قربانی کی عید اور قربانی کے بکرے!
یہ آپا غلط کہہ رہی ہے،میں تو مصطفےٰ ٹاؤن کی پارکوں اور گھروں کے پودے کھا کھا کر پلا ہوا ہوں اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے مجھے دودھ پلا کر پالا ہوا ہے۔یہ حیرت انگیز انکشاف اس سفید بکرے نے کیا تھا جس کی خریداری کے لیے برخوردار عاصم چودھری سودے بازی کر رہا تھا،بکرا ایک خاتون لے کر بیچنے کے لیے پھر رہی تھی اور گلی کا گارڈ اسے لے کر آیا تھا۔ یہ خاتون مصطفےٰ ٹاؤن کی ملحقہ وارث کالونی کی تھی، بکرا معقول نظر آیا جب عاصم نے قیمت پوچھی تو خاتون نے55ہزار روپے بتائے اور ساتھ ہی تعریفوں کے پل باندھ دیئے کہ اس نے یہ بکرا خود پالا ہوا ہے۔ یہی وہ وقت تھا جب بکرے نے ”میں میں“ کرتے راز فاش کر دیا، ہم سب کو بھی معلوم ہے کہ اس مصطفےٰ ٹاؤن کالونی کی ابتر حالت منسلک آبادیوں اور ایل ڈی اے کی زمین پر قابض جھگی نشینوں کی وجہ سے ہے جو بکرے اور گائے پالتے اور سال بھر مصطفےٰ ٹاؤن کی گلیوں، پارکوں، گرین بیلٹ اور گھروں کے سبزے کا چارہ کھلاتے ہیں، منع کرنے پر باقاعدہ جھگڑا کرتے ہیں۔علاقے والوں کی شکایات کا اب تک کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔یہ بکرا بھی انہی میں سے ایک تھا اور خاتون اس کے55ہزار روپے مانگ رہی تھی کہ اس نے اپنے بچوں کی طرح پالا ہے، بکرے کو ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھا گیا تو اندازہ ہوا کہ تندرست ہے اور 14 کلو کے قریب گوشت نکلے گا، عاصم اور گارڈ نے خاتون بیوپاری کو سب بتلا دیا اور سودے سازی کی بات45ہزار روپے پر آ کر رک گئی اور اتنے میں سودا ہو گیا اب یہ بکرا آج (عیدالاضحی، پہلا دن) قصاب کی چھری تلے اللہ کی راہ میں قربان ہو جائے گا۔
یہ بات قارئین کو یہ بتانے کے لیے تو تحریر نہیں کی کہ ہمارے گھر میں بھی قربانی ہو گی بلکہ یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ہم مصطفےٰ ٹاؤن والے جو چند سال قبل ایک اچھی کالونی کے رہائشی تھے اب ہماری کیا حالت ہے،اس خاتون جیسے اور بہت سے لوگ ہیں جو یہاں سالہا سال جانوروں کے ریوڑ لے کر پوری کالونی میں گھوم پھر کر ان کی پرورش کرتے اور پھر سال گذر جانے پر فروخت کے لیے کالونی ہی میں گھومتے نظر آتے ہیں،ان کے ساتھ دو گوالے بھی ہیں جو عرصہ سے اپنی بھینسوں کے ریوڑ لئے مصطفےٰ ٹاؤن کی مرکزی گرین بیلٹ کو چراہ گاہ کے طو پر استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں اور دودھ فروخت کر کے مالدار ہوتے جاتے ہیں،ساتھ ہی ریوڑ میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے،ان مویشیوں کی وجہ سے یہ گرین بیلٹ اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام ہے اب تک کوئی شکایت بھی کام نہیں آ سکی، خود پی ایچ اے کے باغبان حضرات کے مطابق وہ اپنے محکمے کے اعلیٰ حکام سے شکایت کرتے رہتے ہیں کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
انہی دِنوں کی ایک اور واردات سے قارئین کو آگاہ کرتے ہیں، عیدالاضحی کے قریب آتے ہی ضلعی انتظامیہ نے لاہور میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ144 کے تحت یہ پابندی عائد کر دی کہ قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت صرف انہی مقامات پر ہو گی جو مویشی منڈی کے لیے متعین کر دیئے گئے ہیں،ایسی منڈیوں کی کل تعداد 11 ہے جو شہر کے ہر حصے میں بنائی گئیں، شہر میں کسی دوسری جگہ جانور لا کر بیچنے کی ممانعت تھی، ہر سال کی طرح اس بار بھی کسی نے پرواہ نہ کی۔ جہاں تک ہمارے علاقے وحدت روڈ اور مصطفےٰ ٹاؤن کا ذکر ہے تو یہاں سڑکوں کے کناروں پر قربانی کے جانور فروخت کیے جا رہے تھے۔ ان میں گائے اور بیل بھی تھے، بکروں کی تعداد اس بار زیادہ تھی،آبادیوں والے پریشان تھے کہ کیا کریں، امکانی طور پر کسی نے شکایت کی تو ایک روز مصطفےٰ ٹاؤن کی پولیس حرکت میں آ گئی اور جانوروں کو فروخت کے لیے لے کر آنے والوں کو پکڑ کر تھانے لے گئے،اس کے بعد ایک نیا سلسلہ شرع ہو گیا اگرچہ دفعہ144 کی خلاف ورزی قابل ضمانت جرم ہے، تھانے کے انچارج ایس ایچ او کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ملزم کو ضمانت پر رہا کر دے، عموماً ایسا نہیں ہوتا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج ہو تو ان کو عدالت ہی سے ضمانت کروانا پڑتی ہے لیکن یہاں توکھلی کچہری کا ماحول بن گیا اور زیر حراست بیوپاریوں کی سفارشات پہنچنا شروع ہو گئیں جس کے بعد ”جرمانہ“ وصول کر کے رہائی شروع ہو گئی ہے یہ جرمانہ پنچائتی اور روایتی تھا اس سے سرکاری ا ہلکاروں کی بھی عید بنتی گئی، شام تک کوئی ملزم اندر نہ رہا سب باہر آ گئے اس کے بعد کسی نے ان بکرا (گائے) فروشوں کو نہیں پوچھا اور وہ چاند رات تک سڑکوں پر ہی جانور فروخت کرنے میں لگے رہے۔
اب ذرا بات کر لی جائے مویشیوں میں لمپی سکن کے مرض کی جو گایوں میں زیادہ پھیلا ہے،انتظامیہ کے اعلان کے مطابق ہر منڈی میں شعبہ صحت کے عملے کو متعین کیا گیا ہے جو مرض کی جانچ پڑتال کرتا ہے لیکن یہاں بھی روایتی عمل ہے اکثر منڈیوں میں عملہ غیر حاصر اور جہاں ہے وہاں مکمل جانچ نہیں ہو رہی،چنانچہ گزشتہ روز سگیاں پل منڈی سے ایک صاحب چار لاکھ روپے میں گائے خرید کر لائے، بیوپاری نے حلف لے کر صحت مندی کی ضمانت دی۔ یہ صاحب جب گائے لے کر گھر آئے تو ہمسایوں نے قربانی والی گائے دیکھنے اور مبارک دینے کے لیے اسے ہاتھ پھیر کر دیکھا اچانک انہوں نے گائے کی گردن پر لمپی سکن مرض کے دانوں کی نشاندی کر دی، خریدار فکر مند ہو گئے کہ قربانی کے لیے مکمل صحت مند جانور کی شرط ہے،وہ گائے واپس لے گئے تو بیوپاری نے واپس لینے سے انکار کر دیا، طویل تکرار کے نتیجے میں 40ہزار روپے کٹوتی کے بعد تین لاکھ60ہزار روپے واپس کئے گئے،ایسے امراض والے مویشی بھی بک ہی رہے ہیں اور عملہ صحت کی غفلت کے باعث جھگڑے بھی ہوئے ہیں۔ لمپی سکن کی اس بیماری کے باعث اس بار بکروں کی فروخت زیادہ ہوئی ہے، سیانے لوگوں نے گائے اور بیل دیکھ بھال کر خریدے ہیں تاہم بھول کا امکان ہے،اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
اب ذرا لاہور کی صفائی کمپنی کی بات ہو جائے،لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے بڑے دعوے اور اعلان کئے ہیں،لوگوں کو غلاظت پھینکنے سے روکنے کی بات کی ہے، بڑے شاپر بانٹنے کا اعلان بھی کیا گیا لیکن عملدرآمد کے حوالے سے پرانی روش برقرار ہے،جانور گھروں کے باہر باندھے گئے،علاقوں،پارکوں میں سیر کرائی جا رہی ہے۔ صفائی کمپنی والے پرانی روش کے مطابق کھلے اور بڑے علاقوں میں کام کر رہے ہیں،علاقائی بازار اور محلے حسب ِ سابق نظر انداز کیے گئے ہیں اور احساس ہوتا ہے کہ عید کے تینوں روز بھی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔
احوال واقعی عرض کر دیا اب اس گزارش کے ساتھ عید کی مبارک پیش کرتا ہوں اور اجازت چاہتا ہوں کہ قربانی کرنے والے دین دار رسول اکرمؐ کی ہدایات پر عمل پیرا ہوں گے اور اپنے غریب رشتہ داروں اور علاقے کے مستحق حضرات کو نظر انداز نہیں کریں گے کہ صاحب حیثیت حضرات کمزور مالی حالت والوں کا دھیان رکھیں گے۔