جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دراصل کون ہیں؟ ان کی زندگی کے بارے میں وہ باتیں جو پاکستانیوں کو معلوم نہیں

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دراصل کون ہیں؟ ان کی زندگی کے بارے میں وہ باتیں جو ...
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دراصل کون ہیں؟ ان کی زندگی کے بارے میں وہ باتیں جو پاکستانیوں کو معلوم نہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام آباد (ویب ڈیسک) حکومت نے تین سینئر جج صاحبان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیجاتھا جن میں سے ایک بعد میں واپس لے لیاگیا جبکہ سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی سے رابطہ کر کے شکوہ  بھی کیا تھا کہ ذرائع ابلاغ میں آنے والی مختلف خبریں ان کی کردار کشی کا باعث بن رہی ہیں جس سے منصفانہ ٹرائل میں ان کے قانونی حق کو خطرات کا سامنا ہےاور اس سلسلے میں بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ  جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف حالیہ مہم نومبر 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کے خلاف 6 فروری کو دیے گئے فیصلے میں سخت الفاظ استعمال کرنے بعد شروع ہوئی، جس میں انہوں نے وزارت دفاع، پاک فوج، پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے سربراہان کو اپنے ماتحت، ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی تھی، جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور کریم خان آغا کے خلاف دائر ریفرنس پر اٹارنی جنرل کے توسط سے وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کیے تھے اور سسماعت کاآغاز چودہ جون سے ہونے جارہاہے ۔ 

ڈان کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26 اکتوبر 1959 کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد مرحوم قاضی محمد عیسیٰ آف پشین، قیامِ پاکستان کی تحریک کے سرکرداں رکن تھے اور محمد علی جناح کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد صوبے کے پہلے فرد تھے جنہوں نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور لندن سے واپس آکر بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی، ان کے والد بلوچستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے واحد رکن تھے۔معزز جسٹس کی والدہ بیگم سعدیہ عیسیٰ سماجی کارکن تھیں، وہ ہسپتالوں اور دیگر فلاحی تنظیموں کے لیے کام کرتی تھیں، جو بچوں اور خواتین کی تعلیم اور صحت سے متعلق مسائل پر کام کرتی تھیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کراچی گرامر اسکول سے 'O' اور 'A' لیول مکمل کیا، جس کے بعد وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے کورٹ اسکول لاء سے بار پروفیشنل اگزیمینیشن مکمل کیا۔

انہوں نے 30 جنوری 1985 کو بلوچستان ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ اور مارچ 1998 میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے طور پر انرول کروایا۔3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی کے اعلان کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججز کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد اس وقت کے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز نے استعفیٰ دے دیا۔بعد ازاں 5 اگست 2009 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، بلوچستان ہائیکورٹ، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ میں جج مقرر ہونے سے قبل 27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے، وہ اس دوران بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آف پاکستان کے تا دم مرگ رکن رہے۔علاوہ ازیں ا نہیں مختلف مواقع پر ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کی جانب سے متعدد مشکل کیسز میں مدد کے لیے بھی طلب کیا جاتا رہا، اس کے علاوہ وہ انٹر نیشنل آربیٹریشن (قانونی معاملات) کو بھی دیکھتے رہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، وہ ان دنوں اسلام آباد میں اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم ہیں اور ان کے 2 بچے ہیں۔
فیصلے سے قبل اس کے ہر لفظ کو محتاط انداز میں تحریر کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعدد مقدمات میں اہم ریمارکس دیئے، جن میں سے ان کے کچھ اہم فیصلے اور ریمارکس مندرجہ ذیل ہیں۔ان کے مثالی فیصلوں میں میمو گیٹ کمیشن 2012  بھی شامل ہے ،  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کو میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا، میمو گیٹ کیس اس وقت سامنے آیا تھا جب امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی نے مئی 2011 میں امریکا کے ایک اعلیٰ افسر کو متنازع خط تحریر کیا، جس میں پاکستان میں قائم اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت اور پاک فوج کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے بتایا گیا تھا، یہ کیس امریکی نژاد تاجر منظور اعجاز سامنے لائے تھے اور اسی وجہ سے حسین حقانی کو استعفیٰ دینا پڑا تھا۔اسی طرح کوئٹہ کے سول ہسپتال میں 8 اگست کو ہونے والے خود کش دھماکے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے 6 اکتوبر 2016 کو ایک کمیشن تشکیل دیا گیا تھا،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں انکوئری کمیشن نے 56 روز بعد 110 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ پیش کی جس میں 18 تجاویز دی گئی تھیں،کمشین نے متعلقہ افراد، متعلقہ وزارتوں، محکموں اور اداروں کی جانچ پڑتال کے بعد اپنی رپورٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ بغیر کسی تاخیر کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت دہشت گرد تنظیموں پر پابندی لگائی جائے۔اس کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سانحہ کوئٹہ کے مرحومین کے اہل خانہ کے نام تعزیتی پیغامات بھی تحریر کیے تھے۔

