھل پھول رہی ہیں۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا جو بیچ میں آ گیا۔ میرا استدلال یہ ہے کہ ہم جب میڈیا میں کسی سیاسی موضوع پر بات چیت کرتے ہیں تو جن دانشوروں اور سیاستدانوں کو دعوتِ کلام دیتے ہیں ان کے سیاسی نظریات کا پیشگی علم تو ٹیلی ویژن کے ہر قاری کو ہوتا ہے۔ کوئی بھی سیاستدان اپنی پارٹی لائن کے خلاف نہیں جا سکتا۔ اسے ہر حال میں اپنی پارٹی قیادت کو پروموٹ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ یکطرفہ پروموشن بعض سامعین و ناظرین کو بُری طرح کھٹکتی ہے۔
یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ٹی وی کا ہر ناظر ملک کی کسی نہ کسی مین سٹریم سیاسی پارٹی کا مربی یا حمائتی یا دشمن یا مخالف ہو۔ اکثریت ایسے ناظرین کی ہوتی ہے جو برسراقتدارپارٹی کی مقدورات و محدودات کا عرفان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی اپوزیشن کے ماضی وحال کی کارکردگی بھی ان کے سامنے ہوتی ہے۔ ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ٹاک شو کی بحث میں اینکر کا ووٹ کدھر ہے۔ شرکائے مباحثہ کی پرابلم یہ ہوتی ہے کہ وہ اینکر کے احترام پر مجبور ہوتے ہیں۔ وہ اگر کسی مبصر کی بات کاٹتا ہے، سوال در سوال کرتا ہے، اپنی آواز کی لَے معمول سے اوپر اٹھاتا ہے، جذباتیت کا شکار ہونے لگتا ہے یا اس مبصرکے پہلو میں بیٹھے اس کے مخالف کو دعوتِ سخن دیتا ہے اور وہ مخالف اینکر کا شکریہ ادا کرتا ہے تو اینکر صاحب کے غبارے میں ضرورت سے زیادہ ہوا بھر جاتی ہے۔ (استثنائی صورتیں تو ہر شعبے میں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اجمل جامی اور کامران خان جیسے اینکرز خال خال ہی دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں)
اگر آج حکومت یا اپوزیشن یہ فیصلہ کر لے کہ کسی بھی ٹاک شو میں اپنا کوئی ترجمان نہیں بھیجنا تو ہمارے ٹاک شوز کا سلسلہ زیادہ سے زیادہ دوچار ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکتا۔ اور اگر ٹاک شوز کسی نیوز چینل کے پروگراموں سے نکال دیں تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ اگر کسی حکومت نے ان نیوز چینلوں کی بھرمار کا علاج کرنا ہے، اگر ان کی تعداد کم کرنا مطلوب ہے، اگر مقصود یہ ہے کہ معروضی مباحث کا دروازہ کھولا جائے تو آسان ترین نسخہ یہ ہے کہ اپنے میڈیا ترجمانوں کو ان ٹاک شوز میں حصہ لینے سے منع کر دیا جائے۔ ان ٹاک شوز کی زندگی کا سارا تسلسل موضوع کو متنازعہ بنا کر پیش کرنے کے اصول پر قائم ہے۔ نیوز چینلوں کے 90، 95فیصد اینکرز موضوعِ زیر بحث کے انٹرو میں جو تصویر بنا کر اپنے ناظرین و سامعین کے سامنے رکھتے ہیں اس کو دیکھ اور سن کر نقش و نگارِ رخ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اینکر خود مباحثے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ حصہ کبھی حکومت کے خلاف ہو جاتا ہے اور کبھی اپوزیشن کے …… اینکر کی سب سے اہم ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو۔
