سچے عشق اور خوشبو کی باتیں....!
لاہور کے تاریخی قبرستان میانی صاحب میں کیا کیا نگینے دفن ہیں!!!........عالم....ادیب ....شاعر ....صحافی اور سیاستدان....لاہور کی تاریخ سے گہری دلچسپی رکھنے والے معتبر صحافی برادرم میم سین بٹ نے مجھے ایک طویل فہرست ارسال کی ہے.....چند روز قبل شاعر ختم نبوت ﷺ..... شاعر صحابہؓ و اہل بیتؓ جناب سید سلمان گیلانی نے مجھے دو نایاب وظیفے بھیجے اور ساتھ ہی تجویز دی کہ بہتر ہے میانی صاحب کے احاطہ مولانا احمد علی لاہوریؒ میں بھی حاضری دیں.. .. جناب گیلانی صاحب خوش قسمت ہیں کہ بچپن سے ابتک بڑے بڑے بزرگوں سے فیض یاب ہور ہے ہیں...کندن ایسے ہی بنتاہے...با ادب با مراد...کیا ہی خوب صورت ...خوب سیرت ...باکردار اور خوش گفتار شاعر ہیں .. .. مدحت رسول ﷺ ہو......شان صحابہؓ ہو....ذکر اہل بیتؓ ہو.....عشق کی چنگاری سلگا دیتے...تڑپا دیتے ہیں... . جو انہیں ایک دفعہ سن لے سنتا ہی رہتا ہے.....اعتدال پسند ہیں اور سب کو پسند ہیں....دو مرتبہ لاہور پریس کلب کی محفل حسن قرات و نعت میں آئے اور دل جیت کے چلے گئے....
لاہور پریس کلب نے انہیں اعزازی لائف ممبر شپ بھی دی...... شیخ التفسیر حضرت لاہوریؒ نے سچ فرمایا کہ اللہ والوں کی جوتیوں میں وہ موتی ملتے ہیں جو بادشاہوں کے تاجوں میں نہیں ہوتے...گمان ہے کہ اس سید زادے کو بھی وہ موتی ملے ہوئے ہیں....
ابھی کچھ دن پہلے سنئیر صحافی دوست حافظ عبدالودو کے جنازے کے لئے میانی صاحب جانا ہوا......لیکن اب کی بار دل اور ہی طرح سے مچلا کہ رات کو ہی میانی صاحب چل دیے... ایک صحافی دوست بھی ساتھ تھے...سوچا کیوں نہ پہلے شہید ناموس رسالتﷺ جناب غازی علم دین شہید کے مزار پر حاضری دی جائے کہ میرٹ یہی ہے... قبر پر حاضری دی.. . فاتحہ خوانی کی اور اللہ کریم سے غازی صاحب ایسا عشق رسولﷺ مانگا....لیکن یہ تو بڑے نصیب کی بات ہے... . چاہے تو ترکھان کے بیٹے کو شہید ناموس رسالتﷺ کا اعزاز بخش دے ....چاہے تو سکھ خاندان کو قرآن کے لئے منتخب کر لے اور پھر ان کے ایک نوجوان کو شیخ التفسیر بناکر اس کی قبر کی مٹی سے خوشبو جاری کر دے......بلاشبہ للہ تعالی کی سلیکشن بھی اعلی ہے... 19سالہ غازی علم دین نے گستاخ رسول راجپال کو جہنم واصل کیا تو علامہ اقبال رح کی درخواست پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے علم دین کا مقدمہ لڑا... قائداعظمؒ اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے... ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے کہا ”مسلمانوں کیلئے حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے...
غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی.. . علامہ اقبالؒ نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبالؒ نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا ”ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے...غازی صاحب کو خراج عقیدت پیش کرکے ہم سڑک کی دوسری طرف احاطہ مولانا احمد علی لاہوریؒ پہنچے ..... شیخ التفسیر کے ساتھ ساتھ .....شیخ الحدیث مولانا موسی خان روحانی بازیؒ....مولانا عبیداللہ انورؒ اور دوسرے اللہ والوں کیلئے فاتحہ خوانی کی اور دعا کہ اے اللہ کریم ہمیں بھی قرآن سے حضرت لاہوری ایسی محبت عطا فرمادے........
