پانچ فیصد تنخواہیں اور پنشن بڑھانے کا مذاق نہ کیا جائے
اتحادی جماعتوں کی حکومت کو آئی ایم ایف اور عمران خان کے دباؤ کا سامنا ہے، حکمران جماعت کا میڈیا سیل اور اتحادی عمران خان کی ذاتی کرپشن سامنے لانے کی بجائے عمران خان کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سبسڈی کو بنیاد بنا کر پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ ملکی معیشت کی تباہی کی اصل وجہ عمران خان کا عوام کو ریلیف دینا تھا، کرپٹ، نااہل اور پتہ نہیں کیا کیا، عمران خان اب چلا گیا اب اگر صرف مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو ہی آگے کر لیں یا پیپلزپارٹی کے منشور کے سالہا سال سے چلنے والے فقرے روٹی،کپڑا اور مکان کو لے لیں اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے اسلام نفاذ کے دیرینہ مطالبات کو سامنے رکھ لیا جائے تو عوام کی حالت زار زیر بحث آنی چاہئے،ہو کیا رہا ہے عمران خان کے ریلیف کی سزا ایک ہفتے میں دو دفعہ 30،30روپے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد عوام سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی غلط خبر کی پٹرول 237 روپے ہو رہا ہے،پٹرول پمپوں پر لمبی قطاریں لگائے کھڑے ہیں۔ایک ہفتے میں گھی،آٹا اور گیس،بجلی کی قیمتوں نے روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا ہے۔عمران خان کے جانے کی دن رات دعائیں کرنے والے بھی شرمندہ شرمندہ نظر آ رہے ہیں۔وزیراعظم میاں شہباز شریف ایوان وزیراعظم میں پہنچنے کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے انہی چند ہسپتالوں اور اداروں کا دورہ کر رہے ہیں جن کا بطور وزیراعلیٰ کرتے رہے ہیں۔
پنجاب بالعموم اور لاہور میں بالخصوص جتنی دکانیں اتنے ریٹس کا نظام گزشتہ حکومت کی طرح اب بھی نافذہے۔گورننس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔سدا بہار چھٹیوں میں موجود عوام کو ریلیف ہفتے کی چھٹی کی بحالی،جمعتہ المبارک کی آدھی چھٹی اور اتوار کو فری فیول ڈے اور ساڑھے آٹھ بجے دوکانیں بند کرنے کو قرار دیا جا رہا ہے۔فیول میں 40 فیصد کٹوتی، سرکاری بھرتیوں پر پابندی اور سرکاری دفاتر میں لنچ اور ڈنر پر پابندی، بیرون ملک میں علاج پر پابندی، مارکیٹوں کی جلد بندش کی تجویز کو کفایت شعاری کا نام دیا گیا ہے،فیول بچاؤ مہم کا ملکی معیشت پر کتنا اثر پڑے گا۔ میرا دوست اسے سنگین مذاق قرار دے رہا تھا۔ پروٹوکول کی درجنوں گاڑیاں رواں دواں ہیں، سادگی کا نعرہ موجود عملاً کچھ نہیں ہو رہا۔ ایک دوست نے تحریر بھیجی ہے واپڈا کے 48ہزار آفیسر،ایک لاکھ پانچ ہزار ملازمین سالانہ39کروڑ10لاکھ فری یونٹ اور پانچ ارب25 کروڑ روپے کی سالانہ فری بجلی استعمال کرتے ہیں، لائن لائسز عوام اٹھا رہی ہے۔ سوال اٹھتا ہے واپڈا ملازمین تنخواہیں نہیں لیتے۔ بیرون ملک علاج پر پابندی سے عام عوام کوکیا ملے گا۔سرکاری افسروں کے40فیصد پٹرول کٹوتی ڈرامے کا غریب عوام پر کیا اثر ہو گا، ہر بات زیر بحث لائی جا سکتی ہے۔آج کی نشست میں عوام کی حالت زار جو میرا قلم لکھنے سے عاری ہے جینا دوبھر ہونا فقرہ بھی ادھورا ہے۔ عوام کی کسمپرسی بالعموم اور سرکاری اور نجی اداروں ملازمین کی حالت زار بالخصوص بہت زیادہ ابتر ہو چکی ہے۔میں نے ذاتی طور پر جب سنا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں پانچ فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے میں سر پکڑے بیٹھا ہوں، مہنگائی دو سو پانچ فیصد ہو چکی ہے، یوٹیلٹی بلز اڑھائی سو فیصد بڑھ چکے ہیں اور غریب تو غریب متوسط طبقے کی سفید پوشی کا بھرم دم توڑ چکا ہے اور ووٹ کو عزت اس انداز سے مل رہی ہے۔
