پاک چین اکنامک راہداری اور حکومت پنجاب
پاک چین معاشی راہداری پر حکمران جماعت تو شور مچا رہی ہے کہ یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن حکومت کی تو عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے سے کارنامے کو بھی بڑا بنا کر پیش کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ کریڈ ٹ لینے کی کوشش کرتی ہے۔ اس ضمن میں اپوزیشن کا موقف بھی میرے نزدیک زیادہ اہم نہیں ہے کیونکہ اپوزیشن کا تو کام ہے کہ حکومت کے اچھے کاموں کو بھی برا کہنا۔ اپوزیشن اگر حکومت کی تعریف کرنے لگ جائے تو اس کی اپنی حیثیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے پاک چین اکنامک راہداری پر اصل صورتحال جاننے کے لئے پاکستان سے باہر کا رد عمل جاننا چاہئے۔ اس ضمن میں بھارت کے رد عمل نے اہل پاکستان کے دل میں پاک چین اکنامک راہداری کے لئے محبت پیدا کی ہے کیونکہ جب بھارت نے اس کی اتنی شدت سے مخالفت کی کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر موددی خود چین چلے گئے اور اس کی مخالفت میں بیان پر بیان دینا شروع کر دیا۔ اس نے اس منصوبہ کی ساکھ میں بے پناہ اضافہ کیا۔ اس کے بعد گلگت بلتستان کے عوام نے بھی اپنے انتخابی نتائج سے پاک چین اکنامک راہداری کے حق میں مہر ثبت کر دی ہے۔ یقیناًگلگت بلتستان کے نتائج نے واضح پیغام دیا ہے کہ عوام پاک چین اکنامک راہداری کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں دیکھنا چاہتے۔
پنجاب میں ویسے تو اللہ کا شکر ہے کہ پاک چین اکنامک راہداری کے حق میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے۔ پنجاب میں اس حوالے سے کوئی اختلاف موجود نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاست دانوں کو علم ہے کہ اہل پنجاب اس کی مخالفت برداشت نہیں کریں گے۔ پاک چین اکنامک راہداری کے تحت اس وقت ملک بھر میں 46بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے جس میں سے صرف 9.6بلین ڈالر کی سرمایہ کاری پنجاب میں ہے۔ اس حوالے سے گزشتہ روز پاک چین اکنامک راہداری پر حکومت پنجاب نے ایک سیمینار منعقد کیا۔ ویسے تو سیمینار اب بس ایک رسمی کارروائی ہی رہ گئے ہیں۔ مقررین تقریر کرتے ہیں۔ سامعین تالیاں بجاتے ہیں اور پھر کھانا پینا۔ اس لئے سیمینار اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔ آپ سمینار کے مقررین کے نام پڑھ کر ہی اندا زہ لگا لیتے ہیں کہ اس میں کون کیا بات کرے گا، لیکن مجھے اس سمینار میں شرکت کی واحد وجہ پاکستان میں چینی سفیر کی اس میں تقریر تھی۔ چینی خارجہ پالیسی کا ایک ہی اصول ہے کہ کم سے کم بات کی جائے۔ چینی بولنے سے زیادہ عمل کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لئے پاک چین اکنا مک راہداری پر پاکستان میں تو بہت بات ہو رہی ہے لیکن چین خاموش ہے۔ یہ بات بھی بھارت نے ہی بتائی کہ انہوں نے چین سے پاک چین اکنامک راہداری پر احتجاج کیا ہے اور اس منصوبہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن چین نے بھارت کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ورنہ چین نے تو یہ بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھی۔ ایسی صورتحال میں چینی سفیر کی گفتگو میرے نزدیک اہم تھی۔
ویسے تو سمینار میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے سب سے پہلے پاک چین اکنامک راہداری پر تفصیل سے بات کی۔ یہ وہی بات چیت تھی جو وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ لگتا ہے اب انہیں ایک تقریر یاد ہو گئی ہے اور ہر جگہ یہی تقریر کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد پنجاب حکومت کے افسران اے سی ایس انرجی جہانزیب خان اور سیکرٹری معدنیات نے گفتگو کی، کیونکہ پنجاب میں چین بنیادی طور پر ان دو شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کے بعد پنجاب میں نو سو میگاواٹ کا سولر منصوبہ لگانے والی چینی کمپنی کے سربراہ ۔ ساہیوال میں کوئلہ سے بجلی کا منصوبہ لگانے والی کمپنی اور پھر پنڈ دادن خان میں پنجاب کے اپنے کوئلہ سے بجلی کا پلانٹ لگانے والی کمپنی کے سربراہ نے بات کی۔ ان کمپنیوں کے سربراہان نے اپنے اپنے منصوبوں پر پیش رفت کے بارے میں بتا یا اور یقین دلا یا کہ یہ تمام منصوبے اپنے مقررہ وقت پر مکمل ہو جائیں گے۔ ساہیوال میں کوئلہ کے منصوبہ پر جب چینی کمپنی کے سربراہ نے یہ بتا یا کہ یہ منصوبہ دسمبر 2017ء تک مکمل ہو جاے گا تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ نے لکھ کر دیا ہے مجھ سے آپ کا کیا وعدہ ہے تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے زبانی وعدہ دیا ہے کہ ستمبر 2017ء تک یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی سیمینار سے خطاب کیا جو جزوی طور پرروائتی اور جزوی طور پر غیر روائتی تھا۔ بات ایک ہی اچھی تھی کہ پاک چین دوستی کے حوالہ سے ماضی میں بھی بہت سے ا ہم مواقع آئے، لیکن پاکستان نے یہ مواقع اپنی غلطیوں سے ضائع کئے۔اب پاک چین اکنامک راہداری ایک اور موقع ہے اور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ موقع ضائع نہ ہو۔
چین کے پاکستان میں سفیر جناب Sun Weidong نے بھی ایک غیر روائتی تقریر کی۔ ورنہ عمومی طور پر غیر ملکی سفیر رسمی تقریر کرتے ہیں ۔ جو ان کی وزارت خارجہ سے منظور شدہ ہوتی ہے۔ چینی سفیر نے واضح طور پر کہا کہ پاک چین اکنامک راہداری دونوں ممالک کے لئے win win فارمولہ کے تحت بہترین شراکت داری ہے ۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاک چین اکنامک راہداری میں دونوں ممالک کے لئے ایک ایک منٹ اور ایک ایک گھنٹہ اہم اور قیمتی ہے۔ اس کو ضائع کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پاک چین اکنامک راہداری کا اگلہ مرحلہ اور بھی اہم ہے۔ اب تک تو یہی سمجھا جا رہا ہے کہ پاک چین اکنامک راہداری میں بس یہ 46بلین ڈالر کے منصوبے ہیں۔ تا ہم چینی سفیر نے واضح کیا کہ اس کے اگلے مرحلے کے لئے دونوں ممالک کے ورکنگ گروپس بن چکے ہیں اور چین پاکستان میں صنعتی ترقی کے لئے صنعتی ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس سے پاکستان کی صنعتیں عالمی مارکیٹ کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گی۔ اسی طرح چین پاکستان میں اگلے مرحلے میں زراعت اور تعلیم کے شعبہ میں تعاون بڑھانا چاہتا ہے۔ چین اب ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے جس سے پاکستان کے عام آدمی کو فائدہ ہو۔ چینی سفیر نے بار بار کہا کہ چین پاکستان کے عام آدمی کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ بہر حال حکومت پنجاب تو پاک چین اکنامک راہداری پر سنجیدہ نظر آرہی ہے اور اس کے ہرمنصوبہ کو بر وقت مکمل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