فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تقاضوں پر مثبت پیش رفت

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے تقاضوں پر مثبت پیش رفت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قومی سلامتی کمیٹی نے کہا ہے کہ گرے لسٹ پر عالمی اداروں سے مل کر چلیں گے،وزیراعظم جسٹس(ر) ناصر الملک کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس وزیراعظم آفس میں منعقد ہوا، اجلاس میں ملک کی مجموعی سلامتی کی صورتِ حال پر غور کیا گیا، اجلاس میں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) اجلاس کے بارے میں بریفنگ دی۔انہوں نے اس ٹاسک فورس کے تقاضے پورے کرنے کے لئے حکومتِ پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے انتظامی اور قانونی اقدامات سے آگاہ کیا۔ کمیٹی نے ایف اے ٹی ایف فریم ورک کے تحت ملک کی بین الاقوامی ذمے داریوں سے عہدہ برا ہونے کے لئے اب تک کئے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ اگلے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف سیکرٹریٹ کو اب تک ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا جائے، کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان مشترکہ مقاصد اور اہداف کے حصول کے لئے ایف اے ٹی ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔
کہا جا رہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اگلے اجلاس میں جو پیرس میں ہو رہا ہے، پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں ڈالے جانے کا امکان ہے اور یہ اقدام اُن بعض کمزوریوں یا کوتاہیوں کی بنیاد پر اُٹھایا جا سکتا ہے جو اس ادارے نے پاکستان کی جانب سے کئے گئے اقدامات میں نوٹ کی ہیں، تاہم اِس اقدام سے پہلے ایک ایکشن پلان پر بات چیت ہو گی، جس میں پاکستان کو بعض اقدامات کے لئے کہا جائے گا اِس ایکشن پلان پر کئی مہینوں تک غور ہوا تاہم ابھی تک اِس ضمن میں حتمی فیصلہ نہیں ہو سکا، یعنی کسی ایکشن پلان کو اختیار نہیں کیا گیا، قومی سلامتی کمیٹی نے اِس ایکشن پلان کی منظوری دے دی ہے، جو ٹاسک فورس کے اگلے اجلاس میں رکھا جائے گا۔ پاکستان نے اعلیٰ ترین سطح پر اپنی وہ کمٹمنٹ پوری طرح واضح کر دی ہے، جس کی توقع عالمی ادارہ اِس ضمن میں پاکستان سے رکھتا ہے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ریاست ہے، جس نے مسلسل ایسے اقدامات کئے ہیں، جن کے ذریعے نہ صرف مُلک کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں پر قابو پایا ہے،بلکہ ایسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جن کی وجہ سے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور اُن کے نیٹ ورک ختم ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ دُنیا میں کسی بھی جگہ دہشت گردی کی بڑی وارداتیں کرنے کے قابل نہیں رہے، دُنیا کے کئی ممالک میں دہشت گردی کے جو اِکا دُکا واقعات ہوتے رہتے ہیں وہ بکھرے ہوئے دہشت گردوں کی انفرادی کارروائیاں ہیں، جو اپنے نیٹ ورک سے ٹوٹ چکے ہیں اور اب مایوسی کے عالم میں ایسے واقعات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، جن سے مختصر وقت کے لئے دہشت پھیلتی ہے دُنیا بھر میں ایسے عناصر کی سرکوبی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اے ایف ٹی ایف جیسے ادارے اِسی لئے بنائے گئے ہیں کہ اُن کی کوششوں سے دہشت گردوں کو ملنے والی مالی امداد کے سوتے خشک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان کے اندر ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ اب دہشت گردوں کا اپنا نیٹ ورک بنانا اور آپریٹ کرنا ممکن نہیں رہا،اِس لئے یہ لوگ اپنے ٹھکانے بدل کر جا چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق افغانستان میں دوبارہ کمین گاہیں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں کو بھی صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا ہے اور اب وہ قبائلی نظام برقرار نہیں رہا، جس سے فائدہ اُٹھا کر ماضی میں دہشت گردوں نے دشوار گذار قبائلی علاقوں میں اپنے نیٹ ورک بنا لئے تھے،افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی جاری ہے، جو سالِ رواں تک مکمل ہو جائے گا، اس کی وجہ سے دہشت گردوں کا پاکستان آنا جانا آسان نہیں رہا تاہم بعض غیر روایتی راستے اب بھی یہ دہشت گرد استعمال کر سکتے ہیں، جنہیں بند کرنے کے لئے بھی کارروائیاں جاری ہیں،دہشت گردی کی جو کارروائیاں دُنیا بھر میں ہوتی ہیں ان میں پیسے کا بنیادی کردار ہے، جس کے بغیر یہ سلسلہ جاری رکھنا ناممکن ہے اِس لئے عالمی ادارے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے اقدامات کئے جا سکیں، جن کے ذریعے دہشت گردوں کی مالی وسائل تک رسائی ممکن نہ رہے۔یہ ٹاسک فورس اس مقصد کے لئے کام کر رہی ہے پاکستان نے اس کے ساتھ ماضی میں بھی تعاون کیا ہے اور آئندہ بھی نہ صرف یہ تعاون جاری رکھنا چاہتا ہے،بلکہ ٹاسک فورس کے اطمینان کے لئے ایسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جو اس کے مقاصد کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہو سکیں۔
امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی طرف سے ٹاسک فورس کے سابقہ اجلاس کے موقع پر یہ کوشش کی گئی تھی کہ پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کیا جائے، بھارت بھی اُن ممالک کے ساتھ شامل باجہ تھا،لیکن اُس وقت یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی،اِس عرصے کے دوران پاکستان نے کوشش کی ہے کہ اپنے اقدامات کے ذریعے ٹاسک فورس کو مطمئن کیا جائے اور ایسے اقدامات کئے گئے ہیں،جنہیں اطمینان بخش ہونا چاہئے۔ تاہم امریکہ نے ’’گرے لسٹ‘‘ کے ذریعے پاکستان سے درپردہ ایسے مطالبات منوانے کی کوشش کی ہے، جو اِس سے پہلے پاکستان نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ کا مقصد یہی نظر آیاکہ براہِ راست نہیں تو بالواسطہ دباؤ ڈال کر اپنے مطالبات منوا لئے جائیں، مثال کے طور پر حافظ سعید کے معاملے سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں،اس سے جو بھی پرخاش ہے وہ بھارت کو ہے، کیونکہ حافظ سعید نے 2017ء کا سال کشمیریوں کے نام کیا تھا، جس پر بھارت سیخ پا تھا،جو ریاستی جبر کے ذریعے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ حافظ سعید چونکہ کشمیر کی آزادی کی بات کرتے ہیں،اِس لئے بھارت حیلوں بہانوں سے اُن پر پاکستان میں پابندیاں لگانے کی بات کرتا رہتا ہے، اُن کی نظر بندی کا خاتمہ بھی پاکستان کی عدالتوں نے کیا تھا اور اُن کی تنظیم پر پابندیاں بھی عدالتی احکامات کی وجہ سے ختم ہوئی تھیں۔ بھارت نے اسی بہانے پاکستان کے عدالتی نظام کو بھی نشانہ بنایا اور اس کے میڈیا پر بھی ہر وقت حافظ سعید ہی چھایا رہتا ہے، چنانچہ جب گرے لسٹ کا معاملہ آیا تو بھارت نے امریکہ کو بھی اس حوالے سے بریف کر دیا اور کہا یہی گیا کہ پاکستان نے اقدامات تو کئے ہیں،لیکن حافظ سعید کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات اطمینان بخش نہیں ہیں، اِس عرصے کے دوران پاکستان نے جو اقدامات کئے ہیں اُن پر حکومت اور قومی سلامتی کمیٹی کو اطمینان ہے۔ امید ہے ٹاسک فورس بھی اس پر اطمینان ظاہر کر دے گی، ویسے بھی امریکہ اب پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ’’نئی شروعات‘‘ چاہتا ہے، اِس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ اب امریکہ مثبت رویہ اپنائے گا اور گرے لسٹ کا معاملہ ختم ہو جائے گا۔

مزید :

رائے -اداریہ -