پکڑنا اشتہاری ملزم کا او ر بھگتنا پیشی صدرِپاکستان کی!

پکڑنا اشتہاری ملزم کا او ر بھگتنا پیشی صدرِپاکستان کی!
پکڑنا اشتہاری ملزم کا او ر بھگتنا پیشی صدرِپاکستان کی!
کیپشن: M ALTAF QAMAR

  

یکم نومبر 1981ءکو میں نے سب ڈویژنل پولیس آفیسر مری کا چارج سنبھالا اور ایک سیزن سردیوں کا اور ایک سیزن گرمیوں کا سرکاری ڈیوٹی کے ساتھ ساتھ مری کی دلکشیوں اور رعنائیوں سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے بعد 16اگست 1982ءکو سب ڈویژنل پولیس آفیسر گوجرخاں کا چارج سنبھال لیا۔مری کی تعیناتی کے دوران معمول کے جرائم اور اعلیٰ شخصیات کی سیکورٹی اور پروٹوکول ڈیوٹی کے علاوہ کو ئی خاص قابل ذکر واقعہ رونما نہ ہوا۔گوجر خاں میں جرائم مری کی نسبت کہیں زیادہ تھے ۔میری تعیناتی کے دوران گوجر خاں میں پوری گہما گہمی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات بھی ہوئے، اندھے قتل بھی ہوئے، اغوا بھی ہوئے، چوریاں ڈکیتیاں بھی ہوئیں،پولیس کی حراست میں ملز م کی موت بھی واقع ہوئی ، جوڈیشل گارد سے بھی ملز م فرار ہوا، لیکن ان سب میں پولیس کے لئے کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا۔یہ سارے کیس ٹریس ہوئے اور ملزمان پکڑے گئے ۔معمول سے ہٹ کر ہونے والے دو واقعات البتہ قابل ذکر ہیں ۔

لکھنے لکھانے کا مجھے شروع سے ہی شوق تھا ۔ زمانہ طالب علمی سے ہی میرے لکھے ہوئے مضامین روزنامہ مشرق ، نوائے وقت ، ندائے ملت ،ہفت روزہ زندگی ، ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ اور گورنمنٹ کالج لاہور اورپنجاب یونیورسٹی کے مجلّوں میں شائع ہوتے رہتے تھے۔پولیس میں آنے کے بعد مجھے ایک نیا موضوع مل گیا ۔ اے ایس پی ٹریفک راولپنڈی کے وقت سے ہی جہاں کہیں میرے دائرہ کارسے متعلق کسی واقعہ کی کوئی خبرکسی اخبار میں غلط انداز میں رپورٹ ہو جاتی یا پولیس کے بارے میں کوئی شکایت شائع ہوتی تو میں اُس کا پورا پورا تعاقب کر تا اور خبر کی اصلیت معلوم کرکے اُس کی وضاحت جاری کرتا اور اگر شکایت غلط ہوتی تو اُس کا موثر جواب دیتا ۔ صحافی برادری سے میرے تعلقات شروع سے ہی بہت اچھے رہے ہیں ۔ وہ میری وضاحتیں نمایاں طورپر شائع کرتے ، بلکہ اکثر اوقات اصل خبر سے بھی زیادہ نمایاں۔ گوجر خاں میں روزنامہ نوائے وقت کا ایک رپورٹر وزیر محمد ہو ا کرتا تھا۔ وہ عموماً پولیس کے خلاف آدھی سچی آدھی جھوٹی اور سنی سنائی خبر یں لگاتا۔ میں نے ایک دو بار دوستی کے انداز میں اس سے کہا کہ خبر دینے سے پہلے اِس کی تصدیق کر لیا کرو، میںتم سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر بیٹھتا ہوں ، مجھ سے پوچھ لیا کرو ۔میںنے اُسے بتایا کہ چوریاں ، راہزنیاں ، قتل ہونے ہی ہوتے ہیں اور انہی کی روک تھا م اور سراغ برابری کے لئے پولیس کا محکمہ قائم ہے ۔ جرائم کی خبروں کے اخبار میں چھپنے سے ہماری نوکریوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو جاتا ، لیکن خبر درست توہونی چاہئے ۔ لیکن وہ اپنی ڈگر پر چلتا رہا ۔

