ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے? وجہ سامنے آگئی
اسلام آباد (ویب ڈیسک) ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کی بنیادی وجہ پاور سیکٹر کو آر ایل این جی سپلائی میں کمی ہے۔ بجلی کی مجموعی کمی 6500 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے،اس حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاور تابش گوہر نے سوالات کے جواب نہیں دیئے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق ملک میں 29 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے باوجود بجلی کی کمی 6500 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے، جس کی بنیادی وجہ پاور ہاوسز کو آر ایل این جی کی کم فراہمی ہے جس کے نتیجے میں اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے تک پہنچ چکا ہے۔ اعلیٰ حکام نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ گزشتہ چھ روز میں تربیلا ڈیم میں ٹربائنز کی مرمت کی وجہ سے بھی 3300میگاواٹ کم بجلی پیدا ہوئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب بالخصوص ڈی آئی خان میں بھی شدید لوڈشیڈنگ ہوئی جبکہ حکومت نے بھی اپنے پرانے جینکوز بند کردیئے اور صرف 747 گڈو اور 450 میگاواٹ کے دیگر پاور پلانٹ چلائے جس سے بھی صورت حال خراب ہوئی۔ حکومت 1500 میگاواٹ بجلی کے خسارے کو تسلیم کررہی ہے۔ اگر اسے 5500 میگاواٹ کی آمدنی کی بنیاد پر لوڈشیڈنگ کے ساتھ ملایا جائے تو بجلی کا مجموعی خسارہ 6500 میگاواٹ ہوجائے گا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاور تابش گوہر سے جب اس متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب نہیں دیا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اگر 800 میگاواٹ کا خسارہ ہو تو ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ ایک گھنٹے کی ہوگی۔ چوں کہ خسارہ 6500 میگاواٹ ہے لہٰذا ملک بھر میں لوڈشیڈنگ 7-8 گھنٹے کی ہونی چاہیئے۔ البتہ لوڈشیڈنگ پورے ملک میں نہیں ہورہی اس لیے خیبر پختون خوا، سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 4-20 گھنٹے کا ہے۔ پشاور میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 6-10 گھنٹے، اندرون سندھ میں 4-14 گھنٹے، بلوچستان میں 22 گھنٹے، فاٹا میں 18 گھنٹے، ڈی آئی خان میں 8-12 گھنٹے ہے۔ لاہور میں بھی گزشتہ شب 3-4 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوئی۔
پاور ڈویژن کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کو 650 ایم ایم سی ایف ڈی کم آر ایل آین جی فراہم کی جارہی ہے۔ 3600 میگاواٹ کے تین آر ایل این جی پاور پلانٹس جن کی صلاحیت 60 فیصد سے زائد ہے، ان کی صلاحیت سے مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھایا جارہا، جب کہ ایف او پر چلنے والے پلانٹس کے لیے فرنس آئل کا انتظام نہیں کیا جارہا۔ وزارت توانائی کا کہنا تھا کہ بجلی کی طلب 24100 میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے، جب کہ بجلی کی پیداوار 22600 میگاواٹ ہے، یعنی 1500 میگاواٹ کا خسارہ ہے۔
شہباز شریف نے بھی اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ بجلی کی طلب 25000 میگاواٹ ہے، جب کہ آج مجموعی طور پر 16000 میگاواٹ بجلی فراہم کی گئی۔ ہم نے 2018 میں 27000 میگاواٹ بجلی کم قیمت میں بنائی اور فراہم کی تھی۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب بجلی اور اس کی ٹرانسمیشن صلاحیت مکمل ہے تو پھر اتنے بڑے پیمانے پر لوڈشیڈنگ کیوں ہورہی ہے؟
جب کہ وزیر توانائی حماد اظہر نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں میں اوسطاً 1000 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا رہا۔ جس کی وجہ اہم ہائڈل پلانٹ کی مرمت اور کچھ تھرمل پلانٹس میں خرابی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ تربیلا 4-6 روز میں ٹھیک ہوجائے گا جس سے 3000 میگاواٹ سسٹم میں آئے گی اور متبادل پلانٹس سے 1100 میگاواٹ بجلی کے حصول کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تاہم، آزاد ماہرین نے سوال اٹھائے کہ حکومت نے جون میں طلب کا درست اندازہ کیوں نہیں لگایا اور پاور ڈویژن نے مرمتی کام مکمل کیوں نہیں کیے تھے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ہمیں کہتی تھی کہ ن لیگ نے ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کی۔ رواں برس پی ٹی آئی نے سب سے مہنگی ایل این جی خریدی اور سب سے مہنگی بجلی ڈیزل سے پیدا کی اور اربوں روپے کا گردشی قرضہ بڑھایا۔ اب پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کی کمی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ جھوٹ بولیں تو کم از کم مستقل مزاجی سے جھوٹ بولیں۔