بلوچ قوم پرستوں کا لاہور میں اجتماع اور شکوے
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور آبادی کے حوالے سے چوتھے نمبر پر ہے۔وفاق کی طرف سے قومی مالیاتی ایوارڈ رقبے اور آبادی دونوں لحاظ سے دیا جاتا اور اسی تناسب سے وفاقی فنڈز یا محاصل کی تقسیم ہوتی ہے، رواں مالی سال کے بجٹ میں ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کی شرح سے محاصل تقسیم ہوئے اور ابھی آٹھواں ایوارڈ نہیں آیا کہ بجٹ پیش کر دیا گیا اس کے مطابق صوبوں کو ان کا حصہ عبوری طور پر ساتویں ایوارڈ کے تناسب سے دیا جائے گا اور آٹھویں ایوارڈ کی منظوری کی صورت میں حساب فہمی ہو جائے گی، بہرحال بلوچستان والوں کا مطالبہ ہے کہ ایوارد رقبے کے لحاظ سے دیا جائے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے گزشتہ ہفتے کے دوران لاہور میں نیشنل پارٹی پنجاب کی صوبائی کانفرنس سے خطاب کیا تو اس مطالبے کو دہرایا۔
یہ صوبائی کانفرنس اس جماعت کی اپنی پہلی ہے کہ اب پنجاب میں تنظیم سازی کی جا رہی ہے، اس سے میر حاصل بزنجو نے بھی خطاب کیا دونوں رہنما قوم پرست ہیں اور بلوچستان کے حوالے سے ہمیشہ سے بات کرتے چلے آئے ہیں اس اجلاس میں ان کی طرف سے بعض کھلی باتیں کی گئیں لاہور کو تو یوں خراج پیش کیا گیا کہ لاہور سے اٹھائی جانے والی آواز بہت جلد سن لی جاتی ہے، حتیٰ کہ اگر مال روڈ دو گھنٹے کے لئے بند ہو جائے تو پورے ملک میں آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا ہے، شاید وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ بلوچستان کی آواز نہیں سنی جا رہی اور اب وہ لاہور سے پکار رہے ہیں، بہرحال انہوں نے واضح طور پر این ایف سی ایوارڈ اور اقتصادی راہداری منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ وفاق کی طرف سے بلوچستان کے حوالے سے تحفظات پر یقین دلایا گیا اور ہم اس پر نطر رکھین گے۔ ان کی ایک بات اچھی تھی کہ بلوچستان میں بتدریج امن ہو رہا ہے اور پہاڑوں پر جانے والوں سے مذاکرات ہو بھی رہے ہیں اور کوشش بھی کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطابق بلوچ عوام اپنے صوبے کے وسائل پر اپنا حق مانگتے ہیں اور یہ کوئی غلط یا ناجائز بات نہیں۔
میر حاصل بزنجو نے اپنے مخصوص انداز میں بتایا کہ ماضی میں بلوچستان میں شرپسندوں نے پنجابی آباد کاروں اور پنجابیوں کو مارا، تاہم اب حکومت نے اس صورت حال پر قابو پایا اور پنجابی آرام سے رہ رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو تعلیم، صحت اور دوسرے شعبوں میں ترقی کی ضرورت ہے۔ شرح خواندگی بڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔
یہ خوش آئند بات ہے کہ بلوچستان کے ان راہنماؤں نے لاہور میں اپنی جماعت کا اجلاس منعقد کیا۔ حاضرین کی تعداد معقول تھی اور ان کی باتیں بھی غور سے سنی گئیں کہ بلوچستان پاکستان ہی کا ایک صوبہ ہے جو پسماندہ ہے اس کے مسائل ماضی سے چلے آ رہے ہیں اب اس صوبے کو دہشت گردی کا بھی سامنا ہے۔ اگرچہ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ امن و امان کی حالت بہتر ہوئی۔ اس کے باوجود ٹارگٹ کلنگ اور تخریب کاری کی وارداتیں جاری ہیں، ایف سی نبردآزما ہے اور فوج بھی تعاون کررہی ہے، بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن مختلف نوعیت کے مسائل ریکوڈک اور سیندک منصوبوں کی راہ میں حائل ہیں ان کو دور کرنے کی مثبت کوششوں کی ضرورت ہے۔