 ایک موقع پر اُس نے پے در پے گوجر خاں کے گردونواح میں چوری اور راہزنی کی خبریں اخبار میں شائع کیں جبکہ ہمارے پاس اس قسم کی کسی واردات کی کوئی رپورٹ نہ تھی۔میں نے خفیہ ذرائع سے بھی پتہ کرایا تو ایسی کسی واردات کا ہونانہ پایا گیا ۔میں نے وزیر محمد کے خلاف سول کورٹ میں ازالہ ¿حیثیت ِعرفی کادعویٰ دائر کر دیا کہ اس رپورٹر کی جھوٹی خبروںکی اشاعت سے میری اور میرے محکمے کی عزت پر حرف آیا ہے اور لوگوں کی نظروں میں ہمار ا وقار مجروح ہواہے ۔لہٰذا رپورٹر کو طلب کر کے اُس سے ان خبروں کا ثبوت طلب کیا جائے اور اگر وہ پیش نہ کر سکے تو اُس سے ہر جانہ وصول کیا جائے۔عدالت نے رپورٹر کو طلبی کا نوٹس جاری کر دیا ۔ وہ رپورٹر سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یوں بھی ہوسکتا ہے ۔ پہلی بار کسی نے اُس کی طاقت کو چیلنج کیا تھا ۔وہ پریشان ہو گیا۔ اُس نے مصالحت کے لئے ادھر اُدھر سے کچھ معززین میری طرف بھیجے۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے تو اُس رپورٹرکو کچھ بھی نہیں کہا ۔ ڈرایا نہیں، دھمکایا نہیں ،کوئی پرچہ درج نہیں کیا، حالانکہ اگرکسی کی عزت اور شہر ت کوکھلے عام مجروح کیا جائے تو ایسا کرنے والے کے خلاف تھانہ میں ایف آئی آر درج ہوسکتی ہے اور میرے لئے یہ کرنا کچھ مشکل نہیں تھا، لیکن میں نے اس میں سے کچھ بھی نہیں کیا ۔میںنے تو معاملہ عدالت کے سپر د کر دیا ہے ۔ اگر اُس کی خبریں سچی ہیں تو عدالت میں ثابت کردے ، وہ لوگ پیش کر دے جن کے ساتھ یہ وارداتیں ہوئیں ۔عدالت کی تسلی ہوجائے گی۔ اور ہوسکتا ہے کہ جھوٹا دعویٰ دائر کرنے پر عدالت میرے خلاف کوئی حکم پاس کر دے ۔آپ عدالت کو فیصلہ کرنے دیں ۔

رپورٹر بہت ڈرا ہوا تھا ۔ اُسے پتہ تھا کہ وہ اپنی خبروں کو عدالت میں ثابت نہیں کر سکے گا۔ مقامی طورپر مصالحت کرنے میں ناکامی پر وہ اپنے اخبار نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر محمد طارق وارثی صاحب جو میری راولپنڈی تعیناتی کے دوران میرے بہت اچھے دوست بن گئے تھے کے پاس گیا ، رویا پیٹا اور اُنہیں مداخلت کرکے معاملے کو ختم کرنے کی درخواست کی ۔اورپھر ایک دن طارق وارثی صاحب راولپنڈی سے ایک دو مشترکہ دوستوں کے ساتھ میرے پاس گوجرخاں آئے ۔ دیر تک گپ شپ ہوتی رہی ۔ ہم سب نے اکٹھے کھانا کھایا ۔ چلتے ہوئے اُنہوں نے اس رپورٹر کی سفارش کی اور اُس کے خلا ف دائر دعویٰ واپس لینے کی درخواست کی ۔ میرا مقصد بھی رپورٹر کو کوئی سزادلوانا یااُس سے ہر جانہ وصول کرنا نہ تھا۔ میرا مقصد اخباری رپورٹروں کو صرف یہ احساس دلانا تھا کہ اگر وہ کسی واقعہ یا پولیس کی کسی کوتاہی کی درست رپورٹنگ کریں تو سر آنکھوں پر ۔ اس سے ہم محتاط رہتے ہیں اوراپنے کام میں سستی نہیں کرتے اور کوتاہی کی نشاندہی پراپنی اصلاح کرتے ہیں ۔ لیکن غلط خبر ، عزت اورامیج خراب کرنے والی خبر یا بلیک میلنگ ہر گز برداشت نہیں ہوگی ۔ میں نے طارق وارثی صاحب کے احترام میں اپنا دعویٰ واپس لے لیا ۔اس کے بعد پھر کسی رپورٹر کو پولیس کے بارے میں جھوٹی اور منفی خبر لگانے کی جر ات نہیں ہوئی ۔

 گوجر خاں تعیناتی کا دوسرا واقعہ مختلف نوعیت کا ہے ۔ہفتہ وار تعطیل کا دن تھا۔ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور میں اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھا بارش سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ مجھے فون پر کسی نامعلوم شخص نے خبر دی کہ فلاں شخص جو منشیات کی بیرون ملک سمگلنگ کے ایک کیس کا اشتہاری ملزم ہے اور جو بھاگ کر بر طانیہ چلا گیا تھا، آج کل گوجرخاں اپنے گھر آیا ہوا ہے ۔ اُس نے اُس کا پتہ بتا یا اور یہ بھی بتایا کہ اس وقت وہ اپنے گھر پر موجود ہے ۔ ایس ایچ او تھانہ گوجر خاں اُس دن رخصت پر تھا۔ میں نے ڈیوٹی پر موجودسب انسپکٹر کو فون کر کے اُسے فوراًاشتہاری ملزم کے گھر پر ریڈ کرنے اور اُسے گرفتا رکرنے کا حکم دیا ۔سب انسپکٹر کچھ ملازمین کو لے کر اُس کے گھر پہنچااور دروازہ کھٹکھٹایا ۔دروازہ کھلا۔سامنے گو جر خاں کے ایک جانے پہچانے ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ اور ضلع کونسل راولپنڈی کے ممبر قاضی عبدالقدوس کھڑے تھے۔ قاضی قدوس درشت طبیعت اورپولیس مخالف مشہور تھے ۔اُنہیں دروازے پرکھڑا دیکھ کر پولیس پارٹی ہکابکا رہ گئی ۔قاضی صاحب نے دروازے پر کھڑے کھڑے سختی سے پوچھا کیا بات ہے ؟ کدھر آئے ہیں ؟سب انسپکٹر نے پوچھا کہ یہ فلاں شخص کا گھر ہے؟ انہوں نے اثبا ت میں جواب دیا۔ سب انسپکٹر نے کہا کہ وہ ہمیںمطلوب ہے اوراُسے گرفتار کرنے آئے ہیں ۔ قاضی صاحب نے وہیں کھڑے کھڑے اُن سے تکرار شروع کردی کہ کون سے کیس میں گرفتار کرنے آئے ہیں ؟آپ کے پاس گرفتاری کا وارنٹ ہے ؟وغیرہ ۔

