حکومت،بجٹ اورتاجر بھائیوں کا ردعمل!

حکومت،بجٹ اورتاجر بھائیوں کا ردعمل!
حکومت،بجٹ اورتاجر بھائیوں کا ردعمل!

  


سیاسی حالات اور پھر بجٹ کے باعث ایک اہم مسئلہ پر لکھنے میں تاخیر ہو گئی۔ خیال تھا کہ ملکی حالات کے حوالے سے حکومتی فیصلے اور تاجر بھائیوں کے ردعمل کے حوالے سے معروضات پیش کروں گا، لیکن 9مئی کے بعد کے حالات اور پھر میزانیے کی آمد کے باعث ادھر متوجہ ہوا۔ اب چونکہ آج بجٹ آ جائے گا اور سیاست میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین نے باقاعدہ نئی جماعت کا اعلان کر دیا اور اس کا جھنڈا بھی دکھا دیا جس اجتماع میں یہ اعلان کیا گیا اس میں تحریک انصاف ہی کے سب حضرات (منحرفین) تشریف فرما تھے اور لوگ حیرت سے پوچھ رہے تھے کہ ان میں سے جو اکثر سیاست ہی چھوڑ چکے اور بعض حضرات نے وقفہ لیا تھا لیکن یہ سب یہاں آکر جمع ہو گئے، اب سوشل میڈیا پر الگ بات ہو رہی اور سوال پوچھے جا رہے ہیں، دلچسپ سوال جو پوچھا گیا وہ یہ ہے کہ لیڈر تو سب جمع ہو گئے کارکن کہاں ہیں؟ اب اس کا جواب تو جہانگیر ترین اور علیم خان کے بعد آنے والے ہی دے سکتے ہیں تاہم میرا خیال یہ ہے کہ جب ایسا سلسلہ ہوتا ہے تو پھر ورکرز بھی آ ہی جاتے ہیں کہ یہ جو لوگ وزیر کبیر بھی رہے ہیں آخرکچھ تو ان کے حمایتی ہوں گے ہی! بہرحال یہ سلسلہ چلا ہے تو آئندہ حالات سے بھی ظاہر ہو جائے گا کہ بات کہاں پہنچتی ہے ابھی تک یہ فیصلہ ہونا ہے کہ ”کنگز پارٹی“ ہو گی یا نہیں۔ میں اس سلسلے میں پیر علی مردان شاہ پیر پگارو کی بات کے حوالے سے اندازہ لگاتا ہوں اور لگاؤں گا کہ جب جلسے شروع ہوں گے تو فرشتے آئیں گے یا نہیں اور اگر آئے تو ان کی تعداد بادشاہوں کی عنایت والی ہو گی یا تسلی دینے والی ہو گی، یہ بات یہیں ختم کرکے آج کی بات کی طرف چلتے ہیں، لیکن اپنے مخدوم شاہ محمود قریشی کی بات کہے بغیر دوسرے موضوع پر جانا مناسب نہیں لگ رہا وہ چیئرمین عمران خان سے ملاقات کے بعد سے اپنی علیل بہن کی عیادت کے حوالے سے گم ہیں اور جس طمطراق سے باہر آکر زمان پارک گئے تھے وہ معلوم نہیں کہاں گیا؟ ان کے اپنے حلقے کے لوگ بہت باتیں بتا رہے ہیں اور ملتان سے جو اطلاعات ملی ہیں ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ کپتان نے اپنے اس اوپنر اور بڑے کھلاڑی کو مایوس کر دیا ہے اور میرے ایک معتبر صحافی دوست کے مطابق دوچار ہاتھ دربام رہ جانے والی بات ہوگئی اور دیرینہ منصوبہ پورا نہیں ہوا اور شاید اب نہ ہو سکے، بہرحال مخدوم صاحب مراقبے سے باہر آئیں گے تو پتہ چلے گا۔


یہ سلسلے تو چلتے ہی رہیں گے اور آج (جمعہ) شام تک سالانہ بجٹ نے جو کرنا ہے وہ بھی ہو چکا ہوگا تاہم جو بات رہ گئی تھی وہ آج کر ہی دیں تو بہتر ہوگا۔ میں اپنے بزرگوں اور علماء حق کی بات کروں تو وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے رسول ؐ برحق نے جو ہدایات فرمائیں، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ صبح جلد اٹھیں اور رات کو جلد سوئیں، ممکن ہو تو رات (تہجد کے وقت) عبادت بھی کر لیں، ہمارے بزرگ تو بہرحال اس روائت پر دل و جان سے عمل کرتے تھے اور نماز فجر کے لئے اٹھتے تو پھر ادائیگی فرض کے بعد ہی اپنے کام کاج کی فکر کرتے تھے، میں قارئین کو ذرا ماضی میں لئے چلتا ہوں، زیادہ دور نہیں 1946ء اور اس کے بعد کے سالوں کی بات کرتے ہیں، میں پرائمر ی سکول کا طالب علم تھا، پیدائش اندرون اکبری دروازہ (منڈی) کی ہے، اس منڈی میں ننانوے فیصد دکانیں ہندوؤں کی تھیں، دودھ دہی، گوشت، گھی اور کلچے، نان، حلوائی کی دکانیں ہمارے مسلمان بزرگوں کی تھیں، مجھے سکول جانے سے قبل بازار سے کلچے اور دہی لانا ہوتا تھا کہ ناشتہ ہو جائے گرمیوں میں دہی کلچہ اور لسی سے کیا جاتا تو سردیوں میں کلچے دیسی گھی میں تل کر براؤن کرکے سبز چاء (کشمیری چاء) کے ساتھ دیئے جاتے تھے۔ میں جب بازار میں پہنچتا تو اس وقت صبح کے سات بجے کے بعد کا وقت ہوتا  اکبری منڈی کے لالہ لوگ (ہندو تاجر) دکانیں کھول کر صفائی کرتے اور پانی چھڑکتے نظر آتے تھے۔ اس دوران کوئی سادھو ٹائپ بندہ ہاتھ میں پیالیاں پکڑے آتا اور ”ہرمل“ کا دھواں دکانوں کے اندر سے پھراتا اور دو چار پیسے یا آنہ دوانی لے کر چلا جاتا تھا یہ معمول تھا اور یہ سب دکانیں سورج غروب ہونے کے ساتھ بند ہونا شروع ہو جاتیں اور مغرب کی نماز کے اختتام تک پورا بازار بند ہو جاتا یہی کیفیت پورے لاہور اور دیگر شہروں کی تھی پھر یہی معمول 1947ء  اور اس کے بعد بھی رہا اور صبح کو دکانیں کھلتیں اور مغرب کے وقت بند ہو جاتی تھیں، البتہ دودھ دہی، حلوائی اور نان پکوڑوں والی دکانیں رات دس بجے تک کھلی ہوتی تھیں۔

