وزیراعظم مشکل وقت سے نہ ڈرائیں، اچھے وقت کی نوید سنائیں
فرمایا ہے عزت مآب وزیراعظم عمران خان نے کہ ابھی مشکل وقت آئے گا، ہلاکتوں اور کیسز میں اضافہ ہو گا،اس لئے ”تیار رہنا ساڈے تے نہ رہنا“۔ انہوں نے جولائی، اگست میں کورونا کے حملے تیز ہونے کی روح فرسا خبر بھی سنا دی ہے۔ یہ خبر کس بنیاد پر سنائی ہے، اس کا تو نہیں بتایا، البتہ اسی مدت کے دوران محرم نے بھی آنا ہے اور جس طرح حضرت علیؓ کے یوم وفات پر تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھ دی گئی تھیں، وہ محرم کے دس روز میں بھی رکھی گئیں تو واقعی جولائی اور اگست بہت مشکل مہینے ثابت ہوں گے، جب ملک کا چیف ایگزیکٹو اس طرح بے بسی کا اظہار کرے کہ عوام احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کر رہے، جس سے صورتِ حال بگڑ رہی ہے تو یہ توقع رکھنا کہ کورونا کے حملوں میں کمی آ جائے گی، پرلے درجے کی خوش فہمی ہے۔ جب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستانی عوام میں اتنا شعور ہی نہیں کہ اپنے نفع نقصان کا سوچ سکیں تو اُن سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔
اب تو یہ دِل دہلا دینے والی خبریں آ رہی ہیں کہ ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کو وصول ہی نہیں کیا جا رہا۔وہ حکومتیں اور وہ انتظامیہ جس نے کورونا مریضوں کو ابتدا میں پکڑنے کی پالیسی متعارف کرائی تھی، اب خود ہی دیکھ رہی ہیں کہ کورونا کے مثبت مریضوں کو بھی گھروں میں واپس بھیجا جا رہا ہے۔بری حالت میں لائے جانے والے مرضوں کو صرف مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے،کسی ہسپتال میں وینٹی لیٹر خالی ہے اور اگر ہے بھی تو کسی عام مریض کو نہیں دیا جاتا۔نجی ہسپتالوں نے لوٹنے کی شرمناک مثالیں قائم کی ہیں، کئی کئی لاکھ روپے ابتداء میں جمع کرانے والوں کو داخل کرتے ہیں اور پھر ایک سے دو لاکھ روپے روزانہ وصول کر کے مریضوں کو صرف وینٹی لیٹرز پر لٹا دیتے ہیں، سب کچھ حکومتوں کی عین ناک کے نیچے ہو رہا ہے، مگر مجال ہے کہ کسی نے اس ظلم و لوٹ مار کی طرف توجہ دی ہو۔
جو حالات چل رہے ہیں، انہیں دیکھتے ہوئے تو وزیراعظم کی یہ بات سچ ہوتی نظر آ رہی ہے کہ انتہائی مشکل صورت حال آنے والی ہے، ملک کا وزیراعظم کیا صرف یہ اطلاع دینے کے لئے ہوتا ہے کہ مشکل وقت آنے والا ہے یا اُسے عملی اقدامات بھی اٹھانے چاہئیں۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی باتوں سے لگتا ہے کہ وہ ہمت ہار گئے ہیں،انہوں نے سب کچھ عوام پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ازخود فیصلہ کریں زندہ رہنا چاہتے ہیں یا کورونا کی وجہ سے مرنا چاہتے ہیں، کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ عوام کو صرف وارننگ دے کر بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے۔حکومتوں نے اپنے فیصلے بھی کرنے ہوتے ہیں،ایسے اقدامات بھی اٹھانے ہوتے ہیں،جو عوام کی زندگی بچانے کے لئے ضروری ہیں،حتیٰ کہ ایسے حالات میں بھی کہ جب کوئی خود کشی کرنے پر تلا ہو، حکومت کا کام اسے بچانا ہوتا ہے، جو کچھ ہو چکا اُس سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے،پچھتاوؤں سے بات نہیں بنے گی۔سپریم کورٹ نے ہفتے اور اتوار کو بھی دکانیں کھولنے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس لے لیا ہے، حالانکہ یہ کام پہلے ہی حکومتیں کر چکی ہیں۔
