سندھ اسمبلی کے 17اراکین بھی کورونا سے متاثر،
اراکین کے ٹیسٹ آغا خان ہسپتال سے کرانے پر تنقید!
ڈائری۔ کراچی۔مبشر میر
کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں بہت تیزی آ رہی ہے، سندھ اسمبلی کے کم و بیش 17ممبران اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق سابق وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے ٹیسٹ بھی مثبت آگئے ہیں۔ سندھ اسمبلی کا اجلاس بھی بہت دھوم سے شروع ہوا، سب سے پہلے یہ خبر اہم تصور کی گئی کہ اراکین سندھ اسمبلی کے اجلاس سے پہلے کورونا ٹیسٹ سرکاری ہسپتالوں سے نہیں کروائے جارہے تھے۔ سندھ حکومت کے اسی فیصلے نے محکمہ صحت سندھ کی کارکردگی کا جنازہ نکال دیا، عوام بھی حیرت زدہ رہ گئے کہ اگر اراکین سندھ اسمبلی کا ٹیسٹ پرائیویٹ ہسپتال (آغا خان) سے ہورہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سندھ حکومت اپنے کسی سرکاری ہسپتال پر اعتماد نہیں رکھتی۔ اس سے اُن تمام دعووں کی قلعی کھل گئی جو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کرتے چلے آرہے تھے کہ اگر کسی کو اچھا علاج کروانا ہے تو سندھ آئے۔
کو رونا کے مریضوں کی تعداد ملک بھر میں ایک لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے۔ دوہزار سے زائد کا انتقال ہوا ہے اور تیس ہزار سے زا ئد لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں، گویا جاں بحق ہونے والوں کی شرح دو فیصد ہے۔ لیکن بیماری کا خوف سو فیصد سے بھی زیادہ پھیل چکا ہے۔ اور عوام کا سرکار اور سرکاری ہسپتالوں سے اعتماد بھی ختم ہوچکا ہے۔ مریضوں کے لواحقین کے کتنے ہی ویڈیو وائرل ہوچکے ہیں جن میں وہ فریاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے پیاروں کو زبردستی کو رونا کا مریض قرار دیا گیا ہے حتی کہ دوسری بیماریوں سے مرنے والے کئی افراد کے لواحقین بھی ایسی دوہائی دے چکے ہیں کہ ان کے مرض کی وجہ کورونا نہیں۔
اگر ان واقعات میں صداقت ہے تو وفاق اور صوبائی حکومتیں اس کی وضاحت اور تحقیق کیلئے کیوں تیار نہیں، سرکاری ہسپتالوں پر تو حکومتی افراد کا اعتماد نہیں، عوام کا کیسے ہوسکتا ہے؟ لوگ معمولی بیماری کے علاج کیلئے بھی سرکاری ہسپتال کا رخ کرنے سے گھبرارہے ہیں۔ جبکہ ریاست اور شہری کا رشتہ اس صورتحال میں کمزور ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ شہری کا اعتماد بحال رکھنا بہت ضروری ہے، ورنہ دیگر اداروں سے بھی اعتماد اٹھ جائے گا۔
پی آئی اے کے طیارے حادثے کی تحقیقات فرانسیسی ٹیم نے مکمل کرلی ہے۔ باخبر ذرائع اور اطلاعات کے مطابق کسی فنی خرابی کی نشاندہی نہیں ہوئی، پاکستانی ٹیم بھی فرانس سے واپس آچکی ہے۔ رپورٹ چند ایک دن میں باقاعدہ منظر عام پر آجائے گی اس لحاظ سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ پائلٹ کی علطی کو ہی حتمی قرار دیا جائے گا۔
لیاری کے علاقے میں بلڈنگ گرنے سے چھ افراد کی ہلاکت ہوئی ہے، کراچی شہر میں بلڈنگز گرنے کے واقعات بڑھنا شروع ہوچکے ہیں، اس حوالے سے سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ایس بی سی اے میں سیاسی دراندازی کا نقصان اب عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بالآخر نیب راولپنڈی پہنچ کر اپنا بیان قلمبند کروایا، اب ان کو 28سوالات دے دیئے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کا موقف ہے کہ روشن سندھ پروجیکٹ کا کام مکمل شفافیت سے کیا گیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ اس صورتحال کا کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔
ایک صورت جو فوری دکھائی دے رہی ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ کانفرنس بھی آن لائن ہی بلائی جائے۔ اس وقت امریکی صحافی سنتھیا ڈی رچی کے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر الزامات، کرپشن کے مقدمات میں تیزی، کورونا میں سندھ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشانات، یہ تمام صورتحال پارٹی کو پریشر میں لاچکی ہے۔ پیپلز پارٹی بظاہر اس کانفرنس کا ایجنڈا 18ویں ترمیم رکھنے کا اعلان کررہی ہے لیکن دیگر محرکات بھی اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن نے بھی کورونا بحران کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو خوب زیربحث رکھا ہے۔
حکومت آئندہ بجٹ میں بھی پارٹیوں کی حمایت کی طلبگار ہے۔ جبکہ اسٹیل ملز سے ملازمین کو نکالنے کے اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کو پارٹی کے اندر سے بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ کیونکہ اسٹیل ملز میں سی بی اے کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل رہی ہے۔
باخبرذرائع سے انکشاف ہوا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے کے بعد سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کو کورونا بحران کی وجہ سے فوری کروانے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اگر ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیے گئے تو ممکن ہے کہ الیکشن ایک سال کیلئے تاخیر کا شکار ہوجائیں۔ اگر نیک نیتی ہو تو الیکشن کروانے کا راستہ بھی نکالا جاسکتا ہے۔
اس وقت سندھ حکومت کو جو چیلنج درپیش ہیں، وہ کورونا کے مریضوں کے لیے قابل اعتماد صورتحال پیدا کرنا ہے۔ اس وقت بتایا جارہا ہے کہ ہسپتالوں میں جگہ نہیں، لیکن ہوٹل، کلب اور آفیسرز میس (Officer's Mess) خالی پڑے ہوئے ہیں، حکومت کو سوچنا چاہیے کہ ان کا استعمال بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے، دنیا کے کئی ممالک میں ہوٹلز کو مریضوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
عوام کی صورتحال معاشی طور پر بہت خراب ہوچکی ہے۔ بیروزگاری دن بدن بڑھتی جارہی ہے، انڈسٹری اپنی پوری گنجائش کے مطابق چلانا ممکن نہیں ہورہا۔ میڈیا انڈسٹری بہت ز یادہ بحرانی کیفیت میں ہے، صحافی خواتین و حضرات بہت زیادہ مسائل کا شکار ہورہے ہیں، اسٹیل ملز سے ملازمین کے گولڈن ہینڈ شیک کے اعلان کے بعد سات ہزار سے زائد لوگ بیروزگار ہوجائیں گے۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے بیان دیا ہے کہ صوبائی حکومت اسٹیل ملز چلانے کے لیے تیار ہے۔ وفاقی کی طرف سے ایسی پیشکشیں مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں دی گئی تھی اس وقت حکومت سندھ نے انکار کردیا تھا۔ اب جبکہ دیگر ادارے چلانے میں دشواری ہورہی ہے تو ایسے کارخانے کو کیسے چلایا جائے گا، حکومت سندھ کے پاس اس وقت کوئی اپنا صنعتی یونٹ نہیں جو چلایا جارہا ہو، لہذا ایک سیاسی بیان داغ دیا گیا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو پر ایک فلم بننے کی بات ہورہی ہے اس کا دعویٰ فلمسٹار مہوش حیات نے کیا ہے جو محترمہ بینظیر بھٹو کا کردار ادا کررہی ہیں۔ انہو ں نے دعویٰ کیا ہے کہ فلم پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ابھی تک صرف فلم کی ہیروئن کا ذکر ہورہا ہے جبکہ فلم کا نام، رجسٹریشن اور دیگر تیکنیکی ٹیم کا کہیں ذکر سامنے نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع سے بھی اس کی تصدیق نہیں ہوئی، اگر یہ فلم بنی تو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے حوالے سے ایک منفرد پروڈکشن ہوگی۔