غربت، عوام کو ریلیف نہ ملا تو حالات بگڑنے کا خدشہ، ردعمل
ملتان ( نیوز رپورٹر ) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم کے صدرمیاں زاہد حسین اور دیگر شہریوں نے کہا ہے (بقیہ نمبر55صفحہ7پر)
کہ چائے صرف ایک مشروب ہی نہیں ہے بلکہ غربت کی وجہ سے بہت سے لوگ اب چائے کے ساتھ پاپا اور روٹی کھاتے ہیں اس لئے اسے سستا کیا جائے۔ آمدہ بجٹ میں چائے کو فوڈ آئٹم کا درجہ دیا جائے اوراس پرعائد ٹیکس کم کئے جائیں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چائے کی مقامی پیداوار میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں چائے کی کھپت بڑھ رہی ہے اوردرآمدات کے ساتھ اسمگلنگ میں اضافہ بھی جاری ہے۔ پاکستان میں سالانہ تقریبا دو لاکھ ٹن چائے استعمال کی جا رہی ہے جبکہ اس کی امپورٹ پر 53 فیصد ڈائریکٹ اوران ڈائریکٹ ٹیکس عائد ہیں جنہیں کم کیا جائے کیونکہ ٹیکسوں کی بھرمار سے اسمگلنگ کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ چائے پرملک بھرمیں ساڑھے پانچ فیصد کے بجائے دوفیصد دوھولڈنگ ٹیکس عائد کیا جائے۔ سابقہ فاٹا پاٹا اورآزاد کشمیر میں ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح زیرو ہونے کی وجہ سے بعض عناصر ٹیکس میں چھوٹ کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں جس سے جائز کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ ملک بھرمیں یکساں ٹیکس نافذ کرنے سے نہ صرف دستاویزی تجارت بڑھے گی بلکہ حکومت کے محاصل میں بھی اضافہ ہو گا، اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہو گی اور یہ شعبہ ترقی کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ سال رواں کے ابتدائی نو ماہ میں چائے کی درآمد میں پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال اس دوران 376 ملین ڈالرکی چائے درآمد کی گئی تھی جبکہ امسال 435 ملین ڈالرکی چائے درآمد کی گئی ہے۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ چائے کی مقامی پیداوارمیں اضافہ کے لئے بھرپور کوششیں کی جائیں اور دوست ملک چین کے تجربات سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے جواگلے چند برس میں دنیا کے سب سے بڑے برآمدکنندہ کینیا سے زیادہ پیداوار کا ارادہ رکھتا ہے۔ چائے کی کھپت میں سالانہ 2.2 فیصد اضافہ ہو رہا ہے اور 2027 تک چائے کی عالمی پیداوار چوالیس لاکھ ٹن تک پہنچ جائے گی اور اگر بروقت اقدامات کئے گئے تو پاکستان بھی اس سلسلہ میں گرانقدر ترقی کرسکتا ہے۔
میاں زاہد حسین