آرٹیکل 183 (3) کی تجدید کے معاملے میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  نے بہت سے لوگوں کے ذہن کھول دیئے اور  انہوں نے خیبرپختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کو آئین کے آرٹیکل 184 (3) کو پڑھنے کا کہا تھا، جس کا مقصد تھا کہ یہ جان سکیں کہ آیا آرٹیکل مذکورہ کیس کے حوالے سے کچھ بتاتا ہے کیونکہ اس کیس کی فائل سے متعدد متعلقہ مواد غائب تھا۔

ڈان نیوز کے مطابق انہوں نے ریمارکس دیئے کہ مذکورہ آرٹیکل عدالت عظمیٰ کو ان معاملات میں احکامات دینے کا حق دیتا ہے اگر 'وہ یہ سمجھے کہ یہ عوامی مفاد کے تحت بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہیں، انہوں نے مزید تحریر کیا کہ سپریم کورٹ کو پہلے خود کو اطمینان دلوانا ہوگا کہ دونوں صورتوں میں یہ معاملہ بنیادی حقوق اور عوامی مفاد کا ہے اور یہ بھی کہ یہ معاملہ آرٹیکل 184 (3) کے دائر کار میں آتا ہے'۔اسی طرح فیض آباد دھرنے کےازخود نوٹس کیس کو نمٹاتے ہوئے عدالت نے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں،22 نومبر 2018 کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے اس کیس کے فیصلے کو محفوظ کیا تھا اور 21 نومبر 2017 کو لیے گئے ازخود نوٹس کے تحت جاری سماعت کو اٹارنی جنرل، میڈیا ریگولیٹر اور دیگر  سٹیک ہولڈرز پر شدید تنقید کے بعد بند کردیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق  اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو ہدایت جاری کی تھی کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پھیلانے اور ان کی وکالت کرنے والوں کی نشاندہی کریں جبکہ وزارت دفاع کے توسط سے تمام مسلح افواج کے سربراہان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اپنے ادارے میں موجود ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں جو اپنے حلف کی خلاف ورزی میں ملوث پائے گئے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان ججز میں شامل تھے جنہوں نے 3 نومبر 2017 کی پرویزمشرف کی ایمرجنسی کے بعد پی سی او کے تحت  حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے 3 نومبر 2007 کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیئے جانے کے بعد بلوچستان کے تمام ججز مستعفی ہوگئے تھے اور قاضی فائز عیسیٰ کو براہ راست چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ مقرر کردیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق واضح رہے کہ یہ پٹیشن ایسے وقت میں دائر کی گئی تھی جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو خوش کردیا تھا۔معزز جج نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکن کی جانب سے رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد کی رکنیت معطل کرنے سے متعلق دائر درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ پاناما پیپرز کیس میں شریف خاندان کے لندن میں 4 فلیٹس شامل تھے لیکن سابق وزیراعظم کو متحدہ عرب امارات میں اقامہ رکھنے پر نااہل کیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے دیے جانے والے ان ریمارکس کو سابق وزیراعظم نواز شریف نے ’غیر معمولی‘ پشرفت قرار دیا تھا۔

مزید :

قومی -