گلگت، بلتستان، عام انتخابات، پیپلزپارٹی کہاں؟
تجزیہ:چودھری خادم حسین
گلگت بلتستان کے عام انتخابات کے نتائج غیر متوقع نہ ہونے کے باوجود حیرت انگیز ہیں اور ان سے ظاہرہوتا ہے کہ ابھی تک عام رائے دہندہ کے ذہن کو اس حد تک تبدیل نہیں کیا جا سکا کہ یہاں انقلاب آ جائے۔ حیرت کا جو پہلو سامنے آیا وہ پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے سے ہے جس کا صفایا ہی ہو گیا ہے اور گزشتہ دور کی برسر اقتدار جماعت کے وزیر اعلیٰ تک اپنی نشست نہیں بچا سکے۔ اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کو غور کرنا پڑے گا کہ اقتدار کے بعد اتنی پتلی حالت تو تجزیہ نگاروں کے تجزیوں سے بھی دور چلی گئی ہے ۔
جہاں تک ان انتخابات کا تعلق ہے تو یہ فوج کی انتظامی نگرانی میں ہوئے اور ابھی تک ان کے غیر شفاف ہونے کا کوئی الزام بھی سامنے نہیں آیا یوں یہ نتائج قابل قبول ہیں تو ہارنے والی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔
ان انتخابات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف والے بھی بہت مطمئن تھے اور وہ جیت کا جشن منانے کے لئے تیار تھے لیکن نتائج نے ان کی کمزوری ظاہر کر دی ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بڑے جلسوں سے ہی یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں جماعت مقبول تر ہے اور جیتے گی۔ انتخابات کی ایک اپنی سائنس ہے اور رائے دہندگان کا اپنا ذہن ہوتا ہے۔ عمران خان نے کہا ’’نوٹ بے شک لو، ووٹ بلے کو دو‘‘ اب اس سے ان کی کیا مراد تھی یہ تو پتہ نہیں لیکن دیامر، بھاشا ڈیم کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی ہونا ہے اگر یہ موجودہ حکومت کے ذمہ ہے تو پھر اسی کے ذریعے معاوضے تقسیم ہوں گے۔ چنانچہ ان معاوضوں کے حوالے سے سے نوٹ کی بات کی گئی تو یہ رشوت تو نہ ہوئی جو متاثر ہوں گے اور جن کی زمینیں ڈیم کی زد میں آئیں گی ان کو معاوضہ ملنا ہے اور اس حوالے سے تو کئی شکایات بھی ہیں بہر حال یہ نعرہ چل نہیں سکا۔
گلگت، بلتستان کے علاوہ پنجاب میں بھی ایک ضمنی انتخاب ہوا، اس میں سخت مقابلہ ہوا، مسلم لیگ (ن) کافی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ تحریک انصاف کے امیدوار نے بھی معقول ووٹ لئے اور دوسرے نمبر پر رہی، البتہ پیپلزپارٹی کے امیدوار تیسرے نمبر پر تھے اور ان کو قریباً تیس ہزار ووٹ مل گئے۔ یہ بنیادی طور پر مسلم لیگی حلقہ ہے یہاں تحریک انصاف کے نام پر امیدوار کو اتنے ووٹ ملنا بھی ایک کارنامہ ہی ہے۔ تاہم پیپلزپارٹی کے لئے پھر لمحہ فکریہ ہے کہ اب تک گراف کی نچلی سطح پر جانے کے بعد سے کوئی ترقی نہیں ہوئی بلکہ گلگت بلتستان میں بہت بری حالت ہوئی ہے اور آزاد کشمیر کے حالات بھی ایسے ہی نظر آ رہے ہیں۔
ان حالات کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے لئے بھی پیپلزپارٹی کے دعوے ٹھیک نہیں ہیں اس لئے ان میں بھی مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف ہی میں متوقع ہے۔
اب شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پارٹی کی قیادت کیا جواب دے گی؟ سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات ہونا ہیں اور حالیہ انتخابات کے اثرات وہاں بھی مرتب ہوں گے، کیا پیپلزپارٹی وہاں بھی ایسے ہی نتائج دے گی کہ ایم کیو ایم شہروں میں ہے اور دیہات میں جاگیردارانہ گروہ بندیاں موجود ہیں۔ بڑے گروہ اور خاندان ہوا کا رخ دیکھتے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی نے مزید تاخیر کی تو پارٹی کا وجود؟
پیپلزپارٹی کہاں؟