حکومت کا ایک ذمہ دار حلقہ پانچ فیصد تنخواہوں میں اضافے کا جواز تلاش کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط آڑے آ رہی ہیں اگر تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا تو اس کے برابر ٹیکس لگانا پڑیں گے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پانچ فیصد مستقل اضافے کی بجائے ایڈہاک ریلیف کا نیا فارمولا نکال لیا گیا ہے۔ دلچسپ معلومات میں ایک سے16گریڈ ملازمین کی تنخواہوں میں پانچ فیصد اضافے سے انہیں 650روپے ماہانہ کا ریلیف ملے گا۔گریڈ17 سے گریڈ22 کے افسروں کو2ہزار روپے ماہانہ کا ریلیف ملے گا،سروس رولز کے تحت ہر تین سال بعد تنخواہوں کے پے سکیل میں نظرثانی لازمی ہونا ہوتی ہے۔اندھیر نگری ہمارے وطن عزیز میں پانچ سال سے پے سکیل پر نظرثانی نہیں ہو سکی ہے۔ پانچ فیصد اضافے کی تجویز بجٹ بنانے والے ملازمین نے افشا کر دی ہے۔ معلوم ہوا ہے بجٹ سازی میں شامل ملازمین نے بھی بجٹ کے روز اسمبلی کے باہر احتجاج اور دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاق سمیت چاروں صوبوں کے ملازمین بھی سراپا احتجاج ہیں،اداروں کو ٹھیک کرنے کے دعوے من پسند افراد کو سربراہ بنانے اور گزشتہ حکومت کے لگائے گئے افسروں کو ہٹا کر اپنے لگانے کو سمجھا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی کسمپرسی اور ریٹائر ملازمین کی حالت زار اور ای او بی کے ریٹائرڈ ملازمین کو ملنے والے 8500 روپے کو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔لمحہ فکریہ ہے اندھیر نگری کا نظام سرکاری اداروں میں ہی نہیں ہے،
نجی اداروں میں بھی ایسے ہی چل رہا ہے، مزدور کی25 ہزار تنخواہ کرنے کا اعلان آج تک سیاست کی نظر ہو رہا ہے ہر شاخ پر اُلو بیٹھا والی بات ہے۔ کس سے انصاف طلب کیا جائے، ججوں کی تنخواہیں، مراعات، بیورو کریٹ کی تنخواہیں، مراعات اور ان کی رہائش گاہیں اور ان کی مفت بری کے قصے آج کل سوشل میڈیا پر عام ہیں۔ سب کچھ ہو رہا ہے، عوام ہر چیز دیکھ رہی ہے،افسوس کے بیدار نہیں ہو رہی،انہی کے ہاتھوں پٹ رہی ہے، ذلیل ہو رہی ہے،خود کشیاں کر رہی ہے، دھڑے بندی، برادری تعلق چھوڑنے کے لئے تیار نہیں،40 سال اقتدار کے مزے لینے والوں کا مقابلہ ساڑھے تین سال حکومت کرنے والوں کے ساتھ جاری ہے،عوام اس سے بھی خوش ہیں کھاتے ہیں تو لگاتے بھی تو ہیں،اس کے ساتھ انہیں تحریک انصاف کے جانے والوں کی خوشی اس لئے بھی ہے اب کرپشن کرنے والے ان کے اپنے پسندیدہ ہیں۔ ملک دیوالیہ ہو جائے، اربوں روپے باہر منتقل ہو جائیں، ان کو کوئی فکر نہیں ہے۔وزیراعظم میاں شہباز شریف سے درخواست کرنی ہے، غریب سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین کا مقدمہ پیش کرنا ہے، حالات خراب ہو رہے ہیں، دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں،مہنگائی کے تناسب سے نہیں تو کم از کم 40فصد تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔آئی ایم ایف کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں عملاً ریلیف دینے کی ر اہ نکالی جائے۔عوام ہو گی تو آپ کا اقتدار ہوگا اگر عوام ہی ایک ایک کر کے مر جائے گی تو کہاں کرو گے حکومت، کون دے گا انہیں انصاف۔