شکر گزاری نعمت کو بڑھاتی ہے

  شکر گزاری نعمت کو بڑھاتی ہے
  شکر گزاری نعمت کو بڑھاتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 شکر گزاری ایک کیفیت ہے، ایک سوچ ہے، ایک فکر ہے، ایک قلبی واردات ہے، آپ کے پاس کیا ہے، کیوں ہے، کیا جو کچھ آپ کو ملا اس پر آپکا استحقاق تھا۔ کیا سب کچھ آپکو آپکی صلاحیتوں کے مطابق ملا یا بہت سے با صلاحیت لوگ آپ سے بہتر عقل و فکر اور فہم و فراست کے حامل، جسمانی طور پر زیادہ خوبصورت اور تنومند ان نعمتوں سے محروم ہیں  اور اگر یہ سب خدائی تقسیم ہے تو پھر اس ذات باری کا شکر ادا کیوں نہ کیا جائے جس نے یہ سب نعمتیں ہمیں عطا کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اتنی بے پایاں اور ان گنت نعمتیں اور انعامات عطا کرتے ہوئے ہماری خوبیوں اگر کوئی ہیں کو تو نہیں دیکھا، اس مالک کائنات نے تو اتنا کچھ عطا کرتے ہوے ہماری لغزشوں اور کو تاہیؤں کو بھی نظر انداز کر دیا، پھر بھی نا شکری سمجھ سے بالاتر ہے اگر اللہ تعالیٰ صرف انسان کی اچھی کارکردگی پر اپنی نعمتیں نچھاور کرتا تو بہت سے لوگ بھوکے مر جاتے۔ وہ تو کریم ہے، رحیم ہے, اسکے ہاں تو عطا ہی عطا ہے۔ وہ تو سورہ النساء کی آیت نمبر 147 میں میں فرماتے ہیں " کہ اگر تم شکر گزار رہو اور اس پر ایمان لے آو, تو  خدا تم کو عذاب دے کر کیا کرے گا. اور خدا تو قدر شناس اور دانا ہے۔


ناشکری کب شروع ہوتی ہے جب انسان اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتا ہے کہ جو کچھ اسے مل رہا ہے، جو کچھ اسکے پاس ہے یہ سب اسکی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا مرہون منت ہے۔ اسے یہ وہم بھی بسا اوقات تنگ کرتا ہے کہ اسے اسکی صلاحیتوں سے شاید کم مل رہا ہے، وہ فلاں سے زیادہ قابل ہے، وہ اس سیے زیادہ ذہین ہے، مگر اسے اتنی پزیرائی نہیں مل رہی۔ یہ سب ناشکری کی باتیں اور اشارے ہیں، آپ بازار سے یا سڑک پر گزرتے ہوئے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ  چلچلاتی دھوپ میں یہ فروٹ اور سبزی کی ریہڑی لگانے والے کے رنگ اور خون میں اور اسکے سامنے سے  ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں گزرنے والے کے رنگ اور خون میں کیا فرق ہے۔ یہ اللہ کا احسان عظیم نہیں ہے کہ آپ ٹھنڈی گاڑی میں بیٹھے ہیں اور وہ سڑک کنارے دھوپ اور بارش میں گاہک کے انتظار میں فکر معاش میں مگن کھڑا ہے اور پھر بھی دو چار روپے سستا کرانے کے لیے اس سے بحث بھی کرتے ہو اور ممکن حد تک بے عزتی بھی۔ سخت گرمی میں سر پر اینٹیں اٹھاتا مزدور کیا کوئی دیگر مخلوق ہے کہ ہم ٹھنڈے کمرے میں ٹی وی دیکھتے ہوئے اور مرغن غذائیں کھاتے ہوے ان سب نعمتوں پر اپنا استحقاق سمجھتے ہیں اور دوسری طرف نان جویں کی تگ و دو میں سر تا پا پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ ناشکری میں نہیں آتا۔ اگر آپکے بچے کسی اچھے اور مہنگے تعلیمی ادارے میں پڑھ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر تو بنتا ہے کہ آپکے آس پاس کے بہت سے بچے سرکاری سکولوں میں بغیر کسی سہولت کے زیر تعلیم ہیں۔ ایک مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کچھ صحابہؓ کے ساتھ تازہ کجھوریں اور ٹھنڈا پانی نوش کیا تو فرمایا کہ ان نعمتوں کا حساب دینا پڑے گا۔ 

آپ کو اللہ تعالیٰ نے صحت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ہے۔ اپنی ٹانگوں پر چل رہے ہو، پیٹ بھر کر کھانا کھا رہے ہو اور ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہو تو چند لمحوں کے لیے کسی ہسپتال کا رخ کرکے دیکھ لو کہ بیماری کسے کہتے ہیں۔جہاں ایسے مریض بھی نظر آئیں گے جنہوں نے مدت سے چار قدم چل کر نہیں دیکھا، جنہوں نے عرصہ سے اپنے ہاتھوں سے روٹی کے دو لقمے نہیں لیے۔ کھلی فضا میں سانس لینے والے وینٹیلیٹرز پر پڑھے مریض کی کسمپرسی کیا جانیں۔ اگر شکر گزاری اپنی عادت کا حصہ بنا لیں تو قدم قدم پر اللہ کی نعمتوں کے اتنے دلکش اور ہوش ربا مناظر دیکھو گے کہ دل سے بے اختیار اپنے رب کے لیے شکر گزاری اور ہدیہ سپاس کے جذبات امنڈتے چلیں آئیں گے۔ زبان سے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بھی بلاشبہ بڑی اہمیت رکھتاہے مگر اصل شکر جو اللہ کے ہاں مقبول اور معتبر ہے کہ اسکی مخلوق کو ان نعمتوں میں شریک کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے رکھی ہیں اور دوسروں کو اس سے محروم رکھا ہے۔ ضرورت اور حاجت مندوں پر اللہ کے دیے ہوے مال میں سے خرچ کرنا، کسی یتیم اور مسکین کی حاجت روائی اور کسی کار خیر میں مال خرچ کرنا، تکلیف اور پریشانی میں مبتلا کسی بے کس کی مدد کرنا اور کسی غریب مسکین کو کھانا کھلا دینا شکر گزاری کے بہترین مظاہر ہیں۔کیا یہ کم ہے کہ کسی انسان کی ضروریات آپ سے منسلک ہیں اور اسکے ساتھ آپکی فیاضی اور  حسن سلوک اسی شکر گزاری کے مظہر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم و کریم ہے اسکا وعدہ ہے  کہ تم شکر گزاری کرو وہ تم پر نعمتیں نچھاور کرے گا اور تمہارے مال، جان، عزت اور مال و متاع میں برکت ڈالے گا۔ شکر گزاری گھاٹے کا سودا نہیں بلکہ دنیا اور آخرت کی بھلائی اور نجات کا سبب ہے۔انسانی زندگی میں کامیابی کا اپنا ہی ایک نشہ ہوتا ہے، اس پر مان کرنا اور احساس تفاخر کا شکار ہونا فطری ہے، لیکن  ہر کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا کرم اور فضل گردانتے اور  اسکا شکر ادا کرتے  ہوے آگے بڑھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔کامیابی کو اپنے کھاتے میں ڈالنا اور ناکامی کو مقدر کے سپرد کر دینا بھی ناشکری ہے۔ شکر گزاری سے انسان کے مزاج میں بھی عاجزی و انکساری پیدا ہوتی ہے اور شکر گزار بندہ اپنے رب کی قربت کی طرف ہمہ وقت گامزن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے۔

مزید :

رائے -کالم -