سوال تو یہ پوچھا جا رہا ہے کہ کورونا جیسے اہم مسئلے پر اتنی بے احتیاطی کیوں برتی گئی، ایسے فیصلے کیوں کئے گئے جنہوں نے کورونا کو بڑی تیزی سے پاکستان میں پھیلایا اور ہم ایک لاکھ کا ہندسہ عبور کر کے اگلے لاکھ کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ایک بار پھر مختلف حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے، ملک میں تین ہفتے کے لئے سخت لاک ڈاؤن، بلکہ کرفیو لگا دیا جائے۔ اس مطالبے کو رد کرنا اب اِس لئے آسان نہیں کہ ہم ایک دن میں ایک سو اموات کا قابل ِ ذکر ہدف بھی عبور کر گئے ہیں۔پانچ چھ ہزار مریضوں کا روزانہ پازیٹو ٹیسٹ آنا اب تو ایک معمول کی بات بن کر رہ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ایس او پیز صرف کاغذوں کی حد تک ہیں، عملاً زمین پر کوئی احتیاط نہیں برتی جا رہی،حکومتوں کا اس حوالے سے کوئی پلان سامنے نہیں آیا اور صرف پریس کانفرنسیں کی جا رہی ہیں۔
کیا ہونا چاہئے، کیا کرنا چاہئے، اس کا فیصلہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ نے کرنا ہے،اس حقیقت کو تو وزیراعظم بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ عوام ایس او پیز پر عمل نہیں کر رہے، تو کیا یہ حکومت کی طرف سے آخری بیانیہ ہے، اس کے بعد کورونا جانے یا عوام یا درمیان میں کہیں حکومت بھی آئے گی کہ اس صورتِ حال کو اس طرح نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہاں سب جھوٹ بول کے اپنا کام نکالتے ہیں، کسی کو عوام کی فکر ہے اور نہ اس تلخ حقیقت کا ادراک کہ اُن کی وجہ سے پاکستان پر انتہائی کڑا وقت آ سکتا ہے۔ ہر طبقہ یہ ڈرامہ کرتا ہے کہ اُسے ایس او پیز کے تحت کام کرنے دیا جائے۔ حکومتی احکامات کی مکمل پابندی کی جائے گی،جونہی اجازت ملتی ہے کسی کو یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ اُس نے بعض پابندیوں کے ساتھ کام کرنا ہے۔ حکومت نے دباؤ میں آ کر مارکیٹیں اور بازار کھول دیئے، تاجروں اور دکانداروں نے بڑے بڑے دعوے کئے، ایس او پیز پر مکمل عمل کیا جائے گا، جب تک اجازت نہیں ملی، لجاجت اور منتوں کا سلسلہ جاری رہا، جونہی اجازت ملی، دکانیں اور مارکیٹیں کھلیں، سب یہ بات بھول گئے کہ ملک میں کورونا وائرس پھیلا ہوا ہے، جو آزادانہ بغیر احتیاطوں کے لئے جانے والے میل جول سے بڑھ سکتا ہے۔حکومتیں وارننگ ہی دیتی رہ گئیں، مگر تاجروں اور دکانداروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، دوسرا شعبہ ٹرانسپورٹ کا کھولا گیا، یہاں بھی بڑے بڑے وعدے ہوئے مگر اجازت ملتے ہی یہ شعبہ کورونا کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ بن گیا، کوئی بھی شخص انٹر سٹی ٹرانسپورٹ بسوں کو دیکھ سکتا ہے کہ اُن میں کس طرح مسافروں کو جانوروں کی طرح ٹھونس کر ایس او پیز کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت جب دُنیا سے کورونا آہستہ آہستہ رخصت ہو رہا ہے اور حالاتِ زندگی واپس آ رہے ہیں،ہمارے ہاں کورونا کی گویا شروعات ہوئی ہیں وہ اُس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ خاکم بدہن لوگ اٹلی کی مثالیں دینے لگے ہیں، ہمارے وزیراعظم باتوں باتوں میں اٹلی سے بھی بدتر حالات کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اٹلی والوں کے پاس تو کورونا کے بارے میں معلومات نہیں تھیں،ہم تو ساری دُنیا میں کورونا سے ہونے والی تباہی کے شاہد ہیں،پھر ایکشن کیوں نہیں لیتے، سخت فیصلے کیوں نہیں کرتے، کیا حکومت کا کام صرف اتنا ہی رہ گیا ہے وہ روزانہ کے اعداد و شمار جاری کرے، اسی طرح وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب اعداد و شمار جمع کرنا بھی مشکل ہو جائے۔