ابھی یہ تکرار جاری تھی کہ پولیس پارٹی کے ایک کانسٹیبل نے دیکھا کہ اُس گھر کی چھت سے ایک شخص ساتھ والے گھر کی چھت پر کودا ، پھر اُس سے اگلے گھر کی چھت پر اورپھروہاں سے گلی میں کود کر بھا گ نکلا ۔ کانسٹیبل نے اُس کا پیچھا کیا اور کچھ دور اُسے جا لیا ۔ یہی وہ مطلوب شخص تھا ۔ قاضی صاحب اسی کو ملنے اُس کے گھر آئے تھے ۔ پولیس ملز م کو تھانے لے گئی ۔ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی اور تصدیق ہوگئی کہ وہ دس بارہ سال پہلے ایک مقدمے میں اشتہاری ہوا اور انگلینڈ بھا گ گیا۔ کبھی کبھا ر چھپ کر پاکستان آتا تھا۔ لیکن اس بار جب آیا تو کسی مخالف نے مجھے فون کر کے اُسے پکڑوا دیا ۔قاضی قدوس جیسی علاقے کی مقتدر شخصیت کے سامنے اُس کامیزبان پکڑا جائے اُن کی سُبکی کے لئے بہت کافی تھا ۔ وہ اس کی تلافی کے لئے ملزم کے پیچھے پیچھے تھانے آگئے اور دھونس دھمکی کے ذریعے اُس کو چھڑا لے جانا چاہا ۔لیکن میں نے سب انسپکٹر کو حکم دے دیا تھا کہ اگر یہ درست مطلوب شخص ہے تو فورا ً اس کی گرفتاری ڈال کر اسے حوالات میں بند کر دیا جائے ۔ قاضی قدوس نے مجھے بھی فون کر کے ملزم کو چھوڑنے کی درخواست کی لیکن میں نے معذرت کر لی۔

قاضی قدوس کے لئے یہ بے عزتی اور صدمہ ناقابل برداشت تھا ۔ وہ صدر ضیا ءالحق کے اُس وقت کے وزیر اطلاعات و مذہبی امور کے پاس پہنچا اورسارے واقعہ کو منفی اندا ز میں پیش کیا، پولیس کی زیادتی کی دُہائی دی اورمیرے اور پولیس کے دیگر اہلکاران کے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کیا ۔وزیر صاحب نے بجائے ایس ایس پی یاڈی آئی جی سے بات کرنے کے قاضی قدوس کی ساری روداد اُنہی کے الفاظ میں صدر ضیاءالحق کے گوش گزار کردی۔صدر ضیاءالحق نے ایس ایس پی ، ڈی سی ، ڈی آئی جی اور کمشنر راولپنڈی کو دو دن کا وقفہ دے کر اس سارے واقعہ کی تفصیلات سمیت طلب کر لیا ۔جناب افضل علی شگری اُس وقت ڈی آئی جی اور جناب محمد افضل کہوٹ کمشنر راولپنڈی تھے۔ میں نے اُن دونوں افسران کو پورے واقعہ سے آگاہ کیا اورملزم کے خلاف درج ایف آئی آر، اُس کے دائمی وارنٹ گرفتاری ، اشتہاری ملزم ہونے کا مکمل ریکارڈ دکھا یا اور ساتھ ہی قاضی قدوس کے بارے میں بھی مکمل معلومات اور اس کیس کے سلسلے میں اُن کی دھونس دھمکیوں اور تھانے میں پولیس کو گالی گلوچ اور برا بھلا کہنے کی ساری تفصیلات سے آگاہ کیا ۔

ہر تھانہ کے ایس ایچ او کے پاس ایک خاص رجسٹر ہو تا ہے جو اُس کی ذاتی تحویل میں رہتا ہے اور وہ ٹرانسفر ہونے پرذاتی طور پر آنے والے ایس ایچ اوکے حوالے کر تا ہے ۔ اس رجسٹر میں ایس ایچ اواپنے تھانے کی ہر اہم بات درج کر تا ہے تاکہ آنے والے ایس ایچ اوکی رہنمائی ہو ۔ اس میں وہ تھانے کی حدود میں رہنے والے سیاسی ، مذہبی ، مزدور اور سماجی رہنماﺅں کے بارے میں اپنی ذاتی رائے لکھتا ہے ۔سماج دشمن عناصر اور جرائم پیشہ لوگوں اور اُن کے سرپرستوں کا ذکر کرتا ہے ، پولیس کے امدادی اور پولیس کے مخالفین کا ذکر کرتا ہے ، اہم اور حساس مقامات ، میلوں ٹھیلوں اور تہواروں کا ذکر کرتا ہے اور اپنے تھانے کے کانسٹیبل سے لے کر ایڈیشنل ایس ایچ اوتک ہر ایک کے بارے میں اُس کی شخصیت ، چال چلن اور کارکردگی پر اپنی رائے لکھتا ہے ۔اس رجسٹر کو جب کھولا گیا تو کسی سابقہ ایس ایچ او نے قاضی قدوس کے بارے میں لکھا ہوا تھا "سخت مخالف پولیس ہے ۔ پولیس کو ز چ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔ جس کام کے لئے تھانہ آئے اُسے ہُواہُوا مانگتا ہے "۔یہ رجسٹر بھی ڈی آئی جی صاحب کو پیش کر دیا گیا ۔ کمشنر اور ڈی آئی جی صاحب نے قاضی قدوس کوبھی بلایا اور تفصیل سے اُن کا موقف سنا۔

