کورونا اور ہماری معیشت: ایک سماجی مہم کی تیاری
کورونا کمیٹی برائے کوآرڈینیشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق لیبر مارکیٹ میں کل وقتی بنیادوں پر کام کرنے والے 305 ملین مزدور اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے کورونا وائرس کے باعث عالمی تجارت، ٹور ازم اور غربت پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کام کرنے والی جگہوں کی بندش کے باعث 2.26 ارب کارکن/ مزدور اپنے روزگار کے چھن جانے کے خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔ کورونا وائرس نے جہاں ایک طرف پیداواری سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں وہاں تجارتی سرگرمیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ عالمی تجارت میں تیل بنیادی اہمیت کا حامل ہے اس کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ اس کی قیمت صفر قرار پائی تیل سے بھرے ٹینکر سمندر میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے لیکن ان کا خریدار کوئی نہیں تھا تیل کی عالمی تجارت خطرناک حدود کو چھو چکی ہے دوسری طرف بینکاری نظام جو عالمی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے وہ بھی الٹ پلٹ ہو گیا ہے عالمی بینکاری نظام میں شرح سود، رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی حالت بھی پتلی ہو چکی ہے۔ کئی ممالک نے شرح سود کو صفر کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ معاشی سرگرمی جاری رہ سکے گویا عالمی معیشت کا کوئی بھی شعبہ/ سیکٹر ایسا نہیں جو کورونا کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہا ہو۔ ہم کیونکہ کسی نہ کسی طور عالمی معیشت کا حصہ ہیں چین، امریکہ، برطانیہ جرمنی اور جاپان جیسے ممالک کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات بھی ہیں اس لئے ہماری معیشت کا کورونا سے متاثر ہونا ایک لازمی قرار پاتا ہے۔
پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 1 لاکھ کا ہندسہ عبور کر چکی ہے جبکہ ہلاک شدگان بھی ہزار سے اوپر ہو گئے ہیں متاثرین کی زیادہ تعداد لوکل ہے یعنی انفیکشن کے پھیلاؤ کا باعث لوکل پاپولیشن ہے۔ کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے اس سے متاثرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور مرنے والے بھی آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ابھی تک اس حوالے سے یکسوئی اور یک رنگی نہیں پائی جاتی کہ اس عفریت سے کیسے نمٹنا ہے اس حوالے سے دو آراء بڑی وضاحت کے ساتھ ہیں ایک رائے مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے کورونا سے نمٹنے کی ہے بظاہر یہ بات قرین قیاس بھی ہے کہ لوگوں کو مکمل طور پر گھروں میں بند کر دیا جائے اور اس طرح وائرس کا پھیلاؤ روک دیا جائے۔ کئی ممالک بشمول چین نے ایسا کیا اور کورونا کی وبا کو پھیلنے سے روک دیا۔ ہمارے ہاں بھی ایسا کرنے کے حامی پائے جاتے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن کے ذریعے وبا پر قابو پایا جائے لیکن وہ ایک اہم بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں اشیاء ضرورت کی فراہمی بھی ضروری ہے جن ممالک نے ایسا کیا انہوں نے عوام کو ان کی دہلیز تک اشیاء خورو نوش بھی مہیا کیں لیکن ہمارے لئے ایسا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اس لئے مکمل لاک ڈاؤن ممکن نہیں ہے۔
دوسری رائے سمارٹ لاک ڈاؤن کی ہے یعنی ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ لاک ڈاؤن، روزگار اور کاروبار کو بھی جاری رکھا جائے اور کورونا کے خلاف محاذ آرائی بھی جاری رہے جہاں وبا پھیلے وہاں سخت لاک ڈاؤن، اور جہاں نہ ہو وہاں احتیاطی تدابیر۔ یہ ایک قابل عمل اور میانہ روی کی اپروچ ہے جسے ہماری حکومت نے اختیار کیا ہوا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب خاص و عام اس کی کامیابی کے لئے عملی فضا بھی پیدا کرنے کی کاوشیں کریں۔ ہماری معیشت پہلے ہی کمزور ہے قرضوں کا بوجھ ہے۔ پیداوار کم ہے ٹیکسوں کی آمدنی کم ہے ترقی و تعمیر کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہیں اس پر مستزاد کورونا نے معاملات میں بگاڑ اور بھی زیادہ کر دیا ہے اگرہم سخت لاک ڈاؤن کی طرف جانے پر مجبور ہو گئے تو معاملات اور بھی خراب ہو جائیں گے۔ حکومت معاشی معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جانے سے روکنے کی حتمی کاوشیں کر رہی ہے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ مل جل کر معاملات میں ممکنہ بہتری کی کوششیں کی جا رہی ہیں بجٹ 2020-21ء کو حتی المقدور عوام دوست رکھنے کی کاوشیں جاری ہیں حکومت نے تیل کی عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کو عامتہ الناس تک منتقل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اطلاعات ہیں کہ حکومت مزید کمی کے بارے میں سوچ رہی ہے تاکہ عوام کو اور بھی ریلیف مل سکے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے جبکہ قرض دینے والے عالمی اداروں کا مطالبہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کی جائے لیکن حکومت انہیں بڑھانے کے لئے یکسو ہے۔
بجٹ میں کسی قسم کا نیا ٹیکس نہیں لگایا جا رہا ہے بلکہ کئی پرانے ٹیکسوں میں بھی ریلیف کے بارے میں اطلاعات ہیں۔ یہ سارے عوامل جل کر ایک بہتر اور مثبت لائیہ عمل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں یہ تمام باتیں اسی صورت میں قابل عمل اور نتیجہ خیز ہو نگی اگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کنٹرول میں رکھا جائے حکومتی کاوشوں کے مثبت اور مطلوبہ نتائج کا تعلق ہماری آمادگی پر منحصر ہے یعنی ہم کورونا سے بچنے کے لئے حکومتی تدابیر پر کس قدر عمل در آمد کرتے ہیں۔ سماجی فاصلوں اور ماسک پہننے پر کس قدر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس بارے میں اب ہمیں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ کورونا وائرس ایک عالمی وبا ہے جو انسانوں پر حملہ آور ہو چکی ہے۔ بلاتمیز رنگ و نسل یہ سب انسانوں کو شکار کر رہی ہے اس کا تریاق بھی ہمارے پاس نہیں ہے اس کی دوائی بھی نہیں ہے اس سے بچنے کی صرف اور صرف ایک راہ اور وہ ہے احتیاط سماجی فاصلہ، میل ملاقات سے اجتناب، ماسک لینا وغیرہ وغیرہ بیان کردہ حفاظتی و احتیاطی تدابیر اختیار کر کے ہم اس عفریت سے نمٹ نہیں سکتے بلکہ اس سے بچ سکتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس سے ڈریں، اس سے بچنے کی تدابیر اختیار کریں کیونکہ اگر ہم نے اسے پھیلنے سے نہ روکا تو وبا کے ہاتھوں تو مرنا ہی ہوگا بھوک و افلاس کے ہاتھوں تباہی و بربادی تو یقینی ہی ہو گی اور وہ کس قدر خوفناک ہو گی اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں ایک نئی سماجی و معاشرتی مہم چلانے کے لئے تیار ہونا چاہئے جو کورونا سے بچاؤ کے لئے عوام کو تیار کر سکے۔