علامہ اقبال کی تعلیمات سماجی بیماریوں سے نجات کا ذریعہ، عظمیٰ قریشی
ملتان (سٹی رپورٹر)ویمن یونیورسٹی ملتان میں ”فکراقبال سیمینار“ کا انعقاد کیا گیا جس کی مہمان خصوصی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرعظمی ٰ قریشی تھیں سیمینار کا عنوان اقبال(بقیہ نمبر30صفحہ6پر)
کا تصور خودی اوردو قومی نظریہ عصر حاضر کے تناظر میں“ میں تھا وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال کی تعلیمات کسی ایک خاص وقت، کسی خاص علاقے یا کسی خاص رنگ ونسل کے لیے مخصوص نہیں ہیں۔ اقبال ہر دور کے شاعر ہیں۔ ان کے افکار اور ان کی تعلیمات کا ایک جاندار پہلو یہ بھی ہے کہ وہ فرد کی درست سمت میں رہنمائی اور اس کی اخلاقی و روحانی تشکیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ یہی انفرادی تربیت ان کے نزدیک اجتماعی تربیت کا باعث بنتی ہے۔ قوم، ملک یا معاشرہ افراد سے مل کر تعمیر پاتا ہے اور اگر فرداً فرداً قوم کے ہر شخص کی باطنی و اخلاقی تربیت عمدہ طور پر ہوگی تو آخر کار اس انفرادی تربیت کے اثرات اجتماعی شکل میں ظاہر ہونگے اور اس سے ایک مثالی معاشرہ تشکیل پائے گا۔یہی اقبال کے خودی اور بے خودی کے نظریات ہیں۔ ان کے نظریات حصولِ پاکستان کی ایک وجہ ضرور ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اقبال کے خوابوں کے مطابق ایک الگ مسلم خطے کے قیام سے ان کی تعلیمات کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ تعلیماتِ اقبال کی کل بھی ضرورت تھی جب امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا اور آج بھی ضرورت ہے جب اس امتِ کو سازشوں کے عمیق ترین سائے گھیرے ہوئے ہیں، ماہر اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر محمد آصٖف کا کہنا تھا کہ اقبال کا تصور خودی عام آدمی کیلئے ہے کہ وہ اپنی صلاحتیوں کو پہنچانے اور اسے اپنے معاشرے اور لوگوں کی بہتری کیلئے استعمال کرے، اقبال نے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے خودی کا نظریہ پیش کیا یہ عام زندگی سے ماورا نظریہ نہیں ہے جیسے کے آج اس کو بنا کرپیش کی جاتا ہے اس لئے وہ معیشت، سماج، مذہب اور زندگی کے تمام عوامل کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں آج فکر اقبال کی زیادہ ضرورت اس لئے ہے کہ آج کا انسان خوف کا شکار ہے اس کو دہشت گردی، مختلف بیماریوں، سماجی مسائل نے گھیرا ہوا ہے تصور خودی اسی کا نام ہے کہ ایسے ماحول میں انسان خود کو پہچانے اور ان مسائل سے نبردآزما ہودیگر مقررین پروفیسر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر راشد حمید،ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، اور پروفیسر ڈاکٹرصائمہ ارم نے کہا کہ اب اگرعہدِ حاضر میں اقبال کے افکار کا مطالعہ کیا جائے اور ان کے لاشعور میں نہاں اس امر کا ادراک کیا جائے کہ اقبال ایک مثالی معاشرہ اور ایک مثالی انسان کے لیے اپنی تمام تر تعلیمات و افکار کا اظہار کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عہدِ حاضر میں تو شاید اقبال کا خواب ٹوٹ کر بکھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے انسان کامل تو شاید کہیں خال خال ڈھونڈنے سے نظر آ بھی جائیں مگر وہ مثالی معاشرہ تو محض اس لیے قائم نہیں ہو سکتا کہ ان کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مغرب کی جس یلغار کے خلاف اقبال تمام عمر کمر بستہ رہے آج وہ یلغار ہمیں خس و خاک کی طرح بہائے لے جا رہی ہے۔دین سے دوری، خالصتاًملایت کا فروغ،فرقہ پرستی سمیت مختلف عناصر نے شاید اقبال کے خواب کو چکنا چور کرنے کے قریب کر دیا ہے۔آج کا دور کمپیوٹر، ٹیکنالوجی اور سائنس کا دور ہے، مادی طور پر انسان ترقی کی کئی منازل طے کر چکا ہے،دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رسائی حاصل کر چکا ہے، اس کی قوت ِ تسخیر محض زمین تک محدود نہیں ہے بلکہ ستاروں اور سیاروں پر بھی اپنی کمندیں ڈال چکا ہے، علم کے شعبہ جات اور برانچیں وسعتوں کے باعث تقسیم در تقسیم ہو چکی ہیں، تحقیق کے شعبہ میں قابل قدر کارنامے انجام دیئے جا چکے ہیں، ایجادات کے شعبہ میں دنیا نت نئے اقدامات اور منازل طے کر رہی ہے۔ مادی طور پر انسان بہت مضبوط اور مستحکم ہو چکا ہے لیکن اخلاقی طور پر اسی قدر پست اور کمزور ہوتا جا رہا ہے، مادی ترقی کے باوجود عقلی اور اخلاقی طور پر آج کے انسان میں نہ تو عصبیت اور تعصب کے جراثیم ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی اس کی عقلی حدود نے دوسرے انسانوں کو کم تر کرنے، کمزور کرنے اور شکست سے دوچار کرنے میں کوئی کمی کی ہے، اقبال مغرب کی جس تقلید اور اندھی پیروی سے روک رہے تھے آج اسی نے اس خطہ کے مسلمانوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اقبال کے نزدیک روحانیت ہی بقائے انسانی کا واحد ذریعہ ہے اس لئے ہمیں اقبال کے افکار سے استفادہ کرنا چاہیے، سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نائلہ امتیاز نے کہا کہ ڈاکٹر علامہ اقبال مسلمانوں کے اتحاد کے عظیم مبلغ تھے اور ان کی رہنمائی کی روشنی میں امت مسلمہ کو خود کو متحد رکھنا چاہئے۔ سیمینار کی آرگنائزر پروفیسر نائلہ امتیاز، یاسمین یاسین، عائشہ خان ڈاکٹر شاہدہ رسول، ڈاکٹر عذرا لیاقت اور سمیرا محبوب تھیں۔
عظمی قریشی