روہنگیا برما کے حصے میانمر میں ہے اور یہاں کے مسلمانوں کو برما کی اکثریت (بدھ مت والے) نے اس سرزمین سے نکال کر سمندر میں دھکیل دیا ہے۔ برما میں خصوصاً میانمر میں مسلمانوں کا قتل عام عرصہ سے جاری ہے اور ان پر ان کے اپنے ہی وطن میں زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ آئے روز ظلم و بربریت کی داستانیں سنائی دیتی ہیں لیکن دنیا تو دنیا خود مسلمان ممالک ان کی حالت پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ اب تو حد ہوگئی جب ان مسلمانوں کو زمین سے نکال دیا گیا اور وہ بڑے بڑے بحری بیڑوں اور کشتیوں میں کھلے آسمان کے تلے سمندر میں رہنے پر مجبور ہو گئے، حتیٰ کہ ان کے پاس خوراک اور پانی تک ختم ہو گیا، ان میں عورتیں، بوڑھے اور بچے بھی ہیں جن کے لئے اللہ کی زمین تنگ ہو گئی کہ ان کو کسی ملک نے قبول کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی اور دنیا کی ٹھیکیدار اقوام متحدہ بھی ٹس سے مس نہ ہوئی کہ ان کو واپس ان کی پیدائشی زمین پر بسایا جائے۔ اس سلسلے میں مسلمان ممالک کا رویہ بھی سرد مہری لئے ہوئے ہے حتیٰ کہ پاکستان میں مذہبی حلقوں نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی تھی یہ تو سوشل میڈیا والے ہیں جن کی طرف سے روہنگیا کے ان مظلوموں کی طرف تو جہ دلائی گئی اور ان مظالم کی ویڈیو مسلسل اپ لوڈ کی گئیں، اس میڈیا ہی کی بدولت سول سوسائٹی کی توجہ مبذول ہوئی اور ان کی طرف سے لاہور پریس کلب کے باہر ایک مظاہرہ کیا گیا اور فرض ادا کر دیا، بہرحال سوشل میڈیا کے حوالے سے یہ مظاہرہ ہوا تو مذہبی طبقے کو بھی خیال آ ہی گیا اور ان کی طرف سے احتجاج شروع ہوگیا۔ ملک بھر کے بڑے شہروں میں جلوس نکالے گئے اور پھر حکومت پاکستان کو بھی خیال آیا وزیرداخلہ چودھری نثار نے احتجاج ریکارڈ کرایا پھر وزیراعظم نے ایک سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس نے تجویز کیا کہ ان بے آسرا افراد کی بحالی کے لئے کوشش کی جائے۔ خوراک و لباس مہیا کیا جائے اور مسلمان ممالک کی توجہ مبذول کرائی جائے۔ شاید اس احتجاج ہی کا اثر ہوا کہ سعودی عرب اور عرب امارات کی طرف سے بھی امداد کا اعلان کر دیاگیا تاہم ابھی تک ان کی آباد کاری کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی اقدام کیا گیا اور نہ ہی اقوام متحدہ سے رجوع کیا گیا۔ اسلامی کانفرنس تو یوں بھی عرصہ سے عضو معطل کی حیثیت اختیار کر چکی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا نے تو حق ادا کیا لیکن ہمارے الیکٹرونک میڈیا نے اتنی توجہ نہیں دی جتنی دینا چاہیے تھی۔
وفاقی بجٹ کے اعلان اور رمضان المبارک کی آمد کے حوالے سے اشیاء خوردنی اور ضرورت کے نرخوں میں اضافے پر احتجاج ہو رہا تھا کہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 7.5فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا جسے ملازمین نے مسترد کر دیا، ایپکا کی طرف سے احتجاج جاری ہے، اس تنظیم کے علاوہ کارکنوں کی دوسری نمائندہ تنظیموں نے بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
وفاقی بجٹ کی ایک دلچسپ اصطلاع وزیرخزانہ کی زبانی ہے کہ یہ 7.5فیصد اضافہ اگرچہ بنیادی تنخواہ پر ہوگا تاہم ماضی میں جو عبوری ریلیف (ایڈہاک اضافہ) دی جاتی رہی اسے بنیادی تنخواہ میں ضم کر دینے کے بعد جو بنیادی تنخواہ بنے گی اس پر اضافہ دیا جائے گا، جہاں تک ایڈہاک ریلیف کا تعلق ہے تو وہ موجودہ بجٹ سے پہلے تین بار دی گئی اور اسے ضم نہیں کیا گیا تھا، اب یہ تینوں مجموعی طور پر بنیادی تنخواہ میں شامل ہونا چاہیے اور پھر اضافہکیا جائے تاہم ملازمین کو خدشہ ہے کہ محکمے ایسا نہیں کریں گے یوں احتجاج کی لہر بڑھے گی۔