غفلت ہمیں کہاں لے جائے گی ؟
ایک بار پھر ہماری سیکیورٹی کے ڈھول کا پول کھل گیا۔ کراچی ہوائی اڈہ دہشت گردی کا نشانہ بنا، ایئر پورٹ سیکیورٹی کے جوانوں سمیت پی آئی اے کے ملازمین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ دہشت گردوں کو تو مرنا ہی تھا۔ تمام کے تمام جہنم رسید ہوئے۔ پی آئی اے کے جہازوں کو نقصان پہنچا، جہاز میں موجود مسافروں کو پوری رات شدید کرب میں گزارنا پڑی۔ انہیں پینے کا پانی تک نہیں مل سکا۔ ائر پورٹ جیسے اہم تریں مقام پر دہشت گردوں کا حملہ اس قدر تیز رفتار تھا کہ پہلے مرحلے پر ہی اے ایس ایف کے تین اہلکار مار دئے گئے تھے۔ جہازوں کو کھڑا کرنے والے ایک ہینگر میں کھڑے ایک جہاز کو بھسم کر دیا گیا۔ ائر پورٹ پر آنے اور جانے والی تمام پروازیں معطل کر دی گئی تھیں۔ کچھ پروازوں کو واپس کیا گیا اور بعض کو دوسرے شہروں کے ائر پورٹوں پر اتارا گیا۔ حیدرآباد ائر پورٹ تو اس قابل ہی نہیں تھا کہ کسی جہاز کے اترنے کا بندوبست ہو پاتا۔ نواب شاہ میں انتظامات ادھورے تھے۔ ائر پورٹس کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار ہی نہیں تھے۔
ہم لوگ عجیب غفلت کا شکار ہیں حالانکہ ہم ایسی ان دیکھی جنگ کا مسلسل شکار ہیں جس میں دہشت گردی کی جاتی ہے۔ دہشت گردوں کا ہدف ہمیں جسمانی نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ہماری اہم تنصیبات کو تباہ کرنا ہوتا ہے۔انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ نتائج کیا نکلیں گے اور خمیازہ کسے بھگتنا پڑے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ملک خود کئی سال سے دہشت گردی کا شکار ہے لیکن ملک کے معاملات چلانے والے اہم ترین ذمہ دار افراد ہر موقع پر ناکامی کی تصویر بن جاتے ہیں۔ کراچی ائر پورٹ پر دہشت گردی کے بعد ایک بار پھر لازمی ہو گیا ہے کہ حکومت اور وزارتِ داخلہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اپنے تمام اقدامات کا بھر پور جائزہ لے۔ ہمارے حکام کا مسلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی کارروائی کے بعد بیانات کے پردے میں منہ چھپالیتے ہیں اور کاغذی خانہ پری کی کاروائی کر کے دہشت گردی کے واقعہ کو داخل دفتر کر دیتے ہیں۔ کوئی اور ملک ہوتا تو شائد اس طرح کی غفلت سے ہمکنار نہیں ہوتا جس سے پاکستان دوچار ہے اور غفلت کے ذمہ دار لوگوں کو فارغ کر دیا جاتا ۔
ایک درجن دہشت گرد زمینی راستوں سے اتنی بڑی تعداد میں ہتھیاروں کے ساتھ کراچی میں داخل ہوئے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے راستے خالی تھے۔ کہیں کوئی نگرانی کرنے والا موجود نہیں تھا۔ اور جو لوگ ،یعنی پولیس کے جو چھوٹے اہل کار موجود بھی ہوتے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی کی طوالت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چند روپے کے عوض یہ لوگ ہاتھی بھی لے جانے دیتے ہیں۔ جب دہشت گرد کراچی میں داخل ہورہے تھے تو کراچی میں داخل ہونے والے مقامات پر بھی انہیں کسی نے روکا اور ٹوکا نہیں۔ ان مقامات پر رینجرز موجود ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ کراچی میں کل ہی داخل ہوئے ہوں۔ ان کی کراچی میں آمد اور موجودگی کی مخبری نہیں ہو سکی۔ وہ اس علاقے میں پہنچ گئے جو چھاﺅنی کا علاقہ ہے۔ یہ لوگ پیدل نہیں آئے ہوں گے۔ انہوں نے گاڑیاں حاصل کی ہوں گی۔ کسی گاڑی والے نے پولیس کو مطلع کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
دہشت گردوں نے ائر پورٹ تک رسائی حاصل کر لی۔ یہ لوگ خالی ہاتھ نہیں تھے یا کوئی ماچس کی ڈبیا ان کے پاس نہیں تھی، بلکہ ہتھیار وں کی بڑی بھاری کھیپ تھی جو کسی کو نظر نہیں آئی ۔ ان کے سامان کی کہیں کسی نے تلاشی نہیں لی۔ جگہ جگہ غفلت برتی گئی ۔ تمام دہشت گردوں کی بظاہر شناخت ایسی تھی کہ دوران سفر ہی ان سے کہیں کوئی پوچھ گچھ کر لیتا۔ پھر یہ لوگ ائر پورٹ جیسے حساس علاقے میں داخل ہوئے۔ کہیں تو کسی کی غفلت یا پھر کسی اور وجہ سے دہشت گرد ائر پورٹ میں داخل ہونے میں کامیاب رہے۔ یہ کہنا کہ وہ اے ایس ایف کی وردی میں ملبوس تھے، ایک ایسی بے تکی تاویل ہے جسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ کیا کوئی شخص اے ایس ایف ہو یا فوج ہو یا پولیس ہو یا رینجرز کی وردی پہن کر کسی بھی حساس علاقے میں داخل ہونے کی اگر صلاحیت رکھتا ہے تو پھر ان اداروں کو کوئی ایسی حکمت عملی وضع کرنا چاہئے ،تاکہ ہر وردی والے سے بھی شناخت تو معلوم کی جائے۔عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ائر پورٹس پر وردی پہنے ہوئے اے ایس ایف والوں کی جسمانی تلاشی لی جاتی ہے اور پھر انہیںرن وے پر جانے کی اجازت ملتی ہے۔ ان لوگوں کے بارے میں یہ چوک کہاں اور کیوں ہوئی؟
جب دہشت گرد اپنی کارروائیوں میں مصروف تھے تو پولیس کی مدد طلب کی گئی ، جواب ملا کہ تھانے پر پولیس موجود نہیں ہے۔ پولیس کمانڈو کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ نام نہاد اہم شخصیات کی پروٹوکول ڈیوٹی پر ہیں۔ جب وزیراعظم اور فوج کے سربراہ نے صورت حال کا نوٹس لیا تو گورنر سندھ ، وزیراعلیٰ سندھ، اور دیگر اہم شخصیات ائر پورٹ پہنچنا شروع ہو گئیں۔ کیا ایسے وقت میں جب ہنگامی صورت حال ہو ان افراد کو ائر پورٹ پر جانا چاہیے تھا ۔ یقین نہیں۔ہمارے ان حکمرانوں کو ہر جگہ پروٹوکول چاہئے ہوتا ہے جس کی وجہ سے کارروائیوں میں شدید مداخلت ہوتی ہے۔ کور کمانڈر، رینجرز کے سربراہ، پولیس کے سربراہ سب ہی ائر پورٹ پہنچ گئے۔ کیوں ؟ کیا یہ لوگ اپنے اپنے دفاتر سے دہشت گردی سے نمٹنے کی کاروائی کا جائزہ نہیں لے سکتے تھے۔ کیا ان حضرات کو اپنے ماتحت افسران کی صلاحیتوں پر شک تھا۔ کیا فوج سمیت کسی ادارے یعنی پولیس ، رینجرز کے پاس کوئی ایسا منصوبہ جسے فوجی کا نٹی جنسی پلان کہتے ہیں، موجود ہے کہ کسی صورت حال کو سامنا کس طرح کیا جائے گا۔
کراچی ائر پورٹ پر جو کچھ ہوا اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ کسی کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اس بات سے یہ بھی عیاں ہوگیا کہ وزارت داخلہ آج تک ایسے اصول اور ضابطے تیار نہیں کر سکی ہے، جو ایسی صورت حال کا سامنا کرنے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایک فورس کو کمانڈ کرنا ہوتا ہے۔ ایک ہی وقت میں ایمبولنس ، ڈاکٹر، مقابلے کرنے والے اہل کار، ہتھیار، رضاکاروں اور دیگر ضروری اشیاءکا انتظام کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے ذمہ داریاں تقسیم ہوتی ہیں۔ تمام لوگ ایک ہی کام میں نہیں جت جاتے ہیں۔ جب کوئی ضابطہ ہی نہیں ہوگا تو کسی کو بھی کیا علم کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اے ایس ایف ہو یا ائر پور ٹ پر موجود دیگر اہل کار انہیں اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکیں۔ وہ اس صلاحیت سے کیوں محروم پائے گئے۔ انہیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا اور دہشت گرد ادھر ادھر دندناتے پھرے۔
پاکستان میں دہشت گردی نہ تو نئی کارروائی ہے اور نہ ہی آخری۔ حکام کا یہ کہنا کہ دہشت گردوں سے جو ہتھیار بر آمد ہوئے ہیں وہ بھارتی ساخت کے ہیں ، اپنی ناکامی کا بر ملا اعتراف ہے۔ پاکستان میں کی جانے والی دہشت گردی میں بھارت سر فہرست ملوث ہے۔ بلوچستان میں جو بھی کاروائیاں ہو رہی ہیں اس کے پس پشت بھارت ہے۔ سندھ بلوچستان سرحد پر رینجرز کو جس صورت حال کا سامنا ہے وہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ بھارت پاکستان میں ایک ایسا خلفشار پیدا کردینا چاہتا ہے جسے سلجھانا کسی بھی حکومت کی قوت میں نہ رہے۔ ایسی صورت میں کیا ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھنا چاہئے یا پھر اپنے عوام، اپنے نوجوانوں کی تربیت کا انتظام کرناچاہئے۔ لوگوں کی ان کے ملک اور حالات سے لاتعلقی سب کے لئے ہی خود کشی ہے۔ اپنے اداروں اور ان میں موجود ملازمین کی کارکردگی کا باریکی سے جائزہ لینا چاہئے ، جن لوگوں سے اپنے فرائض ادا نہیں ہوپاتے انہیں فارغ کیا جانا چاہئے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزرائے داخلہ کی بھی تربیت کی جانی چاہئے کہ انہیں ملک کا اہم ترین محکمہ کس طرح چلانا ہے۔ ٭