نسٹ انتظامیہ کو سلام
نسٹ سے مراد نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہے اور اس کالم میں یونیورسٹی انتظامیہ کو سلام پیش کرنے سے یہ ہرگز مطلب نہ لیا جائے کہ مجھے یا میرے کسی عزیز کو وہاں کسی قسم کا داخلہ یا فیس میں کوئی رعائت درکار ہے۔
نسٹ انتظامیہ نے موجودہ بے ہنگم اور بے لگام دور میں ایک ایسا اقدام کیا ہے جو شتر بے مہار نوجوانوں کو قابو کر سکتا ہے جو خود کو مادر پدر آزاد سمجھتے ہیں۔
اس کہانی کا آغاز آج سے بہت برس پہلے ہوا جب سوشل میڈیا کے ساتھ ہی ایک سیاسی جماعت بھی مقبول ہوئی۔ تاثر یہ تھا کہ اس جماعت کو نوجوانوں اور خاص طور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے طالب علم لڑکوں اورلڑکیوں کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے جو سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک ہیں۔ وہ عشروں سے موجود پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون جیسی روایتی سیاسی جماعتوں اور قیادت سے مایوس ہیں اور انہیں عمران خان کی صورت ایک نجات دہندہ نظر آ رہا ہے۔
یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے کہ ہر کسی کو اپنی سیاسی قیادت کے چناو کا حق حاصل ہے مگر یہ حق کسی کو حاصل نہیں کہ آپ یا آپ کے لیڈر جسے ناپسند کرتے ہیں آپ اسے گالی دیں۔ اس نام نہاد پڑھے لکھے طبقے کی بڑی تعداد نے اصلی کے ساتھ ساتھ جعلی اکاونٹس بھی بنا لئے اور دل بھر کے گالیاں بکنا شروع کر دیں۔ آ پ فیس بک پر اپنے دوستوں کی تعداد کو محدود کرسکتے ہیں مگر ٹوئیٹر ان بہت ہی آزاد خیال فالوررز کو لگا م دینے کا ایک ہی طریقہ دیتا ہے کہ انہیں بلاک کر دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کتنوں کو بلاک کر سکتے ہیں؟
گُل بخاری سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہیں، وہ مسلم لیگ نون کی حامی ہیں اور سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے ناکام جلسوں کو ایکسپوز کرنے میں خصوصی جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرتی ہیں اور انہیں جواب میں ایسے ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے ردعمل کے بارے میں آ پ سوچ سکتے ہیں۔
گل بخاری کے بارے مشہور ہوا کہ انہیں نامعلوم افراد نے اپنے ٹی وی پروگرام کے لئے جاتے ہوئے منگل کی رات مبینہ طور پر اغوا کر لیا اگرچہ اس اغوا کے بارے میں گل بخاری کااکاونٹ خاموش ہے مگر یہ خاموشی بھی بہت ساری داستانیں سنا رہی ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ مسلم لیگ نون کے بعض حامی بھی ایسی زبان استعمال کرتے ہیں جو منطق سے عاری ہوتی ہے اور مسلم لیگ نون کے بیانئے کے مخالفین کے لئے دل شکنی ہی نہیں بلکہ اچھے خاصے ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے، یہی ڈپریشن پھر ردعمل کا باعث بھی بنتا ہے۔
بات نسٹ کی ہے تو نسٹ کا ایک طالب علم محمد مرسلین ہے جس کا ٹوئیٹر ہینڈلر’ مرسلین پی ٹی آئی‘ ہے جو اس نوجوان کے بارے بتاتا ہے کہ وہ ینگ سول انجینئر بن رہاہے اور ’ غداروں‘ کا سخت مخالف ہے۔ اب غداری پر کیا بات کی جائے کہ پاکستان کی تاریخ میں محترمہ فاطمہ جناح سے نواز شریف تک بہت ساروں کو غداری کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے جو قطعی طور پر مناسب نہیں،بہرحال، اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں،مرسلین نے چھ جون کو ایک ٹوئیٹ کی جس میں ا س نوجوان نے بتایا کہ اس کی گریجوایشن اب مکمل ہونے ہی والی ہے، آج یعنی چھ جون اس کا نسٹ میں آخری دن ہے مگر اس ٹوئیٹ سے پہلے وہ غدار گل بخاری کے بارے میں ٹوئیٹ ( یا ٹوئیٹس) کر چکے تھے جن میں انہیں وہی گالیاں دی گئی تھیں جوہمارے ہاں کسی بھی عورت ( یا مرد کو بھی ) سوشل میڈیا پر دیتے ہوئے ہرگز کسی شرم اور حیا کا پاس نہیں رکھا جاتا۔ ریحام خان کو بھی ایسی ہی گالیوں کا سامنا ہے اور اس سے پہلے ملالہ یوسف زئی کو بھی تعلیم کی حمایت کے جرم میں ایسی ہی گالیاں دی جاتی رہی ہیں۔ مرسلین کے ماں باپ نے اسے اپنی ماوں ، بہنوں اور بزرگوں کو فحش گالیاں دینے کی تربیت نہیں دی ہو گی۔ یہ تربیت ان ہزاروں اور لاکھوں دوسرے مرسلینوں کو بھی نہیں ہوگی جو یہی کام کسی دوسری یا کسی تیسری سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے کر رہے ہیں، کیا یہ دلچسپ امر نہیں ہے کہ جماعت اسلامی جیسی صالحین کی جماعت کے بعض سوشل میڈیا پیروکار ایسی ہی زبان استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ ایک معاشرتی معمول بن چکا جس میں بہت بڑی اخلاقیات کا مظاہرہ کیا جائے تو ماں اور بہن کی گالیوں کے پہلے اور آخری لفظ کو لکھتے ہوئے درمیان میں تارے بنا دئیے اور دکھا دئیے جاتے ہیں۔
مرسلین کا جنسی ہراسگی لئے ہوئے ٹوئیٹ ایک معمول تھا مگرنسٹ کی انتظامیہ کا ردعمل یقینی طور پر معمولی اور عمومی نہیں تھا۔نسٹ انتظامیہ نے گل بخاری کے خلاف نازیبا ٹوئیٹ کا نوٹس لیا اور اپنے آفیشنل پیج پر اس پر کارروائی کا عندیہ دے دیا، یہ ایک بڑا اقدام تھا جسے سوشل میڈیا پر بڑی تحسین ملی، یہ مطالبہ بھی ہوا کہ مرسلین کی ڈگری کینسل کر دی جائے جس کے نتیجے میں اس زندگی بھر کی محنت سے محروم ہونا پڑتا،ہاں، کئی ایسے بدبخت بھی تھے جوگالی گلوچ کی حمایت کر رہے تھے۔
یہاں حقیقی معنوں میں ا یک تبدیلی آئی کہ مرسلین نامی نوجوان نے اپنے مستقبل کو درپیش خطرے کو بھانپا اور لکھا کہ گل بخاری کو اس کے تبصرے سے جو تکلیف پہنچی ہے وہ اس پر معذرت خواہ ہے، اس نے مانا کہ اس کا تبصرہ اور لفظوں کا چناو بالکل قابل قبول نہیں تھااور مزید یہ کہ نسٹ کا سنٹر فار کونسلنگ اینڈ کیرئیر ایڈوائزری اس کی کونسلنگ کرے گا اور وہ لازمی کمیونٹی سروس کرے گا تاکہ وہ خواتین کی عزت کرنا سیکھ سکے۔
میں جانتا ہوں کہ اس کا یہ ردعمل انتظامیہ کے براہ راست دباو کا نتیجہ تھا اور میں ایسے دباو کو بہت جائز اور درست سمجھتے ہوئے اسے سراہتا ہوں۔
گل بخاری نے مرسلین کے معذرت کرنے کے جواب میں اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا تم اتنی ہی عمر کے ہو گے جتنا میرا بیٹا ہے، میری خدا سے دعا ہے کہ آپ کبھی کسی عورت پر جنسی تشدد کا نہ سوچیں نہ صرف یہ بلکہ ایک ایسی عورت پر جو آپ کی ماں کی عمر کی ہو، گل بخاری نے یہاں اس کے مستقبل کے لئے نیک تمناوں کا بھی اظہار کیا۔
ہم سب انسان ہیں، ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب پاکستانی ہیں اور جسے ہم انسانیت، اسلام یا پاکستان کے خلاف سمجھتے ہیں اس پر غصے میں بھی آتے ہیں مگر وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے غصے اور جذبات کو ایک حد میں رکھنے کی تربیت دی جائے۔
اگر ہم کسی امر پر بہت زیادہ دل گرفتہ ہیں توسب سے پہلے اپنے سے مختلف رائے کو برداشت کرنا سیکھیں اور اگر برداشت نہ کرسکیں تومختللف رائے رکھنے والے پر حملہ کرنے کی بجائے اس سے مکالمہ کریں۔
پاکستان ہم سب کا ہے اور وقت گزرنے کے بعد ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے کچھ بااختیار بڑوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو غدار قرار دے کر کتنی بڑی زیادتی کی تھی، ہمیں اپنی زیادتیوں کے بارے میں وقت گزرنے کے بہت بعد نہیں بلکہ وقت پر سوچنا چاہئے۔
جس طرح نسٹ انتظامیہ نے سوچا، اس طرح بہت ساری دوسری سرکاری اور نجی جامعات کو بھی سوچنا چاہئے کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے پاس محض درسی کتب کے رٹے لگوانے نہیں بلکہ اخلاقی تربیت اور کردار سازی کے لئے بھی بھیجتے ہیں، ان پر خصوصی نظر رکھنے اور ان کے کان بار بار کھینچتے رہنے کی اشد ضرورت ہے۔
نجم ولی خان