یہ بات سارے گوجر خاں کو معلوم ہوگئی کہ قاضی قدوس نے راولپنڈی پولیس اور انتظامیہ کے چاروں بڑوں کی صدر پاکستان کے سامنے پیشی کروا دی ہے ۔ جس دن ان افسران نے صدر جنرل ضیاءالحق کو اس واقعہ کے ضمن میں ملنا تھا، سارا گوجر خاں راولپنڈی کی طرف آنکھیں اور کان لگائے بیٹھا تھا ۔ گوجر خاںسب ڈویژن کے سارے پولیس افسران و اہلکاران بھی تذبذب کے عالم میں بیٹھے تھے ۔ میں خود راولپنڈی میں ایس ایس پی کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اگر مجھے طلب کیا جائے تو میں فوراً پہنچ سکوں ۔خیال یہی تھا کہ قاضی قدوس کی بھاگ دوڑ اور بڑے بڑوں سے رابطے کام آئیں گے ،کیونکہ اس واقعہ کے بعد سے وہ بے حد متحر ک تھے ،اور گوجر خاں پولیس کے افسران و اہلکاران میں سے دوچار کی قربانی ہو جائے گی ۔ یہ ملاقات صبح دس بجے تھی ۔ دوبجے کے بعد خبر نکلی کہ پولیس مقدمہ جیت گئی ہے اور قاضی قدوس اپنا مقدمہ ہار گئے ہیں ۔بلکہ گوجر خاں پولیس کو اُس کی فرض شناسی پر اوردباﺅ کے آگے نہ جھکنے پر صدر ضیاءالحق نے شاباش دی ہے ۔

بعد ازاں جب ڈی آئی جی صاحب سے تفصیلی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ ڈی آئی جی صاحب نے ہی صدر ضیاءالحق کو اس کیس کے بارے میںبریفنگ دی اور ملزم کے بارے میں اطلاع ملنے سے لے کراُس کے پکڑے جانے اور تھانے لے جانے تک کاسارا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ یہاں تک پولیس اور قاضی قدوس کے بیان میں سَرِمُو فرق نہیں ہے ۔ بیانات میں فرق تھانے پہنچ جانے کے بعد کے واقعات میں ہے۔ پولیس کا موقف تھاکہ قاضی قدوس نے تھانے پہنچ کر پولیس سے بدتمیزی کی ،گالی گلوچ کی اور دھونس دھمکی کے ذریعے ملز م کو لے جانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ۔ نہ کوئی تلخ بات کہی اور نہ ہی ملزم اُن کے حوالے کیا ۔جبکہ قاضی قدوس کا موقف تھا کہ اُس کی موجودگی میں اُس کے میزبان جس کے گھر میں وہ موجود تھے کو پکڑ لے جانے سے اُن کی بڑی توہین ہوئی اور پھر تھانے میں بھی اُن کی بے عزتی کی گئی ۔ صدر ضیا ءالحق نے فیصلہ دیا کہ جب قاضی قدوس جیسے قانون دان کو تھانے جاکر معلوم ہوگیا تھاکہ ملزم حقیقتاً پولیس کو مطلوب ہے تو پھر اُن کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ ملزم کی سفار ش کر تے اور اُسے چھوڑنے پر اصرار کرتے۔انہوں نے کہا کہ اُن کے خیال میں تو قاضی قدوس کے خلاف ملزم کی سفار ش کرنے اور اُس کو چھوڑنے کے لئے پولیس پر دباﺅ ڈالنے پرقانونی کاروائی ہونی چاہئے تھی ۔ انہوں نے ڈی آئی جی کے ذریعے گوجر خاں پولیس کو شاباش پہنچائی اوروفاقی وزیر کوجو اپنے مو¿کل کی وکالت کے لئے وہاںموجود تھے کوکہا کہ وہ قاضی قدوس کوبتا دیں اُنہوں نے اچھے رویے کا مظاہرہ نہیں کیا ۔جیسے ہی یہ ساری رُوداد گوجر خاں پہنچی، پولیس کی واہ واہ ہوگئی۔ اُس کے حوصلے بلند ہوئے اور عوام کی نظروں میں اُس کی قدرومنزلت میں اضافہ ہوا ۔

سب ڈویژنل پولیس آفیسر گوجر خاں بطور اے ایس پی میری آخری تعیناتی تھی ۔ جون 1984میں میں بطور ایس پی ترقی یاب ہوگیا ور میری خدمات ایف آئی اے کے سپر د کر دی گئیں۔ میں سواچار سال بطور اے ایس پی چارمختلف جگہوں پر تعینات رہا ۔ یہ میری سروس کا سب سے خوبصورت اور اہم ترین دور تھا ۔ یہ ملازمت کے حوالے سے میری ذات ، کردار اور رویوں کا تشکیلی دور تھا۔ خوش قسمتی سے اس دوران مجھے پولیس سروس آف پاکستان کے بہترین افسروں جناب اسد محمود علوی ، جناب ایم آر ضیائ، جناب جہانزیب برکی، جناب افضل علی شگری او ر جناب اسد جہانگیر ، جو سب کے سب بعد میں کسی نہ کسی صوبہ کے آئی جی لگے ، کی ماتحتی میں کام کرنے اور اُن سے سیکھنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے مجھے فیصلے اور عمل کی آزادی دی ۔ کبھی مجھے ڈِکٹیٹ نہ کیا اور میری کوتاہیوں اور لغزشوں سے درگذر کیا۔ اس دوران مجھے کسی بھی قسم کے سیاسی و محکمانہ دباﺅ سے پاک فضاءمیں اپنی قدرتی صلاحیتوں کواپنے قدرتی انداز میں آزادانہ طور پر استعمال کرنے اور نکھارنے کا موقع ملا ۔ ہر دن نیا تجربہ اور نیا مشاہدہ لے کر آتا۔نئے نئے حالات و واقعات سے نمٹنے، انہیں جانچنے ، پرکھنے اور اُس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے اسباق میری ذات و کردار کے رویّے اور رُخ متعین کرتے چلے گئے ۔ میں نے حق اور سچ ، غیر جانبداری اور نیک نیتی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی نبھانے کے رویّے اپنائے جو شاہراہ زیست پر آئندہ آنے والے سفر کے سنگ میل بن گئے۔یہ مجھے راہ سے بھٹکنے نہیں دیتے تھے ۔ آنے والا دور سیاسی مداخلتوں ، ہر قسم کے دھونس اور دباﺅ ، سچ اور جھوٹ کی آویزش اور امتحانوں اور آزمائشوں سے عبارت تھا ۔لیکن میں اپنے اے ایس پی دور کے تجربات و مشاہدات سے اُخذ کردہ نتائج اور رویّوں کے دوش پر قدم قدم چلتا رہا ۔دوران سفر کہیں پاﺅں کے نیچے نرم و نازک گھا س آئی تو کہیں کانٹوں اور کہیں نوکیلے پتھروںسے پَٹی راہ گذر۔ لیکن میں چلتا رہا ۔ چلتا رہا۔اور پھر28اپریل 2011ءکو آئی جی کے عہدہ تک پہنچ کر باعزت اس پل صراط کے پار اُتر گیا۔  ٭

مزید :

کالم -