پنجاب کے چودھری پھر بازی لے گئے
گزشتہ چند ماہ شیطانی کورونا وبا عالم ِ انسانیت پر قہر بن کر برس رہی ہے اس نے ہماری دُنیا کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا ہے،لاکھوں انسانی جانوں کے نقصان کے ساتھ اکانومی کا بھی بیڑا غرق کیا ہے المیہ ہے انسانی اور معاشی نقصان کے ساتھ ہمارا دین بھی زد میں آ گیا ہے۔
استعماری قوتوں کے پراپیگنڈے نے اُمت مسلمہ کو انتشار میں مبتلا کر دیا ہے، مذہبی حلقے بھی تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں، کمزور ایمان والے بڑی آزمائش میں ہیں، بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے، مسجدوں میں معمول کے مطابق نمازیں نہیں ہو رہیں، مدارس بند ہیں،دعوتی عمل رُک چکا ہے، بہت سے افراد جو باجماعت نمازوں کے پابند تھے، غفلت کا شکار ہیں اس انداز میں گھروں میں نمازوں اور مطالعہ قرآن کا اہتمام نہیں کر پا رہے۔
افسوس جو وقت خاص طور پر اللہ کی طرف پلٹنے اور دُنیا و آخرت میں اس سے غضب سے پناہ مانگنے کا تھا، بڑی تعداد نے موت کے خوف سے منہ موڑ لیا ہے،وہ اس سے لاعلم ہیں، وہ کیسا خطرناک اور گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں،سوچنے والی بات یہ ہے اگر مسجدوں میں نماز باجماعت نہیں پڑی جا رہی تو کیا قیامت کے دن نماز کا سوال نہیں ہو گا؟ کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے مملکت ِ خداداد کے قیام سے آج تک دشمن دین ایک دن بھی خاموش نہیں بیٹھے جیسے کہا جاتا ہے کہ ازل سے ابد تک حق و باطل کا معرکہ جاری ہے اور قیامت برپا ہونے تک جاری رہے گا۔پاکستان میں بھی پوری دُنیا کی طرح ایسا ہی ہو رہا ہے، پہلے ہماری قوم کو دائیں اور بائیں کی سیاست کا خوگر بنایا گیا، دائیں بازو کی سیاست کی پہچان حب الوطنی سے سرشار دین سے محبت کرنے والوں، نظریہ پاکستان سے محبت کو قرار دیا جاتا تھا اور بائیں بازو کی سیاست کی پہچان، لبرل، ماڈرن، سوشلزم اور آزاد خیالی قرار پاتا تھا۔
گزشتہ74سال میں مغرب نے جس منظم انداز میں کام کیا ہے انہوں نے سیاسی اثرو رسوخ اس انداز میں حاصل کر لیا ہے،انہوں نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ایجنڈے، ان کے کردار پر بھی یلغار کی ہے اور ان میں اپنے بندے اس انداز میں داخل کئے ہیں اب سوائے چند جماعتوں کے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کو یکجا کر کے رکھ دیا ہے، جماعت کو دین اسلام کی پہچان بنایا، نظریہ پاکستان پر ڈٹ جانا نظریاتی محاذوں کا تحفظ بڑا مشکل کام نظر آ رہا ہے، ہر بندہ، ہر جماعت دنیانوی مفادات کی گنگا میں ہاتھ دھونے پر مجبور ہے،اللہ کا شکر ہے ان حالات میں جب نظریاتی سرحدیں خطرے میں ہیں ختم نبوت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں۔ قرآن عظیم الشان کے مقابلے میں بھارتی یلغار کا غلبہ ان حالات میں پنجاب کی سیاست کے چودھری،مسلم لیگ(ق) کے چیئرمین چودھری شجاعت حسین اور پنجاب کی پہچان چودھریوں کی سیاست کی جان چودھری پرویز الٰہی نے نظریاتی سیاست کا جس انداز میں تحفظ کیا ہے اور چودھری پرویز الٰہی نے سپیکر پنجاب اسمبلی کی حیثیت جس انداز میں اُمت مسلمہ بالعموم اور پاکستانی قوم کی بالخصوص نمائندگی کرتے ہوئے اسلام آباد میں مندر بنانے کے خلاف آواز بلند کی ہے ان کا عمل قابل ِ ستائش ہی نہیں قومی کی آواز بھی ہے۔
چودھری شجاعت حسین کی طرف سے یکساں نصاب تعلیم کی آڑ میں بعض کتابوں سے جہاد کے اسباق اور صحابہ اکرامؓ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے روشن پہلوؤں کے اسباق کتابوں سے نکالنے کی نشاندہی کی ہے۔انہوں نے نہ صرف اللہ سے جنت کا سودا کر لیا ہے، بلکہ اُمت مسلمہ کی ڈوبتی آواز کو ایک دفعہ پھر توانا کر دیا ہے اسی طرح چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قرآن پاک کا ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کا قانون پنجاب اسمبلی سے منظور کرانا بھی تاریخی اقدام ہے ان حالات میں جب کورونا کی عالمی وبا نے پوری دُنیا کے نظام زندگی کو تہہ و بالا کر دیا ہے، ہر فرد موت کے خوف منہ چھپائے ایک دوسرے سے دور بھاگ رہا ہے، دشمن دین حرمین شریفین کی بندش، طواف کی معطلی اور حج کی منسوخی سے بغلیں بجا رہے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کی پاسداری مشکل عمل بنا دیا گیا ہے، مُلک بھر کی سیاسی مذہبی جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
ان حالات میں مسلم لیگ (ق)، چودھری برادران نے ناممکن کو ممکن کر دیا ہے ان حالات میں نظریہ پاکستان اور ختم نبوت کا تحفظ کیا ہے، جب طاغوت کے خلاف بولنا جرم بنا دیا گیا ہے۔ قادیانیوں نے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے روشن پہلوؤں کو مسخ کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔پنجاب اسمبلی میں قرآن عظیم الشان کو ترجمے سے پڑھنے کی قرارداد کی منظوری کے بعد گورنر پنجاب چودھری سرور نے دستخط کر کے حق کا علم بلند کیا ہے۔پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے قرآن کو ترجمے سے لازمی پڑھنے کے بعد ڈگری جاری کرنے کا قانون پاس کروانے کے بعد خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی عنایت اللہ خان نے بھی قرآن پاک کا ترجمہ لازمی پڑھانے کی قرارداد پیش کر دی ہے۔ پی ٹی آئی کے وزیر قانون نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے۔ پنجاب کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی خوبصورت روایت بن رہی ہے۔ امید کرتے ہیں سندھ اور بلوچستان اسمبلی میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی طرح ختم نبوت کے تحفظ اور قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ لازمی پڑھنے کا قانون بنائیں گے، آخر میں صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے بطورِ مسلمان بعض دانشور حضرات اور کالم نویس حضرات کی طرف سے قرآن کی ترجمے کے ساتھ لازمی تعلیم کے قانون کی مخالفت سمجھ سے بالاتر ہے، اللہ تعالیٰ ہماری اُمت مسلمہ کو متحد ہونے کی توفیق دے اور عالم اسلام کو کورونا سے نجات دے۔ آمین