مولانا احمد علی لاہوریؒ کے بھی کیا کہنے..... زندگی قرآن کے نام کر دی اور اللہ کی کتاب پڑھتے پڑھاتے ہی اللہ کے حضور پیش ہوگئے...فرمایا کرتے کہ میرا ایک پاؤں ٹرین کے پائیدان اور دوسرا پلیٹ فارم پر ہو اور مجھے کوئی کہے کہ قرآن کا خلاصہ بتاتے جائیے تو میں کہہ دوں گا کہ اللہ کو عبادت......نبی کریم ﷺ کو اطاعت... ....صحابہ کرامؓ کو محبت اور لوگوں کو خدمت سے راضی کرو.....یہی قرآن کا خلاصہ ہے......قرآن کی خدمت کا ثمر دیکھئیے کہ دنیا سے گئے تو قبر جنت کی خوشبو سےمہک اٹھی.....معتبر شاعر سید سلمان گیلانی ہی لکھتے ہیں: امام بخاریؒ کے مرقد مبارک سے خوشبو کا واقعہ بہت مشہور ہے. .....
پاکستان میں اللہ والوں کی قبور سے خوشبو اٹھنے کا سب سے مشہور معاملہ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کا ہوا جس کے گواہ خال خال شاذ شاذ آج بھی موجود ہیں جن میں سے ایک میری والدہ ماجدہ اور آدھا میں خود ،یعنی سید سلمان گیلانی..... حضرت لاہوریؒ کے وصال پر میں گیارہ سال کا اچھابھلا ہوشمند بچہ تھا.....اسوقت ہماری گلی کے بابا حبیب اللہ مرحوم جو اس وقت اسی نوےسال کے سِن رسیدہ بزرگ تھے وہ یہ شہرت سن کر کہ حضرتؒ کی قبرسےخوشبو پُھوٹ پڑی ہے حق ا لیقین حاصل کرنے کے لیئے شیخوپورہ سے لاہور میانی صاحب پہنچے....مٹی سے خوشبو سونگھی اورتھوڑی سی خاک لحد ایک کاغذ میں لپیٹ کر جیب میں ڈال کرشیخوپورہ بس سے اتر کرسیدھا ہماری دکان مکتبہ احباب پر پہنچے اور جب دکان سے ابھی دورہی تھے کہ ایک عجیب سی خوشبو جو قبل ازیں کبھی نہیں سونگھی تھی محسوس ہوئی.... بابا حبیب اللہ جوں جوں قریب آتے گئے خوشبو تیز ہوتی گئی.
جب دکان میں ہانپتے کانپتے داخل ہوئے تو سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے زبان نہیں تھکتی تھی... . والد صاحب نے پانی کا گلاس پیش کیا ....بابا نے سنت کے مطابق بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں پی کرالحمد للہ کہا اوربولے شاہ صاحب آپ کو علم ہے میں ذرا وہابی خیال کا ہوں..... سُنی سنائی کرامات کاقائل نہیں ہوں اس لئے آج میں خود میانی صاحب گیا اور وہاں سےحضرت لاہوریؒ کی قبر کی مٹی لایا ہوں جس سے واقعی جنت کی خوشبو آرہی ہے اورساتھ ہی یہ اخبار کا صفحہ ہے جس پر یہ خبر درج ہے کہ حضرت احمد علی لاہوریؒ کے مرقد کی خاک کا اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کی میڈیکل لیبارٹری میں کیمیکل ایگزامن کیاگیا مگر اس میں کسی دنیاوی خوشبوکی آمیزش نہیں پائی گئی... بابا جی نے اس خاک میں سے ابا جی کو بھی حصہ عطا کیا .. . .
والد صاحب خود حضرت لاہوریؒ کے مرید تھے کافی دن تک میری امی جی کے صندوق میں وہ پُڑیا رکھی رہی اور اس جنت کی خوشبو سے سارا گھر مہکتا رہا.اُدھر حضرتؒ کی لحد مبارک کی بےحُرمتی شروع ہو گئی.... یارلوگوں نے خاکِ لحد اٹھا کے لے جانا مشغلہ بنا لیا باہر سے مٹی لا لا کر قبر پر ڈالنا پڑتی. آخر حضرتؒ کے خلفاء نے مل کر دعا کی یا اللہ تیری شان کا،تیری قدرت کا مشاہدہ ہو چکا اب اس امر کا مظاہرہ ختم فرما دے.....آہستہ آہستہ وہ خوشبوجاتی رہی جب قبر مبارک سے چلی گئی توگھر ٹرنک میں رکھی پُڑیا سے بھی غائب ہو گئی.....شیخ الحدیث مولانا موسی خان روحانی بازیؒ جب حضرت لاہوریؒ والے احاطہ میں مدفون ہوئے تو ان کی قبر سے بھی ایسی ہی خوشبو پھوٹی ....سید سلمان گیلانی بتاتے ہیں:میں آفس سے چھٹی کےبعد اپنے محکمہ کی بس میں سوار گھر جا رہا تھا ...... جب بس میانی صاحب سے گزری.... سڑک پر بے انتہا رش تھا ....سوچا کسی بڑے عالم کا جنازہ لگتا ہے.... اکثر علماء حضرت لاہوریؒ کے احاطہ کے باہر نظر آئے.... گھر پہنچ کر معلوم ہوا مولانا موسی خان روحانی بازیؒ اس دنیا میں نہیں رہے. ....
