استحکام پاکستان پارٹی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما جہانگیرخان ترین نے نئی سیاسی جماعت ”استحکام پاکستان پارٹی“ کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے۔ لاہور کے ایک نجی ہوٹل میں نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں عبدالعلیم خان پیش پیش تھے، اِن کے ساتھ سینئر سیاستدان اسحاق خان خاکوانی، سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس، سابق وفاقی وزراء عامر کیانی، علی زیدی، فواد چوہدری اور جی جی جمال، سابق صوبائی وزراء ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، نعمان لنگڑیال، سعید اکبر نوانی، مراد راس، سعید الحسن شاہ اور فیاض الحسن چوہان کے علاوہ محمود مولوی سمیت 120 سے زائد سابق اراکینِ اسمبلی اور تحریک انصاف کے سرکردہ سابقین موجود تھے۔ اِس موقع پر جہانگیر ترین نے کہا کہ نئی سیاسی جماعت بنانے کا مقصد ملک کو سیاسی اور معاشی گرداب سے نکال کر پاکستانی عوام کو مضبوط بنانا ہے، معاشی ترقی کیلئے اب اْن کی جماعت اصلاحات لائے گی، پی ٹی آئی ناکام ہو چکی ہے، 9 مئی کے واقعات نے ملکی سیاست بدل کر رکھ دی ہے، اِس واقعے میں ملوث عناصر، منصوبہ ساز اور سہولت کار کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں، حالات کی بہتری کیلئے شرپسندوں کو مثالی سزائیں دینا ہوں گی تاکہ کوئی آئندہ ایسا کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے، وہ پْراْمید ہیں کہ آئندہ انتخابات میں اْن کی جماعت کامیابی حاصل کرے گی اور وہ اپنے مینڈیٹ کے ذریعے ملک میں معاشی انقلاب لائیں گے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی کو سیاسی قوت بنانے کیلئے دن رات محنت کی اور اِس بات کو یقینی بنایا تھا کہ وہ جب بھی انتخابات جیتے تو ملک میں اصلاحات کرے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، حالات بدتر ہونے لگے اور مایوسی پھیلنا شروع ہوگئی۔سابق صوبائی وزیرعبدالعلیم خان نے کہا کہ اْن سب کا مقصد ایسا پاکستان بنانا ہے جس میں پارلیمنٹ، سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ عدلیہ اور عوام ایک صفحے پر ہوں۔
استحکام پاکستان پارٹی کا پرچم تین رنگوں پر مشتمل ہو گا جن میں سبز رنگ نمایاں ہو گا جبکہ سفید اور سرخ رنگ کے ساتھ پرچم میں چاند ستارہ بھی ہو گا۔ پارٹی کا اعلان تو کر دیا گیا ہے تاہم اِس کا منشور ابھی پیش نہیں کیا جا سکا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پارٹی منشور آئندہ چند روز میں مکمل کر لیا جائے گا اور اِس ضمن میں اسحاق خاکوانی،عبدالعلیم خان، عون چودھری اور بعض دوسرے ارکان پرمشتمل ورکنگ گروپ کام کررہا ہے۔ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ جہانگیر ترین چونکہ انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نااہل قرار دیئے جا چکے ہیں اِس لیے وہ سرپرست اعلیٰ ہوں گے جبکہ صدارت علیم خان کے حصے میں آئے گی لیکن تقریب میں کسی عہدے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ عون چوہدری نے اِس معاملے پر ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ پارٹی منشور کے ساتھ ساتھ پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی چند دنوں میں سامنے آ جائے گا۔ سوشل میڈیا پر پارٹی میں شامل ہونے والے افراد کے حوالے سے بحث چلتی رہی،فواد چوہدری کے سٹیج پر نہ بیٹھنے اور منہ چھپانے کی ویڈیوز وائرل ہوگئیں، ٹوئٹر پر بھی فواد چوہدری ٹاپ ٹرینڈ بنے رہے جس پر عون چوہدری نے کہا کہ اْنہوں نے کسی کو چہرہ چھپاتے ہوئے نہیں دیکھا، فواد چوہدری عنقریب سامنے آ کر بات کریں گے، چہرہ چھپانے والی کوئی بات نہیں بلکہ چند روز میں تو خیبرپختونخوا سے بھی کئی لوگ اْن کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔
جہانگیر ترین کی پارٹی پی ٹی آئی کے منحرفین پر مشتمل ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے نزدیک استحکام پاکستان میں شامل ہونے والے زیادہ تر لوگ مسافر ہیں۔ دوسری طرف پی ٹی آئی رہنما حامد خان کے مطابق پارٹی چھوڑ کر جانے والے نقصان میں رہیں گے کیونکہ زیادہ تر کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ووٹر بھی اِنہیں ووٹ دینے کو تیار نہیں ہو گا۔ویسے تو استحکام پاکستان میں کئی ایسی سیاسی شخصیات شامل ہیں جنہیں عرف عام میں ”الیکٹیبلز“ کہا جاتا ہے، کئی ایک کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اْنہیں جہانگیر ترین ہی تحریک انصاف میں لائے تھے اور اب یہ اُن ہی کی نئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ الیکٹیبلز کی موجودگی سے اِس جماعت کو فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن گزشتہ چند ضمنی انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے تو اِس بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ گزشتہ سال جولائی میں پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے ڈی سیٹ ہونے سے خالی ہونے والی پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کا نتیجہ حیران کن تھا، ن لیگ نے وعدے کے مطابق پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دیے تاہم پنجاب کے 14 اضلاع میں ہونے والے اِن انتخابات میں پی ٹی آئی نے 15 نشستیں دوبارہ جیت لیں جبکہ مسلم لیگ ن صرف چار نشستوں پر کامیاب ہوسکی جبکہ لودھراں کی نشست پر آزاد امیدوار جیت گئے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف اِس وقت مشکل میں ہے، اہم پارٹی رہنماؤں اور عہدیداروں کے الگ ہو جانے کے باعث اْس کا تنظیمی ڈھانچہ ہل چکا ہے، چیئرمین عمران خان سمیت کئی رہنماؤں اور فعال کارکنوں کو مقدمات کا سامنا ہے جبکہ سینکڑوں کارکن قید ہیں یا پھر مفرور ہیں۔ انتخابات میں ابھی چند ماہ کا وقت باقی ہے تاہم موجودہ حالات کے تناظر میں فی الحال پی ٹی آئی کی مشکلات میں کمی ہوتی نظر نہیں آرہی اور ہو سکتا ہے استحکام پاکستان اِس کا فائدہ اْٹھا لے۔
استحکام پاکستان پارٹی کو کوئی کنگز پار ٹی کا نام دے رہا ہے تو کوئی الیکٹیبلز کی پارٹی قرار دے رہا ہے، پارٹی منشور اور تنظیمی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں اِس بارے میں کوئی بھی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہو گا۔ اِس نئی سیاسی جماعت کے کرتا دھرتا سیاسی میدان کے منجھے کھلاڑی ہیں، داؤ پیچ سے آشنا ہیں، سیاست کے اسرار رموز اْنہیں از بر ہیں، ملکی حالات بھی اْن کے سامنے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی قومی اْفق پر کیسے اْبھرے گی، پاکستانی سیاست پر اِس کے کیا اثرات ہوں گے اور موجودہ سیاسی عدم استحکام کو کم کرنے میں اِس کا کردار کیا رہے گا۔