مودی کے بیان سے بلی تھیلے سے باہر آگئی ‘ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا ‘ خورشید شاہ
اسلام آباد(اے این این) قائدحزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ بیان سے ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کو توڑنے اور بنگلا دیش بنانے میں بھارت کا کردار تھا اس لئے بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا ٗ ملک میں حالیہ بجٹ میں محنت کشوں اور مزدوروں کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا وہ بدستور دھکے کھاتے رہیں گے ٗ ہم نے اپنے دور اقتدار میں تنخواہوں میں 125 فیصد اضافہ کیا ساڑھے سات فیصد اضافہ آٹے میں نمک کے برابر ہے کم از کم 25فیصد کیا جائے ۔پارلیمنٹ میں بجٹ بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم کا بنگلادیش میں بیان قابل مذمت ہے جس پر دفترخارجہ کو بیان کی مذمت کرنی چاہیئے جب کہ اشارے ملتے رہے ہیں کہ پاکستان میں اور خاص طور پر بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بھارت ملوث رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت رقبے سے اعتبار سے بڑا ہے لیکن جذبے میں نہیں، آج بھی پاکستانی قوم میں مذہبی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، پاکستان تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے اور پاکستان مخالف سوچ کا اظہار بنگلادیش میں بھارتی وزیراعظم کے بیان سے ہوا ہے۔اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ سرکلر ڈیٹ کم کرنے سے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ہمارے دور حکومت میں پوری دنیا میں بدترین معاشی حالات تھے لیکن اب ایسا نہیں اس لئے بجٹ پر تحفظات ہیں، بجلی کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی ہیں اور لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا ہے۔بجٹ میں مزدوروں اور محنت کشوں کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا اور وہ بدستور دھکے کھاتے رہیں گے ۔ کسان اور مزدور کی حالت بہتر ہوگی تو ملک خوشحال ہوگا حکومت کو زراعت پر توجہ دینی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ ہم نے 2010ء میں تباہ کن سیلاب کے باوجود زراعت کو سہارا دیا اور گندم درآمد نہیں ہونے دی زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہے اگر ہم نے اسے نظر انداز کیا تو ملک کینیا اور ایتھوپیا بن جائیگا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے زراعت کے حوالے سے مثبت قانون سازی کی اور کاشتکاروں کو خوشحال بنانے کی کوشش کی ۔ انہوں نے کہا کہ زرعی اجناس کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے اور کاشتکار خسارے میں ہے غریب کاشتکار کے منہ سے نوالہ مت چھینا جائے یوریا کھاد کے کارخانوں کو سبسڈی پر گیس فراہم کرنے کے باوجود کھاد مہنگی ہے زرعی گروتھ نیچے جاری ہے کپاس کی بمپرکراپ ڈمپر بن گئی ہے صنعتوں کا بھی برا حال ہے رواں مالی سال کوئی معاشی ہدف پورا نہیں ہوسکا شمسی توانائی کا ایک یونٹ 32 روپے کا ہے یہ کون ایفورڈ کریگا نندی پور کی طرح سولر پارک بھی بند ہوجائیگا ۔ گدو پراجیکٹ پر کام رکا ہے اور گڈانی منصوبہ کاغذوں تک محدود ہے شہروں میں12 اور دیہاتوں میں 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔ فیصل آباد میں لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر ڈنڈے برسائے گئے بیروزگاری دن بدن بڑھ رہی ہے 2013ء میں جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح60فیصد تھی آج 62فیصد ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے 60 فیصد سے تجاوز پر پارلیمنٹ سے منظوری لازمی ہے جو نہیں لی گئی حکومت کے کشکول توڑنے کے وعدے کہاں گئے ؟۔ حکومت نے کشکول نہیں قانون توڑ ڈالا ہے اور اب تک 3400 ارب روپے کے قرضے میں اضافہ کرچکی ہے حکومت قرضوں پر چل رہی ہے بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے الٹا 102 ارب روپے پاکستان سے باہر نکل گئے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا ہے افراط زر کم ہونے کی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہے لیکن اشیائے خوردونوش مہنگی ہوگئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عوام افراط زر سے واقف نہیں انہیں آٹے دال کا بھاؤ پتہ ہوتا ہے ہم نے اپنے دور اقتدار میں تنخواہوں میں 125 فیصد اضافہ کیا ساڑھے سات فیصد اضافہ آٹے میں نمک کے برابر ہے کم از کم 25فیصد کیا جائے جبکہ پولیس کی تنخواہ میں 100 فیصد اضافہ کیا جائے ۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا معاوضہ 1500 سے بڑھا کر 2000 روپے کیا جائے حکومت نے بجلی پر سبسڈی ختم کردی ہے جو زیادتی ہے 143 ارب روپے کی سبسڈی ختم کرنے سے مہنگائی کا طوفان آئے گا غریب بل نہیں دے سکتے اگر سبسڈی غلط ہے تو میٹرو بس پر کیوں دی جارہی ہے ۔ایک طرف نجکاری کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف میٹرو بس کو خسارے پر چلایا جارہا ہے مقروض ملک میں ایسی پرتعیش گاڑیوں کی ضرورت نہیں اگر نجکاری کرنی ہے تو میٹرو بس کی بھی کی جائے ۔