حضرت لاہوریؒ کے احاطہ میں ایک میت کی تدفین کی جگہ موجود تھی جو بقول جناب اجمل قادری اپنے لیے رکھی تھی مگر حضرت موسی خانؒ نے فرمائش کی مجھے حضرت لاہوریؒ کی ہمسائیگی بہت عزیز ہے...... اجازت ہو تو یہ جگہ مجھے مرحمت کر دیجے....حضرت روحانی بازیؒ میاں صاحب کے استاد رہے ہیں اس لئے انہوں نے ایثار کیا اور انہیں تدفین کی اجازت بلا چوں و چراں عطا کردی.....اب جگہ کم تھی اس لیے قبر کی کھدائی کے لئیے احاطہ کی بیرونی دیوار گرانا پڑی اور حضرت کی تدفین آسانی سے ہوگئی....اگلے روزجب دیوار دوبارہ اٹھانے کے لئیے مستری نے مٹی کھودی تو قبر میں تھوڑا سا سوراخ ہو گیا جس کے اندر سے عجیب خوشبو پھوٹ رہی تھی جس کی وجہ سے چند ہی منٹوں میں ارد گرد کا تمام علاقہ معطر و معنبر ہو گیااور سارے لاہور میں اس کا شہرہ ہو گیا... لوگ جوق در جوق میانی صاحب کا رخ کرنے لگے اور خاکِ لحد لفافوں ، شاپروں، بوتلوں میں بھر بھرکے لے جانے لگے. ....
جامعہ اشرفیہ کی انتظامیہ حرکت میں آئی اور ڈنڈا بردار پہریدار رات دن پہرہ پر لگا دئیے.....میراچھوٹا بھائی حسان گیلانی میرے پاس آیا... کہنے لگا بھائی جان آئیں قبر پر چلیں میں گیا تھا مگر ڈنڈا برداروں نے قریب نہیں جانے دیا دور سے ہی فاتحہ پڑھ کے آیا ہوں......میں نے دیکھا وہ حضرت کے شاگردوں یا جامعہ کے اساتذہ کو قریب جانے دیتے ہیں اور تھوڑی سی خاک بھی اٹھانے کی اجازت دیتے ہیں....آپ کو تو سب جانتے ہونگے اس لئیے آپ میرے ساتھ چلیں. .....والد صاحب نےکہا جاو بھئی اور تھوڑی سی خاک لحد لے بھی آنا...سو ہم چلے گئے اور واقعی وہاں پہریدار تھے انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور عین لحد کے ساتھ مکمل تشفی سے بیٹھنے کا موقع دیا ....خوشبو ایسی کہ بس کچھ نہ پوچھئیے۔۔۔ دنیاوی کسی خوشبو سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی تھی.... شیشی میں تھوڑی سی مٹی ڈالی اور ڈنڈابرداروں کا شکریہ ادا کر کے گھر واپس آئے.. ... حضرت والد صاحب مرحوم نے خاکِ لحد سُونگھی تو فرمایا ہُو بہُو وہی خوشبو ہے جو حضرت لاہوریؒ کے مرقد سے پُھوٹی تھی . ....
یہ تو شاہ جی تاثرات ہیں...سچی بات ہےمیانی صاحب میں غازی علم دین شہیدؒ کے مزار سے لیکر احاطہ مولانا احمد علی لاہوریؒ تک ایک خاص روحانیت ہم نے بھی محسوس کی....رات کے اس پہر بھی جب وہاں ہمارے علاوہ کوئی نہیں تھا لگ رہا تھا کہ ایک جگہ محفل قران تو دوسری طرف محفل نعت ہورہی ہے..... رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہورہا ہے .. . ...ہر طرف سکون ہی سکون.......وہی بھینی بھینی خوشبو.........لگ رہا تھا کہ جیسے ہمیں بھی کوئی موتی مل گیا ہو!!!!
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطعہ نظر ہے ،ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں