فَصَلِّ لِرَبّکَ وَانْحَرْ، قربانی کرنے کا فائدہ!
پسروری
قربانی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سید ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے ایک بچے کی دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کی (80 سال) عمر میں لختِ جگر کی خوشخبری سنائی۔ جب بیٹا کچھ کرنے کے قابل ہوا، تب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ”اے ابراہیم اپنے بیٹے کو ذبح کرو“۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے اکلوتے لختِ جگر و نور چشم کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گئے، اور سعادت مند بیٹا بھی (سیدنا اسماعیل علیہ السلام) ذبح ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ اللہ رب العزت کو باپ بیٹے کی یہ بے مثال اطاعت و فرمانبرداری بہت پسند آئی۔ باپ بیٹے کی قربانی دیکھ کر مالک کائنات نے بیٹے کے عوض جنت سے مینڈھا بھیج دیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اس کو ذبح فرمایا، اور آنے والی تمام نوع انسان کو یہ حکم فرما دیا کہ تم بھی اس سنت کو اجاگر کرتے رہنا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمٰعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: ”اللہ کے رسول یہ قربانی کیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنۃ ابیکم ابراہیم“ (یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے) صحابہ عرض کرتے ہیں، اے اللہ کے رسول پھر ہمارے لئے اس میں کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے جانور کے ہر بال کے بدلے نیکیاں ہیں۔
قارئین کرام! ہمارے اندر ایک بہت بڑی کمزوری پائی جاتی ہے۔ دیکھنے میں تو کچھ نہیں، لیکن حقیقت میں وہ بہت بڑی کمزوری ہے۔ جس کی طرف ہم توجہ ہی نہیں کرتے۔ وہ یہ ہے کہ جب ہم قربانی کا جانور خریدتے ہیں، اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ پس جیسے منڈی والوں نے کہہ دیا، ہم نے مان لیا، اور اس کو خرید کر گھر لے آتے ہیں۔ جانور خریدتے وقت اس کی آنکھ، اس کی کمزوری کو، اس کے کان کو، اس کے سینگ کو، اس کے دانتوں کو خوب اچھی طرح دیکھنا چاہئے۔ خاص طور پر اس کے کان کو بار بار بڑی توجہ کے ساتھ دیکھیں۔ کیونکہ اگر اس کے کان میں ایک سوئی کے برابر بھی سوراخ ہے، تو وہ قربانی کے لئے جائز نہیں، نہ ہی اس کو قربانی کرنے کا ثواب ملتا ہے، کیونکہ وہ عیب دار ہے، جو جانور عیب دار ہے اس کی قربانی نہیں ہوتی۔
مندرجہ ذیل جانور قربانی کے لئے ممنوع ہیں:
-1 کانا جانور: جس کا کانا پن ظاہر ہو۔
-2 بیمار جانور: جس کی بیماری واضح ہو۔
-3 لنگڑا جانور: جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔
-4 بوڑھا جانور: جس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو۔
-5 جس کے کان آگے کی جانب کٹ کر گر گئے ہوں۔
-6 جس کے کان پیچھے کی جانب کٹ کر گر گئے ہوں۔
-7 جس جانور کے کان لمبائی میں کٹے ہوں۔
-8 وہ جانور جس کے کان عرض میں کٹے ہوں۔
-9 وہ جانور جو مسنہ (دوندہ) کے علاوہ ہو، یعنی کھیرا وغیرہ۔
ان تمام علامات کی وضاحت مندرجہ ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔
سیدنا برأبن عازب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں، کانا جانور، جس کا کانا پن ظاہر ہو، بیمار، جس کی بیماری واضح ہو، لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، ایسا بوڑھا، جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی)
ایک اور حدیث ہے، ”سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (قربانی والے جانور کی) آنکھوں اور کانوں کی اچھی طرح پڑتال کر لیا کریں، اور وہ جانور ذبح نہ کریں جو کانا ہو، جس کے کان آگے سے یا پیچھے سے کٹ کر لٹک گئے ہوں، یا جس کے کان لمبائی میں یا عرض میں کٹے ہوئے ہوں (ترمذی، ابن ماجہ)
سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو دانت والے (دوندا) جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو، البتہ اگر مشکل پیش آئے تو پھر دوندا سے کم عمر کا دنبہ بھی کر لو۔ (مسلم)
قارئین کرام! اب ہمارے لئے گنجائش نہیں کہ ہم دوندا کے علاوہ جانور ذبح کریں۔ ہمارے پاس بہت وقت ہے، ہر ہر جگہ پر منڈیا لگتی ہیں۔ ہم دوندا جانور تلاش کریں۔
سیدنا ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تم لوگ قربانی کس طرح کرتے تھے۔ امام بہیقی رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن ہشام سے روایت بیان کی ہے۔ انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام گھر والوں کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کرتے تھے۔ (السنن کبریٰ)
مذکورہ بالا روایات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آدمی اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری یا مینڈھے کا ذبح کرنا کفایت کر جاتا ہے۔
زیادہ ثواب حاصل کرنے کی غرض سے ایک سے زیادہ قربانیاں کی جا سکتی ہیں، بلکہ ایسا کرنا بھی افضل ہے۔
گائے کی قربانی میں سات آدمیوں کی شرکت ہوتی ہے۔
اونٹ کی قربانی میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں، حدیث رسول ملاحظہ ہو: سیدناجابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے۔ عیدالاضحیٰ کا دن آ گیا، ہم گائے کی قربانی میں سات اور اونٹ کی قربانی میں دس اشخاص ہوئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: جب تم کسی جانور کو ذبح کرو تو اپنی چھری کو تیز کر لیا کرو، اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچاؤ، امام نووی رحمہ اللہ نے ذبیحہ کو آرام پہنچانے کا مقصد یہ بیان کیا ہے، ایک تو چھری کو تیز کرنا ہے اور دوسرا جلدی سے ذبح کرنا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ذبح کرنے سے بیشتر چھری کو تیز کرنے کا اہتمام کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرماتے: اے عائشہؓ! چھری کو پتھر کے ساتھ تیز کر کے لاؤ، جب وہ تیز کر کے لاتیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مینڈھے کو ذبح فرماتے۔
ذبح کرنے میں ہمارے اندر ایک بڑی کمزوری پائی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ بعض نادانوں کو تکبیر نہیں آتی، وہ بغیر تکبیر کہے ذبح کر دیتے ہیں۔ جیسے یہ گوشت بیچنے والے کرتے ہیں۔ ان بیچاروں کو تکبیر آتی ہی نہیں۔ نہ ہی ہم اس کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
ذبح کرتے وقت جانور کا رخ قبلہ کی طرف ہو، اور بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر تیزی سے چھری چلائیں۔ بسم اللہ واللہ اکبر کے ساتھ اللھم تقبل من فلاں فلاں یعنی تمام افراد کا نام لینا بھی جائز ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانور میں سے کوئی چیز بطور اجرت قصاب کو دینے سے منع فرمایا ہے، سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے اونٹوں کو ذبح کرنے اور ان کے گوشت تقسیم کرنے کی نگرانی اور قصاب کو ذبح کرنے کے عوض میں کچھ نہ دینے کا حکم دیا۔ (متفق علیہ)
تنبیہ: قصاب کو پوری اجرت دینے کے بعد اس کی غربت کے پیش نظر دیگر مسکینوں کی طرح قربانی کے جانور میں سے کچھ دیا جائے، تو کوئی حرج نہیں۔
نماز عید سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں ہے، جس نے ایسا کیا اس کو دوبارہ قربانی کرنا پڑے گی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، جس نے ہمارے ساتھ نماز ادا کی اور ہمارے قبلے کی طرف رخ کیا، وہ نماز عید سے پہلے قربانی نہ کرے۔ جس نے نماز عید سے قبل قربانی کی اس کے بدلے میں دوسری قربانی کرنی ہو گی اور جس نے نماز سے قبل قربانی نہیں کی، وہ بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے۔ (متفق علیہ)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو مینڈھے خریدتے، موٹے تازے، سینگ والے، چتکبرے اور خصی، ان میں سے ایک اپنی امت کے ہر اس آدمی کی طرف سے کرتے جو اللہ کی توحید اور رسول کی رسالت کی گواہی دیتا ہے، اور دوسرا مینڈھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کی طرف سے ذبح فرماتے۔ (ابن ماجہ)
امام احمد ابوداؤد اور ترمذی امام حاکم رحمہم اللہ نے حضرت حنش سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی۔ ایک مینڈھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک مینڈھا اپنی طرف سے ذبح کیا، اور فرمایا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں۔ (المسند)
امام الطیبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص میت کی طرف سے قربانی کرے گا تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (شرح الطیبی و مرقات المفاتیح)
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں، جس طرح میت کی طرف سے حج و صدقہ کرنا جائز ہے اسی طرح اس کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔ میت کی طرف سے قربانی گھر میں کی جائے گی اور اس کی قبر پر نہ تو قربانی کا جانور ذبح کرنا جائز ہے اور نہ ہی کوئی اور جانور ذبح کرنا جائز ہے۔ (مجموع الفتاویٰ)
بہت سے ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو قربانی نہیں کر پاتے۔ اگر پوچھا جائے کہ آپ نے قربانی کیوں نہیں کی، جواب یہ ملتا ہے کہ جناب میں غریب ہوں، میرے پاس رقم نہیں ہے، اگر اس کے گھر کو دیکھا جائے اس کے گھر کی بہت ڈیکوریشن ہے، گھر میں زیورات ہیں اور جانور (گائے، بھینس) وغیرہ بھی ہیں، پھر بھی کہتا ہے کہ میں غریب ہوں، یاد رکھیں جس کے پاس سونا، چاندی، زیورات وغیرہ اور جانور ہوں وہ کسی صورت میں بھی غریب نہیں ہے۔ یہ سب کچھ بخل کی وجہ سے کر رہا ہے۔ ایسے آدمی پر قربانی کرنا واجب ہے، نہ کرنے پر اس کے لئے بہت بڑی وعید ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”اے لوگو! ہر گھر والوں پر قربانی ہے“۔ (مسند)
استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والے لوگوں پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید ناراضی کا اظہار فرمایا، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں: جو آسودہ حال (طاقت) ہونے کے باوجود بھی قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے، اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ قربانی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ امام بخاری نے حضرت ابوامامہ بن سہل سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم مدینہ طیبہ میں اپنے قربانی کے جانوروں کی بہت دیکھ بھال کرتے تھے، اور دیگر مسلمان بھی اسی طرح انہیں پال کر موٹا کرتے تھے۔ (بخاری)