کیا مستقبل قریب میں انتخابات ہوں گے؟

اس وقت ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ تین ماہ بعد جب ان اسمبلیوں کی آئینی مدت مکمل ہو گی تو کیا ہوگا؟حالات سے تو لگتا ہے انتخابات نہیں ہوں گے کیونکہ جب تک موجودہ سیٹ اپ کے ذمہ داروں کو اس بات کا یقین نہیں ہو جائے گا کہ انتخابات ان کے حق میں مطلوبہ نتائج دیں گے اُس وقت تک انتخابات کا خطرہ مول لینا ان کے لئے آسان نہیں ہوگا، ایک خیال یہ بھی ہے کہ جس تیزی سے جوڑ توڑ ہو رہا ہے، وہ انتخابات وقت پر ہونے کی نوید سنا رہا ہے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی کا وجود میں آنا اور تیزی سے اُس میں سیاسی شخصیات کا شامل ہونا، اس امر کی گواہی ہے کہ کچھ تو ایسا ہے، جس میں جلد بازی دکھائی جا رہی ہے۔ کل دانشوروں کی ایک محفل میں شرکت کا موقع ملا جس میں کچھ سیاستدان بھی موجود تھے،موضوعِ بحث یہ نکتہ تھا کہ موجودہ حالات میں عمران خان کا مستقبل کیا ہے؟ اگلے سیٹ اپ کا انحصار بھی اسی نکتے پر منحصر ہے،اکثریت کی رائے تھی عمران خان کو انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا،وہ یا تو نااہل کر دیئے جائیں گے یا پھر جیل میں ہوں گے۔ اس پر ایک دوسری رائے یہ تھی کہ عمران خان چاہے منظر پر ہوں یاپس منظر میں ان کی ایک عوامی مقبولیت ہے جو بہرحال اپنا کردار ادا کرے گی۔ تحریک انصاف عام انتخابات ہونے کی صورت میں کیسے حصہ لیتی ہے، اس کا اندازہ بھی انتخابات کے اعلان پر ہی ہوگا۔ موجودہ صورتِ حال میں تحریک انصاف کے پاس امیدوار بھی موجود نہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ جو امیدوار بننا چاہے گا اس کے ساتھ کیا بیتے گی۔ 9مئی سے پہلے عمران خان نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اُن کے ساتھ کیا ہونے والا ہے یا کیا ہو سکتا ہے، اندازے کی غلطی کے باعث وہ دیوار سے لگ گئے ہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے مخالفین کو فری ہینڈ مل گیا ہے اس سارے معاملے کا ایک بڑا اور اہم فریق عوام ہیں، وہ سب کچھ بغور دیکھ رہے ہیں اور جس طرح راتوں رات وفاداریاں تبدیل ہو رہی ہیں، وہ بھی ان کے سامنے ہیں۔ پاکستان میں ویسے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، اس کی تازہ مثال باغ آزاد کشمیر کا الیکشن ہے، جس میں پیپلزپارٹی کے امیدوار کو ساڑھے بائیس ہزار اور پی ٹی آئی کے امیدوار کو صرف ساڑھے چار ہزار کے قریب ووٹ ملے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف کا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ووٹر ابھی تک پارٹی کے ساتھ کھڑا ہے، اس ووٹر کو کیسے رام کرنا ہے، یہ سب سے اہم ٹاسک ہے جسے پی ڈی ایم کی جماعتیں کر پاتی ہیں یا نہیں، وقت بتائے گا۔
جس نئی استحکام پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے، اُس کا اصل ہدف یہی ہے کہ تحریک انصاف کے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کیا جائے، اس جماعت کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے جو تقریر کی اس کا سارا زور بھی اسی پر تھا کہ ہم نے بڑی محنت سے تحریک انصاف کے لئے کام کیا۔ اُس کی خاطر اپنا سکھ چین گنوایا، مقصد یہی تھا کہ ملک میں تبدیلی لائے جائے، عوام کی زندگی میں خوشحالی آئے، انہیں انصاف ملے، روزگار فراہم کیا جائے، وغیرہ وغیرہ مگر اس حوالے سے عمران خان نے کوئی کام نہیں کیا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) پہلے ہی تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف علم اٹھائے ہوئے ہیں۔ اب استحکامِ پاکستان پارٹی بھی ان میں شامل ہو جائے گی تو کیا فرق پڑے گا؟ اس سے ایک جڑا ہوا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات ہوئے تو وہ شفاف ہوں گے؟ اگر تحریک انصاف کو پری پول رگنگ کے ذریعے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے فری ہینڈ ہی نہیں دیا جاتا تو انتخابات کی شفافیت ویسے ہی سوالیہ نشان بن جائے گی اگر عمران خان کو بھی منظر سے ہٹا دیا جاتا ہے اور تحریک انصاف کے امیدوار بھی سامنے نہیں آتے تو یہ بھی قابلِ قبول انتخابات کو یقینی بنانے کے دعوؤں پر سوالیہ نشان اٹھائیں گے، یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف اگر آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لیتی یا اُسے نہیں لینے دیا جاتا تو اُس کا ٹرن آؤٹ پر اثر پڑے گا کیونکہ نوجوانوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد اُس جوش و جذبے سے محروم ہو جائے گی جو اُسے تحریک انصاف کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی اس خلاء کو پورا نہیں کر سکتی جو تحریک انصاف کی عدم موجودگی سے پیداہو سکتا ہے۔
ملک کے مجموعی مفاد میں تو یہی ہے کہ وقت مقررہ پر عام انتخابات کو یقینی بنایا جائے۔ نہ صرف یقینی بنایا جائے بلکہ ہر سیاسی جماعت کو بغیر کسی رکاوٹ کے ان میں حصہ لینے کا موقع بھی فراہم کیا جائے۔ 9مئی کو جو واقعات ہوئے اُن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی جاری رہنی چاہیے تاہم اس کی وجہ سے وقت پر انتخابات کا عمل متاثر نہیں ہونا چاہیے، نئی سیاسی جماعت کو اگر تحریک انصاف کے متبادل کی حیثیت سے میدان میں اُتارا جا رہا ہے تو یہ اس حوالے سے ایک خام خیالی ہے کہ اتنی جلد کسی مقبول سیاسی جماعت کا متبادل تلاش نہیں کیا جا سکتا، پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ عمران خان کو سیاست سے مائنس کرنا ممکن نہیں۔ اِن لوگوں کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں جو تحریک انصاف کو چھوڑ گئے ہیں اور اب عمران خان کے بارے میں اپنے منفی خیالات کا اظہار کررہے ہیں کیونکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے عمران خان کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اُنہیں صدیوں بعد پیدا ہونے والا لیڈر قرار دیا۔ یکدم یوٹرن لینے سے عوام کو کیسے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ غالب امکان تو یہی ہے کہ ان لوگوں کو انتخابات میں اپنے حلقے کے ووٹرز کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنے پڑے گا اگر یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی غیبی طاقت اُنہیں زیر سے زبر کر سکتی ہے تو یہ اُن کی خوش فہمی بھی ہو سکتی ہے تاہم ملک میں چونکہ انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سوالات اُٹھتے رہے ہیں، اس لئے یہ سمجھا جاتا ہے کہ نتائج وہی نکلتے ہیں جو پیا من بھا جائیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) یہ کیوں چاہیں گی کہ کوئی نئی سیاسی جماعت اُن پر مسلط کر دی جائے۔ جب تک تحریک انصاف پر پابندی لگا کر اُسے انتخابی عمل سے باہر نہیں کیا جاتا اُس وقت تک تو یہ خطرہ منڈلاتا رہے گا کہ وہ زیادہ نہیں تو اتنا شیئر ضرور حاصل کر سکتی ہے جو مستقبل کے سیاسی نقشے کے لئے اُس کی موجودگی کو یقینی بنائے۔ ویسے تو ایک تاثر یہ بھی موجود ہے کہ اگر تحریک انصاف اور عمران خان کو انتخابات میں حصہ لینے کے لئے فری ہینڈ دیا گیا تو وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بڑی کامیابی حاصل کر سکتی ہے لیکن چونکہ اس وقت سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ تحریک انصاف کو فری ہینڈ ملتا ہے یا نہیں، اس لئے سارا سیاسی عمل ابہام کا شکار ہے جو ملک کے لئے کسی بھی طرح نیک شگون نہیں کیونکہ سیاسی استحکام تبھی آ سکتی ہے، جب ایک شفاف الیکشن کے ذریعے ملک کو نئی اور نمائندہ حکومت ملے، جو فی الوقت ملتی نظر نہیں آ رہی۔