لیکن جب وہ موضوع کے کسی پہلو کی تاریخ بیان کرتے ہوئے مختلف امثال و بیانات کا حوالہ دیتا ہے اور پروگرام پروڈیوسر کی مدد سے مختلف اوقات میں اپوزیشن کے سیاستدانوں اور اراکینِ حکومت کے بیانات کو سکرین پر دکھاتا ہے تو ناظرین کو یہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ سیاست نام ہی اس کھیل کا ہے جس کا دار و مدار تماشائیوں کی توجہ حاصل کرنے پر ہوتا ہے۔ اگر کسی سیاستدان (خواہ اس کا تعلق حکومت سے ہو خواہ اپوزیشن سے) کا بیانیہ آج 2020ء میں دریا کے ایک کنارے پر ہوتا ہے تو 2019ء میں دوسرے کنارے پر دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔ اور ان دونوں کناروں کی تصویر کشی جب کسی ناظر اور سامع کے سامنے مجسم ہو کر آتی ہے تو وہ کنفیوژ ہو جاتا ہے، اسے سیاستدان کے کردار پر شک ہونے لگتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس نے جو امیج اس سیاستدان کا اپنے ذہن میں بنایا ہوا تھا وہ اصلیت سے کوسوں دور تھا…… لیکن جب اس ناظر اور سامع کو یہ بتا دیا جائے کہ جمہوری نظام میں ”ووٹ کو عزت دو“ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ چڑھتے سورج کو سلام کرو تو پھر یہ سورج جوں جوں اوپر ہوتا جاتا ہے کوئی ناظر اس کو دیکھ نہیں سکتا۔ اور جب یہ سورج عین نصف النہار پر پہنچ جاتا ہے تو دھوپ کے سیاہ چشمے لگا کر بھی اسی سورج کو دیکھنا اپنی بینائی سے ہاتھ دھونا ہے۔
قارئین سے گزارش کروں گا کہ وہ مختلف ٹی وی چینلوں کے ٹاک شوز کے اینکر حضرات و خواتین کی ایک فہرست بنائیں اور ان کی کوالی فیکشنز کا ایک سرسری جائزہ لیں۔ ان اینکرز سے تو وہ رپورٹر بہتر تعلیم یافتہ معلوم ہوتے ہیں جن کو کسی اہم مقدمے کی سماعت یا فیصلے کے بارے میں آگہی دینے کے لئے سکرین پر لایا جاتا ہے۔ وہ رپورٹر، اعلیٰ عدالتوں میں جا کر مقدمے کی جو تفصیلات حاصل کرتا ہے اور ان کو اینکر کے کہنے پر جس طرح پردۂ سکرین پر بکھیرتا ہے، وہ حد درجہ قابلِ تحسین ہوتا ہے۔ اس نے قانون پڑھا ہوتا ہے، عدالتی مقدمات کی سماعت دیکھی اور سنی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کی گفتگو، اینکر کی گفتارِ دلپذیر سے کہیں زیادہ قابلِ اعتنا، قابل اعتماد اور قابلِ توجہ ہوتی ہے۔ اسی طرح ایل او سی پر آئے روز بھارت جو دست درازیاں کرتا رہتا ہے اس کی کوریج اور رپورٹنگ کے لئے جو رپورٹر ٹاک شوز یا خبرنامے میں لائے جاتے ہیں، ان کو دفاعی امور کی کچھ نہ کچھ سُن گُن تو ہونی چاہیے…… لیکن ایسا نہیں ہوتا…… اس لئے ناچار کسی ریٹائرڈ فوجی کو بلایا جاتا ہے اور جو کچھ وہ فوجی کہتا ہے، سامعین و ناظرین کو اس پر ”ایمان“ لانا پڑتا ہے…… کیا ہی اچھا ہو کہ خود اینکر اور رپورٹر کا اپنا تعلیمی اور تدریسی پس منظر ایسا ہو کہ اس نے دفاعی امور و معاملات کا کچھ نہ کچھ مطالعہ کر رکھا ہو اور وہ ان بہت سی اصطلاحات (Terms) سے واقف ہو جو سانحہء زیر بحث کی تفصیل کے لئے ضروری ہوتی ہیں …… امید ہے ٹی وی چینل مالکان اس طرف تو جہ دیں گے اور اپنے ٹاک شوز کو زندہ رکھنے کی سبیل کریں گے!