پھر نہ جانے کب اور کس سال سے یہ سلسلہ بتدریج تبدیل ہونا شروع ہوا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہم مسلمان اپنے نبیؐ کی نصیحت کو بھول گئے دن کو پڑے سوتے رہے، نمازی مسجد سے آکر گھر میں اینٹھ جاتے اور اپنا کاروبار دوپہر کے بعد شروع کرتے اور رات گئے تک دکانیں اور مارکیٹیں کھلی رکھتے اور یہ معمول اب بھی جاری ہے اور ہمارے یہ تاجر بزرگ اور بھائی اس کو تبدیل بھی نہیں کرنا چاہتے، پوری دنیا، حتیٰ کہ حریف ہمسائے بھارت میں بھی تمام کاروبار سورج غروب ہونے کے ساتھ بند ہو جاتے ہیں۔ صرف ادویات اور کھانے پینے کی دکانوں کو استثنیٰ ہوتا ہے کہ یہ عادت اور قانون بھی ہے لیکن ہم یہاں اپنی عادت تبدیل کرنے کو تیار نہیں ہیں، سابقہ حکومتوں نے کوشش کی تاجر رات دس بجے کاروبار بند کرنے پر راضی نہ  ہوئے، البتہ کورونا وباء کی تیزی کے دوران ایسا ممکن ہوا، جو بتدریج ختم کر دیا گیا، حالانکہ یہ ہدائت بھی ہے اور اس سے کئی فائدے بھی ہوتے ہیں، اب حکومت نے رات  8بجے کاروبار بند کرنے کی بات کی تو تاجر بھائیوں نے فوراً ہی اسے مسترد کر دیا احسن اقبال انرجی کی بچت کی بات کرتے ہیں تو تاجر بھائی ملک کا ذکر کرتے اور اب کہہ رہے ہیں کہ پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا اب مزید ہوگا۔ یہ نفاذ یکم جولائی سے ہونا اور بقول احسن اقبال عمل درآمد صوبوں کو کرانا ہے ابھی تک بجٹ کے ہنگامے کی وجہ سے حکومت اور تاجر نمائندوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ دیکھتے ہیں کہ اس بار کون پیچھے ہٹتا ہے۔ اگرچہ جلد دکانیں بند کرنے کا فیصلہ دینی اور دنیاوی لحاظ سے بھی بہتر ہے ذرا توجہ دیں تو دفاتر اور تعلیمی ادارے بھی صبح ہی کھلتے ہیں اور لوگ بچوں کو چھوڑ کر بھی آتے ہیں اور پھر ناشتے اور اشیاء ضرورت (گراسری+چکن+گوشت+ کریانہ) کی دکانیں بھی تو 8سے نو بجے کے دوران ہی کھلتی ہیں، اس لئے اگر بڑی مارکیٹوں اورتھوک کاروبار والے بھائی بھی اوقات تبدیل کریں تو جلد ہی عادی بھی ہو جائیں گے، ملکی بچت تو اپنی جگہ خود ان کو بھی آرام اور گھریلو کام کاج کا وقت مل جائے گا۔


بات مکمل کرنے سے پہلے ایک اور روائت کا ذکر لازم ہے، ماضی میں اشیاء سستی اور مجموعی طور پر (95فیصد) خالص ملتی تھیں۔ دودھ دہی کا جو مزہ بچپن اور لڑکپن میں آیا، اب کہاں؟ 
مجھے یاد ہے کہ اس دور میں ہر دکاندار چاچا اور ہم جیسے لڑکے بھتیجے تھے۔ گوشت والی دکان پر جا کر سلام کرتے ایک پاؤ گوشت لینا ہوتا، چاچا قصائی ٹکڑا کاٹ کر پہلے صاف کرتا، پھر تولتا اور ترازو کا پلڑا جھکا ہوتا تھا، اسی طرح دہی اور دودھ والے دکان دار پیمانے سے سودا دیتے تو مزید ضرور ڈالتے تھے۔ آج بکرے کا گوشت21 سو روپے فی کلو بیچا جا رہا ہے۔ تول ڈیجیٹل کانٹے سے ہوتا ہے جو بہت ہی معمولی فرق بھی گرام تک بڑھا دیتا ہے اور پھر اوپر چلنے والا پنکھا بھی گرام بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ قصاب صاف کئے بغیر تولتا  اور جب قصائی کے بعد گاہک کلو کا وزن کرائے تو کم از کم دو سو گرام کم ہو گیا ہوتا ہے۔ کیا ہم اس ماضی جیسے بھی نہیں ہو سکتے؟

مزید :

رائے -کالم -