سنت ِ ابراہیمی ؑاور فلسفہ ئ  قربانی

سنت ِ ابراہیمی ؑاور فلسفہ ئ  قربانی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آج وطن ِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کروڑوں فرزندانِ اسلام عیدالاضحی منا رہے ہیں۔ آج کے دن مسلمان سنت ِ ابراہیمی ؑ کی عظیم یاد کو تازہ کرتے ہیں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کے حکم پر اپنی سب سے قیمتی متاع حضرت اسماعیل ؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا تھا،اُسی طرح یہ دن تمام مسلمانوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے اندر قربانی کا وہی جذبہ پیدا کریں جو روحِ ابراہیمی ؑ کے عین مطابق ہو، اپنے رب سے وفاداری،محبت،ایثار اور قربانی کا وہی عہد نبھائیں جو معراجِ ابراہیمی ؑ ہے۔اس دن قربانی کے لیے ہم جس طرح بے عیب جانور تلاش کرتے ہیں، پھرجس طرح اپنے پاس  رکھ کر اُس کی خدمت کرتے ہیں اور اس ارادے کے ساتھ اُسے  آج کے دن اللہ کی راہ پر قربان کرتے ہیں کہ یہ جانور تو ایک علامت ہے ہم اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں،اسی طرح ہمیں آج عیدالاضحی کے دن اپنی اَنا، غرور، تکبر، نفرت، غصے،کینہ پروری اور بغض و عناد کو بھی قربان کر دینا چاہیے یہی اس فلسفہ ئ  قربانی کا اصل درس ہے۔اللہ کے نزدیک وہ انسان بہت رتبے اور عظمت والا ہے جودوسروں کے لیے اچھا سوچتا ہے۔اس بار خطبہ ئ حج میں بھی ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم عیسیٰ نے یہی کہا ہے کہ سب سے احسن عمل دوسروں کے لیے قربانی دینا ہے۔ایثار و محبت ایسے جذبے ہیں جو سنت ِ ابراہیمی ؑ کی روح ہیں جہاں تک آج کے دن جانوروں کی قربانی کا تعلق ہے تو اسلام میں اس کی حد درجہ فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے۔ سنت ِ ابراہیمی ؑ  کی اتباع میں یہ فریضہ ہر صاحب ِ نصاب مسلمان پر فرض کر دیا گیا ہے۔ اس بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے ”جو شخص استطاعت رکھتا ہو، یعنی صاحب ِ نصاب ہونے کے باوجود قربانی نہیں کرتا، وہ ہماری عید گاہ نہ آئے“ (ترمذی،ابن ِ ماجہ)۔ حضرت ابراہیم ؑ کو خواب میں حکم ہوا تھا کہ آپ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کر دیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے اس خواب کا ذکر بیٹے سے کیا تو صابر و شاکر بیٹے نے کہا ابا جان آپ کو جو حکم ہوا ہے اُس پر عمل کریں،مجھے آپ انشاء اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔جب حضرت ابراہیم ؑ حضرت اسماعیل ؑ کو پیشانی کے  بل لٹا کر ذبح کرنے والے تھے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے آواز آئی اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، پھر اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا حضرت اسماعیل ؑ کی بجائے قربانی کے لیے بھیجا،جسے انہوں نے ذبح کیا یہ ہے اس عظیم قربانی کا پس منظر،جسے مسلمانانِ اسلام جذبہ و شوق سے پورا کرتے ہیں۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا تھا کہ رہتی دنیا تک اسے عالم ِ اسلام میں ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض کر دیا گیا۔ عیدالاضحی کا پیغام ایثار و قربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم واقعہ کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو یہ درس دیا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنی قیمتی سے قیمتی شے بھی قربان کر دو، یہ درحقیقت ایک علامتی عمل ہے، اس کے ذریعے مسلمانوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ دنیاوی لالچ، خواہشات اور ترغیبات کی وجہ سے اگر تم اپنے رب کو بھول جاتے ہو تو یہ تمہاری سب سے بڑی غفلت ہے جس طرح ہم سنت ِ ابراہیمی ؑ پر عمل کر کے اپنے مال کی قربانی دیتے ہیں، اسی طرح ہمیں اپنی نفسیاتی خواہشات کی بھی قربانی دینی چاہیے۔آج اگر ہم دیکھیں تو ہمیں ہر قسم کی برائی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،بغض و عناد نے ہمیں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے،ایک ہی اُمت کے امین ہونے کے باوجود فرقہ بندیاں ہیں کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں، والی صورت حال ہے۔ پاکستان کے اندر اتحادِ امت و اتحادِ وطنیت کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، ہر طرف نفسا نفسی ہے۔ کوئی اپنی اَنا، خود غرضی، طمع اور مفاد کی قربانی دینے کو تیار نہیں،اتحاد و اتفاق کو قصہ ئ پارینہ بنا دیا گیا ہے۔ذات برادری، غربت و امارات، رنگ و نسل اور علاقائی حد بندیوں کے ہم نے اتنے زیادہ بت بنا لیے ہیں جنہوں نے ہم سے اخوت ویگانگت اور مسلمانوں کے درمیان رہنے والا بھائی چارہ چھین لیا ہے۔یہ درست ہے کہ قربانی کا خون زمین پرگرنے سے پہلے اللہ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہوتا ہے،جانور قربان کرنے سے سنت ِ ابراہیمی ؑ  کا عمل تو ادا ہو جاتا ہے مگر سنت ِ ابراہیمی ؑ  سے تسکین صرف اُسی وقت مل سکتی ہے جب ہم اپنے عمل سے یہ ثابت کریں کہ ہمارے اندر جذبہ ئ ایثار و قربانی موجود ہے۔اس بار عیدالاضحی ایسے حالات میں آئی ہے جب ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔اس بار قربانی کے جانور بھی اتنے مہنگے ہیں کہ جو عام حالات میں یہ فریضہ انجام دے لیتے تھے اب صاحب ِ استطاعت نہیں رہے۔اس بار جو خوش قسمت مسلمان قربانی کر رہے ہیں انہیں اپنے اردگرد پر نظر رکھنی چاہیے، جس طرح قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر کے بانٹنے کا حکم دیا گیا ہے،اُس پر عمل کرنا چاہیے تاکہ وہ لوگ بھی عید کی خوشیوں میں کسی حد تک شریک ہو سکیں جو غربت و افلاس کی وجہ سے قربانی نہیں کر پائے۔عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی جہاں ایک عظیم اور بے مثال سنت کی اتباع ہے وہاں اس  امر کی تجدید وفا بھی ہے کہ اللہ نے جو احکامات دیئے ہیں، چاہے وہ عباداتی اعمال کے ضمن میں ہیں یا معاشرتی افعال کے حوالے سے،اُن پر عمل کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔فلسفہ ئ  قربانی درحقیقت اس وعدے کی تکمیل کا نام ہے کہ مسلمانوں کا ہر عمل، اُن کا اٹھنا بیٹھنا، جینا مرنا، انفرادی واجتماعی عمل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اور اُس کے حکم کے تابع ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں آج کے دن روحِ ابراہیمی ؑکے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی توفیق دے اور پاکستانی معاشرے کو اخوت و یگانگت اور ایثار  و محبت کی آماج گاہ بنا دے۔ ادارہ روزنامہ ”پاکستان“ کی جانب سے تمام اہل ِ وطن کو عیدالاضحی کی دِلی عید مبارک۔

مزید :

رائے -اداریہ -